• 15 جون, 2025

دُنیا کے پہلے معلّم ۔ حضرت آدم علیہ السلام

اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہی ہر شئ کی ڈیوٹی اور حدود و قیّود مقرر فرما دیں۔ چنانچہ فرمایا:خَلَقَ كُلَّ شَئٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيرًا

(الفرقان :3)

ترجمہ: اس نے ہر چىز کو پىدا کىا اور اُسے ایک بہت عمدہ اندازے کے مطابق ڈھالا ۔

سرِدست ہم حضرت انسان کو لیتے ہیں کہ ہمارے خالق و مالک نے ذمہ داریوں کی آگاہی کے لئے اوّلین حضرت آدمؑ کو معلّم اور سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کو خاتم المعلمین بنایا تا نوعِ انسان اُن کےاقوال و اعمال سے اپنا دستورِ حیات سمجھیں۔ ارشاد باری ہے۔

يَا آدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ

(البقرہ:36)

ترجمہ: اور ہم نے کہا اے آدم ! تُو اور تىرى زوجہ جنت مىں سکونت اختىار کرو اور تم دونوں اس مىں جہاں سے چاہو بافراغت کھاؤ مگر اس مخصوص درخت کے قرىب نہ جانا ورنہ تم دونوں ظالموں مىں سے ہو جاؤ گے۔

اس میں اللہ تعالیٰ نے چھ ہدایات فرمائیں۔

  • اسْكُنْ ۔ سَكَنَ الشئُ إذَا ذَهَبَتْ حَرَكَتُهٗ۔ سَكَنَ بِالْمَكَانَ أَقَام (لسان) السكنى من السكون لأنها نوع من اللبث والاستقرار۔ (الکشاف) ایک جگہ سکونت کرنی ہے۔خانہ بدوشی اختیار نہیں کرنی۔ گویا کسی ایک جگہ اقامت اور مکان کی طرف توجہ دلائی۔ سکن کا لفظ اس بات پر دلالت کررہا ہےکہ جنگلی جانوروں کی طرح نہیں رہنا۔
  • أَنْتَ وَزَوْجُكَ۔ میاں بیوی یعنی جوڑا مقرر کرکے رہنا ہے ۔ معاشرہ میں بے لگام گھوڑا اور شُتر بے مہار نہیں بننا ۔ فیملی سسٹم قائم کرنے کی ہدایت فرمائی تا رشتوں کی پاسداری مدّنظر رہے۔
  • الْجَنَّةَ۔ سکونتی جگہ پہ باغ ہو، جنّت کے لفظ میں ہی یہ سب مفہوم شامل ہے۔قدرتی باغ ہو،نہیں تو باغبانی کر لی جاوے تا حکمِ ربّی پر عمل ہوسکےاور صحت افزاء مقام پہ بودوباش ہو اورصفائی نصب العین رہے۔
  • وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا۔ رَغَد أَي واسعة طيبة (لسان) رغداً واسعاً رافهاً۔ (الکشاف) کھانا پینا حلال طیّب اور مناسب حسب منشاء رکھنا ہے۔ یعنی رغداً کا معنی ہی یہ ہے کہ حلال،طیّب اور ضرورت کے مطابق کھانا ہے۔

اسی حکم کی تفسیر ہے وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ۔

(الاعراف :32)

چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس کا ترجمہ اس طرح تحریر فرمایا ہے۔
یعنی گوشت بھی کھاؤ اور دوسری چیزیں بھی کھاؤ مگر کسی چیز کی حد سے زیادہ کثرت نہ کرو تا اس کا اخلاقی حالت پر بداثر نہ پڑے اور تا یہ کثرت مضر صحت بھی نہ ہو۔

(اسلامی اُصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 ص 320)

  • وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ۔ وشَجَرَ بين القوم الأمرُ، إِذا اختلف۔ (لسان) مہلک اور حرام چیزیں کھانا تو درکنار اُن کے قریب بھی نہیں جانا اور باہمی امن سے رہنا ہے۔ شجر کے لفظ پر ال لا کر یہ بتایا کہ مخصوص باتیں اور چیزیں جو جسمانی صحت اور معاشرتی بگاڑ پیدا کریں اُن سے بچنا ہے۔
  • فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ۔ الظُّلم: الجَوْرُ ومُجاوَزَة الحدِّ (لسان) حدود و قیّود نظر انداز کیں تو ظلم کرنے والے بن جاؤ گے۔ تو مرد اور عورت دونوں کو ہی بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑےگا ۔ جیسا کہ آج کل کرونا کی صورت نتائج دُنیا کے سامنے ہیں ۔

مزید فرمایا۔
اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرٰى وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيهَا وَلَا تَضْحٰى۔

(طٰہٰ: 119، 120)

ترجمہ:تىرے لئے لازم ہے کہ نہ تُو اس مىں بھوکا رہے اور نہ ننگا اور ىہ بھی کہ نہ ہی تُو اُس مىں پىاسا رہے اور نہ ہی کھلے آسمان تلے دھوپ میں رہے ۔گویا یہ سبق دیا کہ

  • اَلَّا تَجُوعَ۔ یہ کہ فاقہ کشی نہ ہو، محنت کرنی ہے تا بھوک کی تکلیف سے بچے رہو۔
  • وَلَا تَعْرٰى ۔ وَلَا تعرى من الثياب (تفسیرابن عبّاس) اور لباس اس طرح پہننا ہے کہ ننگ ظاہر نہ ہو۔ یعنی عزّت و ناموس کی حفاظت کرنی ہے۔ تعرٰى کے لفظ میں حضرت ابن عبّاس کے نزدیک لباس کی تعلیم موجود ہے۔
  • لَا تَظْمَؤُا۔ اپنے لئے پانی کا انتظام بھی کرنا ہے تا پیاس کی مصیبت کا سامنا نہ ہو۔ یعنی سامان تسکین کے حصول تعلیم دی۔
  • وَلَا تَضْحٰى۔ ضحى: ارْتِفاعُ النهار ۔الضُّحى من طلوعِ الشمس إِلٰی أَنْ يَرْتَفِعَ النهارُ وتَبْيَضَّ الشمس جدّاً (لسان) ولا يصيبك حر الشمس۔ (ابن عباس)

کہ جب سُورج کی شعاعوں میں تیزی آجائے تو تپش سے بچناہے یعنی اپنے لئے چھاؤں کا انتظام کرنا ہے۔ یعنی پناہ گاہ کی تعمیر کا سبق دیا۔

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت کے اُصول درج ذیل بیان فرمائے ہیں۔ آپ ؓ فرماتے ہیں

’’قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ آدم ؑ نے اپنی خلافت کو جس تمدّن کے قیام سے ظاہر کیا وہ مندرجہ ذیل اُصول پر مبنی تھا۔

1۔ آدم کی جماعت کا فرض مقرر کیا گیا تھا کہ وہ شادی کریں جیسا کہ يَا آدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ (البقرہ: 36) کے حکم سے معلوم ہوتا ہے۔ آدم سے پہلے چونکہ شریعت نازل نہ ہوئی تھی۔ شادی کا خاص دستور بشر میں نہ تھا۔ آدم کے ذریعہ سے شادی کا حکم جاری ہوا۔ بائبل نے اس واقعہ کو مسخ کر کے بیان کیا ہے مگر اس کا یہ بیان کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ آدم کے لئے ایک بیوی تیار کرے۔ (پیدائش باب 2)

اس تحقیق کی روشنی میں کہ آدم سے پہلے بشر موجود تھے اس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ گو آدم سے پہلے بشر تھے مگر کوئی باقاعدہ نکاح کا طریق رائج نہ تھا اور بیوی بنانے کا اصل مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات کے متعلق احکام بتائے گئے۔

2۔ جہاں اتباع آدم کو کچھ اُمور کے کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہاں کچھ اُمور سے اجتناب کا بھی حکم دیا گیا تھا جیسا کہ وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔

3۔ وہ تعاون سے اپنی جماعت کے کھانے پینے کا انتظام کریں۔

4۔ پانی کا انتظام کریں۔

5۔ لباس پہنیں اور ننگے نہ رہیں۔

6۔ مکان بنائیں اور اکٹھے رہیں۔

تین سے چھ تک کے اُمور اس آیت سے ظاہر ہوتے ہیں اِنَّ لَكَ اَ لَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرٰى وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيهَا وَلَا تَضْحٰى

(طٰہٰ :120،119)

یعنی اے آدم! جس مقام پر ہم تم کو رکھنے لگے ہیں اس میں تمہارا فرض ہو گا کہ بھوکے نہ رہو اور ننگے نہ رہو اور پیاسے نہ رہو اور دُھوپ کی تکلیف نہ اُٹھاؤ۔‘‘

(تفسیر کبیر زیر آیت سورۃ بقرہ 36)

اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے مدد لی گئی۔

1۔ ترجمۃ القرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرّابعؒ
2۔ لسان العرب
3۔ الکشاف
4۔ تفسیر ابن عباسؓ
5۔ تفسیر کبیر
6۔ اسلامی اصول کی فلاسفی

(مختار احمد)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 26 ۔اپریل2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر11، 27۔اپریل 2020ء