• 19 اپریل, 2024

سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 3۔اپریل2020ء اسلام آباد، ٹلفورڈ، (سرے)، یوکے

خطبہ جمعہ

جنگ احد کے موقع پر جس شخص نےرسول کریم ﷺ کے چہرۂ مبارک کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو کھڑا کیا وہ طلحہؓ تھا

جنگِ جمل کی وجوہات، حالات و واقعات اور اس کے بارے میں اٹھنے والے بعض سوالات کے تسلی بخش جوابات

جنگِ جمل میں صحابہؓ کا ہرگز کوئی دخل نہ تھا بلکہ یہ شرارت بھی قاتلانِ عثمانؓ کی ہی تھی

انبیاء جب دنیا میں آتے ہیں تو ان کے ابتدائی ایام میں جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہی بڑے سمجھے جاتے ہیں

طلحہ جن کو بعض حقارت کے ساتھ ٹُنڈا کہتے تھے ان کا ٹنڈا ہونا ایسی نعمت ہے کہ ہر شخص اس برکت کے لیے ترس رہا ہے

کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے موجودہ ہنگامی حالات میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ایک اقتباس کے حوالے سے گھروں کو صاف رکھنے نیز حکومت کی طرف سے دی جانے والی ہدایات کی پابندی کرنے کی تلقین

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

آج کل کے حالات کے مطابق اور جو قانون یہاں کی حکومت نے بنایا ہے اس کے مطابق باقاعدہ لوگوں کو سامنے بٹھا کے کہ مقتدی سامنے بیٹھے ہوں، سننے والے سامنے بیٹھے ہوں خطبہ نہیں دیا جا سکتا اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی جتنی، جس حد تک اجازت ہے اس کے مطابق آج یہاں انتظام کیا گیا ہے کہ مسجد سے ہی مَیں خطبہ دوں کیونکہ دنیا میں بہرحال اس وقت خطبہ سننے والے ہزاروں لاکھوں ہیں چاہے مسجد میں میرے سامنے اس وقت کوئی ہو یا نہ ہو۔ وحدت قائم رکھنے کی یہ کوشش ہمیں ہمیشہ کرنی چاہیے اور دعا بھی کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ حالات بھی بہتر کرے۔ اس وبا کو بھی دور کرے اور پھر دوبارہ اُسی طرح مسجد کی رونقیں واپس بھی آ جائیں۔

اب میں خطبےکا جو موضوع ہے اس کو شروع کرتا ہوں۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کا ذکر دو جمعے پہلے کے خطبے میں بیان ہوا تھا یا ہو رہا تھا۔ ان کی شہادت جو جنگِ جمل میں ہوئی تھی اس کے حوالے سے مَیں نے کہا تھا کہ آئندہ بیان کروں گا۔ سو آج اس بارے میں بتاؤں گا۔ اس میں جنگِ جمل کے بارے میں اٹھنے والے بعض سوالات ہیں ان کے بھی کچھ حد تک جواب مل جاتے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے قبل خلافت کی بابت ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ تفصیل لکھی گئی ہے کہ جب حضرت عمر ؓکی وفات کا وقت قریب تھا تو لوگوں نے کہا امیر المومنین وصیت کر دیں۔ کسی کو خلیفہ مقرر کر جائیں۔ انہوں نے فرمایا میں اس خلافت کا حق دار ان چند لوگوں سے بڑھ کر اَور کسی کو نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی حالت میں فوت ہوئے کہ آپؐ ان سے راضی تھے اور انہوں نے یعنی حضرت عمرؓ نے پھر حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت زبیر، ؓ حضرت طلحہؓ اور حضرت سعدؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا نام لیا اور کہا کہ عبداللہ بن عمرؓ تمہارے ساتھ شریک رہے گا لیکن اس خلافت میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ گویا یہ بات عبداللہ کو تسلی دینے کے لیے کہی ہے۔ اگر خلافت سعد کو مل گئی تو پھر وہی خلیفہ ہو۔ ورنہ جو بھی تم میں سے امیر بنایا جائے وہ سعد سے مدد لیتا رہے کیونکہ میں نے اس کو اس لیے معزول نہیں کیا کہ وہ کسی کام کے کرنے سے عاجز تھے اور نہ اس لیے کہ کوئی خیانت کی تھی۔ نیز فرمایا میں اُس خلیفہ کو جو میرے بعد ہو گا پہلے مہاجرین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق ان کے لیے ادا کریں اور ان کی عزت کا خیال رکھیں۔ اور میں انصار کے متعلق بھی عمدہ سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ انہوں نے مہاجرین سے پہلے اپنے گھروں میں ایمان کو جگہ دی۔ جو ان میں سے کام کرنے والا ہو اسے قبول کیا جائے۔ اور میں سارے شہر کے باشندوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے کی اس کو وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ اسلام کے پشت پناہ ہیں اور مال کے محصل ہیں اور دشمن کے کُڑھنے کا موجب ہیں۔ اور یہ کہ ان کی رضا مندی سے ان سے وہی لیا جائے جو ان کی ضرورتوں سے بچ جائے۔ اور میں اس کو بدوی عربوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ عربوں کی جڑ ہیں ا ور اسلام کا مادہ ہیں اور یہ کہ ان کے ایسے مالوں سے لیا جائے جو ان کے کام کے نہ ہوں۔ اور پھر انہی کے محتاجوں کو دے دیا جائے۔ اور میں اس کو اللہ کے ذمے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے کرتا ہوں۔ جن لوگوں سے عہد لیا گیا ہو ان کاعہد ان کے لیے پورا کیا جائے اور ان کی حفاظت کے لیے ان سے مدافعت کی جائے اور ان سے بھی اتنا ہی لیا جائے جتنا ان کی طاقت ہو۔

جب آپؓ فوت ہو گئے تو ہم ان کو لے کر نکلے اور پیدل چلنے لگے تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے حضرت عائشہؓ کو السلام علیکم کہا اور کہا عمر بن خطابؓ اجازت مانگتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کو اندر لے آؤ۔ چنانچہ ان کو اندر لے گئے اور وہاں ان کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھ دیئے گئے۔ جب ان کی تدفین سے فراغت ہوئی تو وہ آدمی جمع ہوئے جن کا نام حضرت عمرؓ نے لیا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا اپنا معاملہ اپنے میں سے تین آدمیوں کے سپرد کر دو۔ حضرت زبیرؓ نے کہا میں نے اپنا اختیار حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو دیا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ نے حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ سے کہا آپ دونوں میں سے جو بھی اس امر سے دستبردار ہو گا ہم اسی کے حوالے اس معاملے کو کر دیں گے اور اللہ اور اسلام اس کا نگران ہوں۔ اور وہ ان میں سے اسی کو تجویز کرے گا جو اس کے نزدیک افضل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل ہے۔ اس بات نے دونوں بزرگوں کو خاموش کر دیا یعنی انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر حضرت عبدالرحمٰنؓ نے کہا کیا آپ اس معاملے کو میرے سپرد کرتے ہیں اور اللہ میرا نگران ہے کہ جو آپ میں سے افضل ہے اس کو تجویز کرنے کے متعلق کوئی بھی کمی نہیں کروں گا۔ ان دونوں نے کہا اچھا ۔ پھر عبدالرحمٰنؓ ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑکے الگ لے گئے اور کہنے لگے آپ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ کا تعلق ہے اور اسلام میں بھی وہ مقام ہے جو آپ بھی جانتے ہیں۔ اللہ آپ کا نگران ہے۔ بتائیں اگر میں آپ کو امیر بناؤں تو کیا آپ ضرور انصاف کریں گے؟ اور اگرمیں عثمان کو امیر بناؤں تو آپ اس کی بات سنیں گے اور ان کا حکم مانیں گے؟ پھر حضرت عبدالرحمٰنؓ دوسرے کو تنہائی میں لے گئے اور ان سے بھی ویسے ہی کہا۔ جب انہوں نے پختہ عہد لے لیا تو کہنے لگے عثمان آپ اپنا ہاتھ اٹھائیں اور انہوں نے ان سے بیعت کی اور حضرت علیؓ نے بھی ان سے بیعت کی اور گھر والے اندر آ گئے اور انہوں نے بھی ان سے بیعت کی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب قصۃالبیعۃ حدیث 3700)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتخابِ خلافت حضرت عثمان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کا یوں ذکر فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ جب زخمی ہوئے اور آپؓ نے محسوس کیا کہ اب آپؓ کا آخری وقت قریب ہے تو آپؓ نے چھ آدمیوں کے متعلق وصیت کی کہ وہ اپنے میںسے ایک کو خلیفہ مقرر کر لیں گے۔ وہ چھ آدمی یہ تھے۔ حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن وقاصؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ ۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو بھی آپؓ نے اس مشورے میں شامل کرنے کے لیے مقرر فرمایا مگر خلافت کا حقدار قرار نہ دیا اور وصیت کی کہ یہ سب لوگ تین دن میں فیصلہ کریں اور تین دن کے لیے صہیبؓ کو امام الصلوٰة مقر ر کیا اور مشورہ کی نگرانی مقداد بن اسودؓ کے سپرد کی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب کو ایک جگہ جمع کر کے فیصلہ کرنے پر مجبور کریں اور خود تلوار لے کر دروازے پر پہرہ دیتے رہیں اور فرمایا کہ جس پر کثرتِ رائے سے اتفاق ہو سب لوگ اس کی بیعت کریں اور اگر کوئی انکار کرے تو اسے قتل کر دو لیکن اگر دونوں طرف تین تین ہو جائیں تو عبداللہ بن عمرؓ ان میں سے جس کو تجویز کریں وہ خلیفہ ہو۔ اگر اس فیصلے پر وہ راضی نہ ہوں تو جس طرف عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہوں وہ خلیفہ ہو۔ آخر پانچوں اصحابؓ نے مشورہ کیا۔ کیونکہ طلحہؓ اس وقت مدینہ میں نہ تھے مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ بہت لمبی بحث کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ اچھا جو شخص اپنا نام واپس لینا چاہتا ہے وہ بولے۔ جب سب خاموش رہے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے کہا کہ سب سے پہلے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں۔ پھر حضرت عثمانؓ نے کہاپھر باقی دو نے۔ حضرت علیؓ خاموش رہے۔ آخر انہوں نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے عہد لیا کہ وہ فیصلہ کرنے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے یعنی حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ فیصلے میں کوئی رعایت نہیں کریں گے۔ انہوں نے عہد کیا اور سب کام حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے سپرد ہو گیا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ تین دن مدینے کے گھر گھر گئے اور مردوں اور عورتوں سے پوچھا کہ ان کی رائے کس شخص کی خلافت کے حق میں ہے؟ سب نے یہی کہا کہ انہیں حضرت عثمانؓ کی خلافت منظور ہے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عثمانؓ کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا اور وہ خلیفہ ہو گئے۔

(ماخوذ از خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد 15صفحہ 488-489)

یہ تاریخوں کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ کا بیان ہے۔
فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت طلحہؓ حضرت عمرؓ کی وصیت کے وقت حاضر نہ تھے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ اس وقت حاضر ہوئے جب حضرت عمر ؓکی وفات ہو چکی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت حاضر ہوئے جب مشاورت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ ایک روایت کے مطابق جسے زیادہ درست قرار دیا گیا ہے۔ وہ حضرت عثمانؓ کی بیعت کے بعد حاضر ہوئے تھے۔

(فتح الباری شرح صحیح البخاری جلد 7 صفحہ 69 کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ حدیث 3700 مطبوعہ دار المعرفہ بیروت۔ از المکتبۃ الشاملۃ)

بہرحال حضرت عثمانؓ خلیفہ منتخب ہوئے اور پھر یہ نظام معمول پر آنے لگا۔ جب حضرت عثمانؓ شہید ہوئے تو تمام لوگ حضرت علی ؓکی طرف دوڑتے ہوئے آئے جن میں صحابہؓ اور اس کے علاوہ تابعین بھی شامل تھے۔ وہ سب یہی کہہ رہے تھے کہ علیؓ امیر المومنین ہیں یہاں تک کہ وہ آپؓ کے گھر حاضر ہو گئے۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں۔ پس آپؓ اپنا ہاتھ بڑھائیے کیونکہ آپؓ اس کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔ اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا یہ تمہارا کام نہیں ہے بلکہ یہ اصحابِ بدر کا کام ہے جس کے بارے میں اصحابِ بدر راضی ہوں تو وہ خلیفہ ہو گا۔ پس وہ سب اصحابِ بدر حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پھر انہوں نے عرض کی ہم کسی کو آپؓ سے زیادہ اس کا حق دار نہیں دیکھتے۔ پس اپنا ہاتھ بڑھائیں کہ ہم آپؓ کی بیعت کریں۔ آپؓ نے فرمایا طلحہؓ اور زبیرؓ کہاں ہیں؟ سب سے پہلے آپؓ کی زبانی بیعت حضرت طلحہؓ نے کی اور دستی بیعت حضرت سعدؓ نے کی۔ جب حضرت علیؓ نے یہ دیکھا تو مسجد گئے اور منبر پر چڑھے۔ سب سے پہلا شخص جو آپؓ کے پاس اوپر آیا اور انہوں نے بیعت کی وہ حضرت طلحہؓ تھے۔ اس کے بعد حضرت زبیرؓ اور باقی اصحابؓ نے حضرت علی ؓکی بیعت کی۔

(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 4 صفحہ107 ذکر علی بن ابی طالب، دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

حضرت طلحؓہ اور حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ وغیرہ نے حضرت علی ؓکی بیعت کی تھی یا نہیں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓد فرماتے ہیں۔ یہ ذکر آپ اپنی ایک تقریر میں کر رہے ہیں جہاں خواجہ کمال الدین صاحب کے بعض اعتراضوں کے جواب میں آپؓ نے یہ ذکر فرمایا اور یہ ذکر بیان کرنا انتہائی ضروری ہے اس لیے میں بیان کر رہا ہوں۔ آپؓ، حضرت مصلح موعوؓد نے فرمایا کہ

’’طلحہؓ اور زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ کے بیعت نہ کرنے سے آپ حجت نہ پکڑیں۔‘‘ یعنی خواجہ صاحب کو کہہ رہے ہیں۔ ’’ان کو انکارِ خلافت نہ تھا بلکہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کا سوال تھا۔ پھر میں آپ کو بتاؤں جس نے آپ سے کہا ہے کہ انہوں نے حضرت علیؓ کی بیعت نہیں کی وہ غلط کہتا ہے۔ حضرت عائشہؓ تو اپنی غلطی کا اقرار کر کے مدینہ جا بیٹھیں اور طلحہؓ اور زبیرؓ نہیں فوت ہوئے جب تک بیعت نہ کر لی۔ چنانچہ چند حوالہ جات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔‘‘ خصائص کبریٰ کی جلد ثانی کا حوالہ ہے۔ حاکم نے روایت کی ہے۔ عربی حصہ ہے وہ میں چھوڑتا ہوں۔ ترجمہ پڑھ دیتا ہوں۔

’’…… حاکم نے روایت کی ہے کہ ثور بن مجزاءنے مجھ سے ذکر کیا کہ میں واقعہ جمل کے دن حضرت طلحہؓ کے پاس سے گزرا۔ اس وقت ان کی نزع کی حالت قریب تھی۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ تم کون سے گروہ میں سے ہو؟ میں نے کہا کہ حضرت امیر المومنین علیؓ کی جماعت میں سے ہوں تو کہنے لگے اچھا اپنا ہاتھ بڑھاؤ تا کہ میں تمہارے ہاتھ پر بیعت کر لوں۔‘‘ چنانچہ انہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی ’’اور پھر جان بحق تسلیم کر گئے۔ میں نے آ کر حضرت علیؓ سے تمام واقعہ عرض کر دیا۔ آپؓ سن کر کہنے لگے۔ اللہ اکبر! خدا کے رسولؐ کی بات کیا سچی ثابت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے یہی چاہا کہ طلحہ میری بیعت کے بغیر جنت میں نہ جائے۔

آپؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔ ’’……حضرت عائشہؓ کے پاس ایک دفعہ واقعہ جمل مذکور ہوا تو کہنے لگیں کیا لوگ واقعہ جمل کا ذکر کرتے ہیں؟ کسی ایک نے کہا جی۔ اسی کا ذکر ہے۔ کہنے لگیں کہ کاش جس طرح اَور لوگ اس روز بیٹھے رہے میں بھی بیٹھی رہتی۔ اس بات کی تمنا مجھے اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دس بچے جنتی جن میں سے ہر بچہ عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام جیسا ہوتا۔‘‘ پھر اگلی بات جو ہے وہ یہ ہے ’’……اور طلحہؓ اور زبیر عشرہ مبشرہ میں سے بھی ہیں جن کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہوئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کا سچا ہونا یقینی ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ انہوں نے خروج سے رجوع اور توبہ کر لی ۔‘‘

(القول الفصل، انوار العلوم جلد 2 صفحہ 318-319)

یہ حوالہ بھی حضرت مصلح موعوؓد نے دیا۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت ،حضرت علی ؓکی بیعت اور جنگِ جمل کا تذکرہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓد فرماتے ہیں کہ

’’قاتلوں کے گروہ مختلف جہات میں پھیل گئے تھے اور اپنے آپ کو الزام سے بچانے کے لیے دوسروں پر الزام لگاتے تھے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ نے مسلمانوں سے بیعت لے لی ہے تو ان کو آپ پر الزام لگانے کا عمدہ موقعہ مل گیا اور یہ بات درست بھی تھی کہ آپؓ‘‘ یعنی حضرت علیؓ ’’کے ارد گرد حضرت عثمانؓ کے قاتلوں میں سے کچھ لوگ جمع بھی ہو گئے تھے۔ اس لیے ان‘‘ مخالفین کو منافقین ’’کو الزام لگانے کا عمدہ موقعہ حاصل تھا۔ چنانچہ ان میں سے جو جماعت مکہ کی طرف گئی تھی۔ اس نے حضرت عائشہؓ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ حضرت عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے جہاد کا اعلان کریں۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہؓ کو اپنی مدد کے لیے طلب کیا۔ حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ نے حضرت علیؓ کی بیعت اس شرط پر کر لی تھی کہ وہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے جلد سے جلد بدلہ لیں گے۔ انہوں نے‘‘ یعنی ان دونوں نے ’’ جلدی کے جو معنی سمجھے تھے۔ وہ حضرت علیؓ کے نزدیک خلاف ِمصلحت تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پہلے تمام صوبوں کا انتظام ہو جائے۔ پھر قاتلوں کو سزا دینے کی طرف توجہ کی جائے کیونکہ اوّل مقدم اسلام کی حفاظت ہے۔ قاتلوں کے معاملہ میں دیر ہونے سے کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح قاتلوں کی تعیین میں بھی اختلاف تھا۔ جو لوگ نہایت افسردہ شکلیں بنا کر سب سے پہلے حضرت علیؓ کے پاس پہنچ گئے تھے اور اسلام میں تفرقہ ہو جانے کا اندیشہ ظاہر کرتے تھے ان کی نسبت حضرت علیؓ کو بالطبع شبہ نہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ فساد کے بانی ہیں۔ دوسرے لوگ ان پر شبہ کرتے تھے۔ اس اختلاف کی وجہ سے طلحہؓ اور زبیرؓ نے یہ سمجھا کہ حضرت علیؓ اپنے عہد سے پھرتے ہیں۔ چونکہ انہوں نے ایک شرط پر بیعت کی تھی اور وہ شرط ان کے خیال میں حضرت علیؓ نے پوری نہ کی تھی اس لیے وہ شرعاً اپنے آپ کو بیعت سے آزاد خیال کرتے تھے۔ جب حضرت عائشہؓ کا اعلان ان کو پہنچا تووہ بھی ان کے ساتھ جا ملے۔‘‘ یعنی حضرت عائشہؓ کے ساتھ ’’اور سب مل کر بصرہ کی طرف چلے گئے۔ بصرہ میں گورنر نے لوگوں کو آپ کے ساتھ ملنے سے باز رکھا لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ طلحہؓ اور زبیرؓ نے صرف اکراہ سے اور ایک شرط سے مقید کر کے حضرت علیؓ کی بیعت کی ہے تو اکثر لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے۔ جب حضرت علیؓ کو اس لشکر کا علم ہوا تو آپ نے بھی ایک لشکر تیار کیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہوئے۔ بصرہ پہنچ کر آپ نے ایک آدمی کو حضرت عائشہؓ اور طلحہؓ اور زبیرؓ کی طرف بھیجا۔ وہ آدمی پہلے حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ آپؓ کا ارادہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا ارادہ صرف اصلاح ہے اس کے بعد اس شخص نے طلحہؓ اور زبیرؓ کو بھی بلوایا اور ان سے پوچھا کہ آپؓ بھی اسی لیے جنگ پر آمادہ ہوئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔‘‘ جو وجہ بتائی تھی۔ ’’اس شخص نے جواب دیا کہ اگر آپ کا منشاء اصلاح ہے تو اس کا یہ طریق نہیں جو آپ نے اختیار کیا ہے۔ اس کا نتیجہ تو فساد ہے۔ اِس وقت ملک کی ایسی حالت ہے کہ اگر ایک شخص کو آپ قتل کریں گے تو ہزار اس کی تائید میں کھڑے ہو جائیں گے اور اس کا مقابلہ کریں گے تو اَور بھی زیادہ لوگ ان کی مدد کے لیے کھڑے ہو جائیں گے۔ پس اصلاح یہ ہے کہ پہلے ملک کو اتحاد کی رسی میں باندھا جائے پھر شریروں کو سزا دی جائے ورنہ اس بدامنی میں کسی کو سزا دینا ملک میں اور فتنہ ڈلوانا ہے۔ حکومت پہلے قائم ہو جائے تو وہ سزا دے گی۔ یہ بات سن کر انہوں نے کہا کہ اگر حضرت علیؓ کا یہی عندیہ ہے تو وہ آ جائیں ہم ان کے ساتھ ملنے کو تیار ہیں۔ اس پر اس شخص نے حضرت علیؓ کو اطلاع دی اور طرفین کے قائمقام ایک دوسرے کو ملے اور فیصلہ ہو گیا کہ جنگ کرنا درست نہیں صلح ہونی چاہیے۔

جب یہ خبر سبائیوں کو (یعنی جو عبداللہ بن سبا کی جماعت کے لوگ اور قاتلین حضرت عثمانؓ تھے) پہنچی تو ان کو سخت گھبراہٹ ہوئی۔ اور خفیہ خفیہ ان کی ایک جماعت مشورہ کے لیے اکٹھی ہوئی۔ انہوں نے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ مسلمانوں میں صلح ہو جانی ہمارے لیے سخت مضر ہو گی کیونکہ اسی وقت تک ہم حضرت عثمانؓ کے قتل کی سزا سے بچ سکتے ہیں جب تک کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے۔ اگر صلح ہو گئی اور امن ہو گیا تو ہمارا ٹھکانہ کہیں نہیں۔ اس لیے جس طرح سے ہو صلح نہ ہونے دو۔ اتنے میں حضرت علیؓ بھی پہنچ گئے اور آپؓ کے پہنچنے کے دوسرے دن آپؓ کی اور حضرت زبیرؓ کی ملاقات ہوئی۔ وقتِ ملاقات حضرت علیؓ نے فرمایا کہ آپؓ نے میرے لڑنے کے لیے تو لشکر تیار کیا ہے مگر کیا خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لیے کوئی عذر بھی تیار کیا ہے؟ آپ لوگ کیوں اپنے ہاتھوں سے اس اسلام کے تباہ کرنے کے درپے ہوئے ہیں جس کی خدمت سخت جانکاہیوں سے کی تھی۔ کیا میں آپ لوگوں کا بھائی نہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ پہلے تو ایک دوسرے کا خون حرام سمجھا جاتا تھا لیکن اب حلال ہو گیا۔ اگر کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہوتی تو بھی بات تھی جب کوئی نئی بات پیدا نہیں ہوئی تو پھر یہ مقابلہ کیوں ہے؟ اس پر حضرت طلحہؓ نے کہا وہ بھی حضرت زبیرؓ کے ساتھ تھے۔‘‘ اس پر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا جو حضرت زبیرؓ کے ساتھ تھے ’’کہ آپؓ نے حضرت عثمانؓ کے قتل پر لوگوں کو اکسایا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں حضرت عثمانؓ کے قتل میں شریک ہونے والوں پر لعنت کرتا ہوں۔ پھر حضرت علیؓ نے حضرت زبیرؓ سے کہا کہ کیا تم کو یاد نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خدا کی قسم تُو علیؓ سے جنگ کرے گا اور تُو ظالم ہو گا۔ یہ سن کر حضرت زبیرؓ اپنے لشکر کی طرف واپس لوٹے اور قسم کھائی کہ وہ حضرت علیؓ سے ہرگز جنگ نہیں کریں گے اور اقرار کیا کہ انہوں نے اجتہاد میں غلطی کی۔ جب یہ خبر لشکر میں پھیلی تو سب کو اطمینان ہو گیا کہ اب جنگ نہ ہو گی بلکہ صلح ہو جائے گی لیکن مفسدوں کو سخت گھبراہٹ ہونے لگی اور جب رات ہوئی تو انہوں نے صلح کو روکنے کے لیے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جو حضرت علیؓ کے ساتھ تھے انہوں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ کے لشکر پر رات کے وقت شب خون مار دیا اور جو اُن کے لشکر میں تھے انہوں نے حضرت علیؓ کے لشکر پر شب خون مار دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شور پڑ گیا اور ہر فریق نے خیال کیا کہ دوسرے فریق نے اس سے دھوکا کیا حالانکہ اصل میں یہ صرف سبائیوں کا ایک منصوبہ تھا۔ جب جنگ شروع ہو گئی تو حضرت علیؓ نے آواز دی کہ کوئی شخص حضرت عائشہؓ کو اطلاع دے۔ شاید ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اس فتنہ کو دور کر دے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کا اونٹ آگے کیا گیا لیکن نتیجہ اَور بھی خطرناک نکلا۔ مفسدوں نے یہ دیکھ کر کہ ہماری تدبیر پھر الٹی پڑنے لگی۔ حضرت عائشہؓ کے اونٹ پر تیر مارنے شروع کیے۔ حضرت عائشہؓ نے زور زور سے پکارنا شروع کیا کہ اے لوگو! جنگ کو ترک کرو۔ اور خدا اور یومِ حساب کو یاد کرو لیکن مفسد باز نہ آئے اور برابر آپؓ کے اونٹ پر تیر مارتے چلے گئے۔ چونکہ اہلِ بصرہ اس لشکر کے ساتھ تھے جو حضرت عائشہؓ کے ارد گرد جمع ہوا تھا۔ ان کو یہ بات دیکھ کر سخت طیش آیا اور ام المومنین کی یہ گستاخی دیکھ کر ان کے غصہ کی کوئی حد نہ رہی اور تلواریں کھینچ کر لشکر مخالف پر حملہ آور ہو گئے۔ اور اب یہ حال ہو گیا کہ حضرت عائشہؓ کا اونٹ جنگ کا مرکزبن گیا۔ صحابہ اور بڑے بڑے بہادر اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک کے بعد ایک قتل ہونا شروع ہوا لیکن اونٹ کی باگ انہوں نے نہ چھوڑی۔ حضرت زبیرؓ تو جنگ میں شامل ہی نہ ہوئے اور ایک طرف نکل گئے مگر ایک شقیّ نے ان کے پیچھے سے جا کر اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے ان کو شہید کر دیا۔

حضرت طلحہؓ عین میدانِ جنگ میں ان مفسدوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ جب جنگ تیز ہو گئی تو یہ دیکھ کر کہ اس وقت تک جنگ ختم نہ ہو گی جب تک حضرت عائشہؓ کو درمیان سے ہٹایا نہ جائے بعض لوگوں نے آپ کے اونٹ کے پاؤں کاٹ دیے اور ہودج اتار کر زمین پر رکھ دیا۔ تب کہیں جا کر جنگ ختم ہوئی۔ اس واقعہ کو دیکھ کر حضرت علیؓ کا چہرہ مارے رنج کے سرخ ہو گیا لیکن یہ جو کچھ ہوا اس سے چارہ بھی نہ تھا۔ جنگ کے ختم ہونے پر جب مقتولین میں حضرت طلحہؓ کی نعش ملی تو حضرت علیؓ نے سخت افسوس کیا۔

ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس لڑائی میں صحابہؓ کا ہرگز کوئی دخل نہ تھا بلکہ یہ شرارت بھی قاتلانِ عثمانؓ کی ہی تھی اور یہ کہ حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ حضرت علیؓ کی بیعت ہی میں فوت ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے ارادہ سے رجوع کر لیا تھا اور حضرت علیؓ کا ساتھ دینے کا اقرار کر لیا تھا لیکن بعض شریروں کے ہاتھوں سے مارے گئے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے ان کے قاتلوں پر لعنت بھی کی۔‘‘

(انوار خلافت، انوا رالعلوم جلد 3 صفحہ 198 تا 201)

جنگِ جمل اور حضرت طلحہ ؓکی شہادت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک اَور جگہ فرماتے ہیں کہ انبیاء جب دنیا میں آتے ہیں تو ان کے ابتدائی ایام میں جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہی بڑے سمجھے جاتے ہیں۔ ہرمسلمان جانتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمر ؓ،حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعدؓ اور حضرت سعیدؓ وہ لوگ تھے جو بڑے سمجھے جاتے تھے۔ مگر ان کے بڑے سمجھے جانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو آرام زیادہ میسر آتا تھا بلکہ ان کے بڑے سمجھے جانے کی وجہ یہ تھی کہ دین کی خاطر انہوں نے دوسروں سے زیادہ تکلیفیں برداشت کی تھیں۔ حضرت طلحہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی زندہ رہے اور جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوا اور ایک گروہ نے کہا کہ حضرت عثمانؓ کے مارنے والوں سے ہمیں بدلہ لینا چاہیے تو اس گروہ کے لیڈر حضرت طلحہ ؓحضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ تھے لیکن دوسرے گروہ نے کہا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑ چکا ہے۔ آدمی مرا ہی کرتے ہیں۔ سرِدست ہمیں تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنا چاہیے تاکہ اسلام کی شوکت اور اس کی عظمت قائم ہو۔ بعد میں ہم ان لوگوں سے بدلے لے لیں گے۔ اس گروہ کے لیڈر حضرت علیؓ تھے۔ یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ نے الزام لگایا کہ علیؓ ان لوگوں کو پناہ دینا چاہتے ہیں جنہوں نے حضرت عثمان ؓکو شہید کیا ہے اور حضرت علیؓ نے الزام لگایا کہ ان لوگوں کو اپنی ذاتی غرضیں زیادہ مقدم ہیں۔ اسلام کا فائدہ ان کو مدّنظر نہیں۔ گویا اختلاف اپنی انتہائی صورت تک پہنچ گیا اور پھر آپس میں جنگ بھی شروع ہوئی۔ ایسی جنگ جس میں حضرت عائشہؓ نے لشکر کی کمان کی۔

حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی اس لڑائی میں شامل تھے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ شروع میں مخالفین میں شامل تھے۔ پھر حضرت زبیرؓ تو حضرت علی ؓکی بات سن کر علیحدہ ہو گئے تھے اور دوسرے بھی صلح کرنا چاہتے تھے لیکن پھر مخالفین جو تھے انہوں نے، اور جو منافقین تھے یا جو فتنہ پردازتھے انہوں نے پھرفتنہ ڈالا لیکن بہرحال دو گروہ تھے یہ اور لڑائی میں شامل تھے اور دونوں فریق میں جنگ جاری تھی تو ایک صحابی حضرت طلحہؓ کے پاس آئے اور ان سے کہاطلحہ تمہیں یاد ہے کہ فلاں موقع پر میں اور تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا طلحہؓ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم اَور لشکر میں ہو گے اور علیؓ اَور لشکر میں ہو گا اور علیؓ حق پر ہو گا اور تم غلطی پر ہو گے۔ حضرت طلحہؓ نے یہ سنا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے کہا ہاں! مجھے یہ بات یاد آ گئی ہے اور پھر اُسی وقت لشکر سے نکل کر چلے گئے۔ جب وہ لڑائی چھوڑ کر جا رہے تھے تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری کی جائے تو ایک بدبخت انسان جو حضرت علیؓ کے لشکر کا سپاہی تھا اس نے پیچھے سے جا کر آپؓ کو خنجر مار کر شہید کر دیا۔ حضرت علیؓ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ جو حضرت طلحہ ؓکا قاتل تھا وہ اس خیال سے کہ مجھے بہت بڑا انعام ملے گا دوڑتا ہوا آیا اور اس نے حضرت علیؓ کو کہا کہ اے امیر المومنین! آپ کو آپ کے دشمن کے مارے جانے کی خبر دیتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے کہا کون دشمن؟ اس نے کہا اے امیر المومنین! میں نے طلحہ ؓکو مار دیا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا اے شخص! مَیں بھی تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بشارت دیتا ہوں کہ تُو دوزخ میں ڈالا جائے گا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا جبکہ طلحہ ؓبھی بیٹھے ہوئے تھے اور مَیں بھی بیٹھا ہوا تھا کہ اے طلحہ !تُو ایک دفعہ حق و انصاف کی خاطر ذلت برداشت کرے گا اور تجھے ایک شخص مار ڈالے گا مگر خدا اس کو جہنم میں ڈالے گا۔

اس لڑائی میں جب حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ اور زبیرؓکے لشکر کی صفیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہوئیں تو حضرت طلحہؓ اپنی تائید میں دلائل بیان کرنے لگے۔ یہ اس وقت سے پہلے کی بات ہے جب ایک صحابی نے انہیں حدیث یاد دلائی تھی اور وہ جنگ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ دلائل بیان کر ہی رہے تھے کہ حضرت علیؓ کے لشکر میں سے ایک شخص نے کہا او ٹنڈے چپ کر۔ حضرت طلحہ ؓکا ایک ہاتھ بالکل شل تھا وہ کام نہیں کرتا تھا۔ جب اس نے کہا او ٹُنڈے چپ کر۔ تو حضرت طلحؓہ نے فرمایا کہ تم نے کہا تو یہ ہے کہ ٹُنڈے چپ کر مگر تمہیں پتا بھی ہے کہ میں ٹنڈا کس طرح ہوا ہوں۔ اُحد کی جنگ میں جب مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تو تین ہزار کافروں کے لشکر نے ہمیں گھیرے میں لے لیا اور انہوں نے اس خیال سے چاروں طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیر برسانے شروع کر دیے کہ اگر آپؐ مارے گئے تو تمام کام ختم ہو جائے گا۔ اس وقت کفار کے لشکرکے ہر سپاہی کی کمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف تیر پھینکتی تھی۔ تب میں نے اپنا ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کر دیا اور کفار کے لشکر کے سارے تیر میرے اس ہاتھ پر پڑتے رہے یہاں تک کہ میرا ہاتھ بالکل بیکار ہو کر ٹُنڈاہو گیا مگر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے سے اپنا ہاتھ نہیں ہٹایا۔

(ماخوذ از آئندہ وہی قومیں عزت پائیں گی جو مالی و جانی…، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 149تا 151)

جنگ ِجمل کے موقع پر ایک اَور جگہ حضرت طلحہؓ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ وہ ٹنڈا مارا گیا۔ ایک صحابیؓ نے جو اس بات کو سن رہے تھے کہا کمبخت تجھے معلوم ہے کہ وہ ٹنڈا کیسے ٹنڈا ہوا! جنگِ احد کے موقع پر جب ایک غلط فہمی کی وجہ سے صحابہؓ کا لشکر میدان جنگ سے بھاگ گیا اور کفار کو یہ معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف چند افراد کے ساتھ میدانِ جنگ میں رہ گئے ہیں تو قریباً تین ہزار کافروں کا لشکر آپؐ پر چاروں طرف سے امڈ آیا اور سینکڑوں تیر اندازوں نے کمانیں اٹھا لیں اور اپنے تیروں کا نشانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کو بنا لیا تا کہ تیروں کی بوچھاڑ سے اس کو چھید ڈالیں۔ اس وقت وہ شخص جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو کھڑا کیا وہ طلحہؓ تھا۔ طلحہؓ نے اپنا ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کھڑا کر دیا اور ہر تیر جو گرتا تھا بجائے آپؐ کے چہرے پر پڑنے کے طلحہ کے ہاتھ پر پڑتا تھا۔ اس طرح تیر پڑتے گئے یہاں تک کہ زخم معمولی زخم نہ رہے اور زخموں کی کثرت کی وجہ سے طلحہ کے ہاتھ کے پٹھے مارے گئے اور ان کا ہاتھ مفلوج ہو گیا۔ تو جس کو تم حقارت کے ساتھ ٹُنڈا کہتے ہو اس کا ٹنڈا ہونا ایسی نعمت ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اس برکت کے لیے ترس رہا ہے۔

(ماخوذ از خطبات محمود جلد 26 صفحہ 386 خطبہ جمعہ فرمودہ 28 ستمبر 1945ء)

رِبْعِيْ بِنْ حِرَاشْ سے مروی ہے کہ میں حضرت علیؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ عمران بن طلحہ آئے۔ انہوں نے حضرت علیؓ کو سلام کیا۔ حضرت علیؓ نے ان کو کہا مَرْحَبَا۔ عمران بن طلحہ مَرْحَبَا۔ عمران بن طلحہ نے کہا اے امیر المومنین! آپ مجھے مَرْحَبَا کہتے ہیں حالانکہ آپؓ نے میرے والد کو قتل کیا اورمیرا مال لے لیا۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ تمہارا مال تو بیت المال میں الگ پڑا ہوا ہے۔ صبح کو اپنا مال لے جانا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؓ نے فرمایا میں نے اسے اپنے تصرف میں اس لیے لے لیا تھا کہ لوگ اسے اُچک نہ لیں۔ لے نہ جائیں کہیں اور جہاں تک تمہارا یہ کہناہے کہ میں نے تمہارے والد کو قتل کر دیا تو میں امید کرتا ہوں کہ میں اور تمہارے والد ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَ نَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ (الحجر :48) اور ہم ان کے دلوں سے جو بھی کینے ہیں نکال باہر کریں گے، بھائی بھائی بنتے ہوئے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 169 من بنی تیم بن مرۃ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

محمد انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جنگِ جمل کے روز ایک شخص حضرت علیؓ کے پاس آیا اور کہا طلحہؓ کے قاتل کو اندر آنے کی اجازت دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ؓکو کہتے سنا کہ اس قاتل کو دوزخ کی خبرسنا دو۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 169 من بنی تیم بن مرۃ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

حضرت طلحہؓ جب شہید ہوئے اور حضرت علیؓ نے ان کو مقتول دیکھا تو ان کے، حضرت طلحہؓ کے چہرے پر سے مٹی پونچھنے لگے اور فرمایا اے ابو محمد! یہ بات مجھ پر بہت شاق ہے کہ میں تجھ کو آسمان کے تاروں کے نیچے خاک آلودہ دیکھوں۔ پھر حضرت علیؓ نے یہ فرمایا کہ میں اللہ کے حضور اپنے عیوب اور دکھوں کی فریاد کرتا ہوں۔ پھر حضرت طلحہؓ کے لیے دعائے رحمت کی اور فرمایا کہ کاش میں اس دن سے بیس سال پہلے مر گیا ہوتا۔ حضرت علیؓ اور ان کے ساتھی بہت روئے۔ حضرت علی نے ایک مرتبہ ایک شخص کو یہ شعر پڑھتے سنا:

فَتًی کَانَ یُدْنِیْہِ الْغِنٰی مِنْ صَدِیْقِہِ
اِذَا مَا ھُوَ اسْتَغْنٰی وَ یُبْعِدُہُ الفَقْرُ

وہ ایک ایسا نوجوان تھا جو دولت مندی اور غنی ہونے کی حالت میں دوستوں سے مل جل کر رہتا تھا اور محتاجی کے وقت ان سے کنارہ کشی کرتا تھا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا اس شعر کے مصداق تو ابومحمد طلحہ بن عبیداللہؓ تھے۔ اللہ ان پر رحم کرے۔

(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جزء 3 صفحہ 87طلحہ بن عبید اللّٰہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت)

یہاں ان کا ذکر ختم ہوا۔

اب جو آج کل کے حالات ہیں اس کے بارےمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس بھی پڑھ دیتا ہوں۔ ایک موقع پر آپؑ نے مفتی صاحب کو فرمایا کہ مکانوں کو روشن رکھیں اور آج کل گھروں میں (طاعون کے دنوں کی بات ہے) خوب صفائی رکھنی چاہیے۔ کپڑوں کو بھی ستھرا رکھنا چاہیے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آج کل دن بہت سخت ہیں اور ہوا زہریلی ہے اور صفائی رکھنا سنت ہے۔ قرآن شریف میں بھی لکھا ہے وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 273-274)

پھر ایک موقع پر فرمایا: ’’وہ لوگ جن کے شہروں اور دیہات میں طاعون شدت کے ساتھ پھیل گیا ہے۔ اپنے شہروں سے دوسری جگہ نہ جائیں۔ اپنے مکانوں کی صفائی کریں اور انہیں گرم رکھیں اور ضروری تدابیر حفظ ماتقدم کی عمل میں لائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سچی توبہ کریں اور پاک تبدیلی کر کے خدا تعالیٰ سے صلح کریں۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر تہجد میں دعائیں مانگیں۔‘‘ پھر آپؑ نے فرمایا کہ ’’…… اپنی حالت کی سچی تبدیلی ہی خدا کے اس عذاب سے بچا سکے گی۔ وَنِعْمَ مَا قِیْلَ۔‘‘

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 234)

اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو توفیق دے کہ وہ ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں پر زور دے۔ حکومت کی ہدایات پر عمل بھی کریں۔ گھروں کو بھی صاف رکھیں۔ دھونی بھی دینی چاہیے۔ ڈیٹول وغیرہ کے سپرے بھی کرتے رہیں وہ بھی مل جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر فضل فرمائے اور رحم فرمائے۔ بہرحال خاص طور پر ان دنوں میں دعاؤں پر خاص زور دیں۔ اللہ سب کو اس کی توفیق دے۔

(الفضل انٹرنیشنل 24۔اپریل 2020ء)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 26 ۔اپریل2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر11، 27۔اپریل 2020ء