ڈاکٹر مطلوب حسین اپنے کالم دل آئینہ ساز (مطبوعہ ایکسپریس 24 اکتوبر 2008ء) میں لکھتے ہیں۔
سائنسدانوں کی ریسرچ یہ ہے کہ روشنی کی سپیڈ ایک لاکھ 82 ہزار 2 سو میل فی سیکنڈ ہے۔ سائنسدان روشنی کی سپیڈ کو سب سے تیز رفتارچیز مانتے ہیں ۔ اُن کی بات میں وزن بھی ہے ۔ وزن اس لئے ہے کہ روشنی کی یہ سپیڈ اتنی سریع ہے کہ روشنی کی ایک لہر ایک سیکنڈ میں زمین کے گلوب کے گرد آٹھ مرتبہ گھوم جاتی ہے۔
جیسا کہ عرض کیا کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ بیاسی ہزار دو سو میل فی سیکنڈ ہے۔ اگر روشنی کی ایک لہر اپنی پوری رفتار سے ایک سال تک چلتی رہے، تو ایک سال میں جتنا فاصلہ طے ہوگا اسے ’’ایک نوری سال کہیں گے‘‘۔ اگر حساب کیا جائے تو ایک سال میں یہ فاصلہ 57 کھرب ،39 ارب میل ہو گا ، جو کلومیٹروں میں 91 کھرب ، 82 ارب کلومیٹر بنتا ہے۔ آئن سٹائن کا کہنا ہے کہ اگر روشنی کی ایک لہر ایک لاکھ بیاسی ہزار دو سو میل فی سیکنڈ کی رفتار سے کائنات کے ایک سرے سے دوسرے کی جانب سفر کرتی ہے تو وہ اپنا سفر کم و بیش 3 ارب نوری سال میں مکمل کر سکے گی۔ یہاں سے کائنات کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اب آپ ایک نوری سال کے دوران طے کئے گئے 57 کھرب، 39 ارب میل کے فاصلے کو 3 ارب نوری سال سے ضرب دیں۔ ہمارا شعور اتنی لمبی چوڑی گنتی کو گن ہی نہیں سکتا۔ یہاں آ کر انسان کا ذہن مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے ، اور اپنے آپ پر اترانے والا انسان پھر یہ خوب جان لیتا ہے کہ اتنی زیادہ وسیع و عریض کائنات میں اس کی اپنی حیثیت کیا ہے؟ پھر خدا کا وجود تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ۔ آئن سٹائن بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ اتنی بڑی منظم کائنات کو چلانے والا کوئی تو ہے۔
آئن سٹائن کے مفروضے کے مطابق کائنات کا قُطر تین ارب نوری سال کے برابر ہے۔ آئن سٹائن نے یہ بھی کہا کہ اگر اس عظیم کائنات کے کسی گوشے میں کھربوں ستاروں پر مشتمل کوئی کہکشاں کریش ہو جائے یا دفعتاً بکھر جائے تو کائنات میں موجود ایک قوت’’ قوت جاذبہ کی لہریں‘‘ آناً فاناً اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہیں اور نظام کائنات کا بیلنس قائم رہتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کائنات کے کسی گوشے میں اپنی عمر پوری کر کے فنا ہونے والا ستارہ یا سیارہ اپنی موت کے ساتھ کائنات میں ایسا ارتعاش پیدا کر دے کہ جس کی بناء پر یہ سارا نظام درہم برہم ہو جائے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ قوت جاذبہ کی لہروں کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ یہ کائنات کے ایک سرے سے دوسرے تک ’’سڈن لی‘‘ پہنچ جاتی ہیں۔ دنیا کے موجودہ سائنسدان اب تک اسی قوت جاذبہ کی لہروں کو کائنات کی سب سے تیز رفتار چیز مان رہے ہیں … لیکن کچھ لہریں ایسی بھی ہیں کہ جو قوت جاذبہ کی لہروں سے بھی انتہائی زیادہ سریع السیر اور بہت زیادہ تیز رفتار ہیں۔ ان کی سپیڈ اتنی زیادہ اور تیز ہے کہ کائنات کے بہت دور دراز زمانی و مکانی فاصلے نہ صرف ان کی گرفت میں ہیں بلکہ یہ لہریں ان فاصلوں کو در خور اعتناء ہی نہیں سمجھتیں۔ ان لہروں کا منبع انسانی ذہن ہے۔ عرف عام میں انہیں’’ انا کی لہریں‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔
انسان کو ایک صلاحیت دی گئی ہے کہ جسے ’’ تجسس‘‘ کی صلاحیت کہتے ہیں۔ تجسس کی صلاحیتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ دنیا کا کوئی انسان جب انہیں استعمال کرتا ہے تو اس کا ذہن ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچ جاتا ہے۔ انسانی تجسس اور ذہن کی قوت پرواز اتنی زیادہ ہے کہ ماورائے کائنات بھی انسانی ذہن اور تجسس کی گرفت میں ہے۔ بہت زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ قرآن میں تقریباً ساڑھے سات سو آیات ایسی ہیں کہ جن میں کائنات پر تفکر، تسخیر،سوچ بچار اور غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے… کیونکہ جب ہم ریسرچ ، تفکر او ر تجسس کی صلاحیتیں استعمال کرتے ہیں تو لا محالہ ، ہمارا ذہن ماورائے کائنات میں موجودوریٰ الوریٰ ہستی ’’ اللہ تعالیٰ ‘‘ کی طرف چلا جاتا ہے۔
کائنات کی وسعت اور روشنی کی رفتار
