• 11 جولائی, 2025

لیک از خدائے برتر خیر الوریٰﷺ یہی ہے

حضرت مسیح موعودؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں۔

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمد دلبر میرا یہی
سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیرالوری یہی ہے

مائیکل ایچ ہارٹ Micheal H.Hart ایک امریکن سائنسدان اور مصنف ہے جس نے 1978ء میں ایک شہرہ آفاق کتاب

The 100_ A Ranking of the most influencial persons in the History

تصنیف کی اور کچھ دہرائی کے بعد 1992ء میں دوبارہ شائع کیا۔

اس کتاب کا اردو ترجمہ عاصم بٹ نے ’’سو عظیم آدمی‘‘ کے عنوان سے کیا ہے اور ’’تخلیقات‘‘ اکرم آرکیڈ 29 ٹمپل روڈ صفاں والا چوک لاہور نے اسے شائع کیا ہے۔

مائیکل ہارٹ نے 100 انتہائی متاثر کن شخصیات کی میرٹ لسٹ میں ہمارے آقا و مولیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شمار پہلے نمبر پر کیا ہے۔

جن انبیاء کا ذکر قرآن کریم میں ہے ان میں سے اس نے صرف تین انبیاء کو اس فہرست میں شامل کیا ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نمبر ایک پر، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نمبرپندرہ پر اور یسوع مسیح یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو نمبر تین پر لایا ہے۔

اس کے علاوہ دوسرے مذاہب کے بانیان میں سے گوتم بدھ کو چوتھے نمبر پر، کنفیوشس کو پانچویں نمبر پر، لاؤ تسو کو تہترویں نمبر پر، زرتشت کو ترانویں نمبر پر شمار کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

کتاب کا تعارفی نوٹ

وہ اس کتاب کے تعارفی نوٹ میں لکھتا ہے۔
اس کتاب کے پیش نظر یہ بات ہے کہ وہ کون سےسو افراد ہیں جنہوں نے تاریخ اور دنیاکے نظام کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ میں نے مرتبے کے اعتبار سےان سو افراد کی ترتیب دی ہے یعنی اس جملہ اثر کے تناظر میں جو ان میں سے ہر ایک نے انسانی تاریخ اور دیگر انسانوں کی روزمرہ زندگی پر ڈالا…..یہاں جس اثر انگیزی کی بابت گفتگو ہوئی ہے، وہ عالمی درجہ کی ہے…. میں نے اس فہرست کو محض ان افراد تک ہی محدود نہیں رکھا جنہوں نے موجودہ انسان ہی کو متاثر کیا ،گزشتہ نسلوں کو بھی برابر درجہ دیا گیا ہے….. اس کی ایک ممتازمثال (حضرت) محمد (ﷺ) کو عیسٰی مسیح سے بلند درجہ دینے سے متعلق ہے اس کی وجہ میرا اپنا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام کی تشکیل میں ان کا ذاتی اثر کہیں زیادہ نمایاں ہے، بہ نسبت عیسائیت کی ہیئت سازی میں عیسیٰ مسیح کے کردار کے۔

(صفحہ 8 تا 10)

حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم (570ء ۔ 632ء)

’’ممکن ہے کہ انتہائی متاثر کن شخصیات کی فہرست میں (حضرت) محمدؐ کا شمار سب سے پہلے کرنے پر چند احباب کو حیرت ہو اور کچھ معترض بھی ہوں لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی۔ حضرت محمد (ﷺ) نے عاجزانہ طور پر اپنی مساعی کا آغاز کیا اور دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک مذہب کی بنیاد رکھی اور اسے پھیلایا ۔وہ ایک انتہائی موثر سیاسی رہنما بھی ثابت ہوئے۔ آج تیرہ سو برس گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلم اور گہرے ہیں۔

اس کتاب میں شامل متعدد افراد کی یہ خوش قسمتی رہی کہ وہ دنیا کے تہذیبی مراکز میں پیدا ہوئے اور وہیں ایسے لوگوں میں پلے بڑھے جو عموماً اعلیٰ تہذیب یافتہ یا سیاسی طور پر مرکزی حیثیت کی اقوام تھیں۔ اس کے برعکس ان کی پیدائش جنوبی عرب میں مکہ شہر میں 570ء میں ہوئی یہ تب تجارت، فنون اور علم کے مراکز سے بہت دور دنیا کا دقیانوسی گوشہ تھا۔ وہ چھ برس کے تھے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا ۔ان کی پرورش عام وضع پر ہوئی۔

اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ اَن پڑھ تھے۔ پچیس برس کی عمر میں جب ان کی شادی ایک اہل ثروت عورت سے ہوئی تو ان کی مالی حالت میں بہتری پیدا ہوئی ۔تاہم چالیس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے لوگوں میں ان کا ایک غیر معمولی انسان ہونے کا تاثر قائم ہو چکا تھا…. عرب کے بدو قبائل تُند خُو جنگجوؤں کی حیثیت سے جانے جاتے تھے لیکن وہ تعداد میں کم تھے ۔شمالی زرعی علاقوں میں آباد وسیع بادشاہتوں کی افواج کے ساتھ ان کی کوئی برابری نہیں تھی ۔تاہم آپ (ﷺ) نے تاریخ میں پہلی مرتبہ انہیں یکجا کیا ۔یہ واحد ،راست خدا پر ایمان لے آئے۔ ان مختصر عرب فوجوں نے انسانی تاریخ میں فتوحات کا ایک حیران کن سلسلہ قائم کیا…. ایک دور میں تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ مسلمان تمام مسیحی یورپ پر قابض ہو جائیں گے….

سوال یہ ہے کہ ہم کس طرح انسانی تاریخ پر حضرت محمد (ﷺ) کے اثرات کا تجزیہ کر سکتے ہیں ۔تمام مذاہب کی طرح اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کئے یہی وجہ ہے کہ قریب سبھی عظیم مذاہب کے بانیان اس کتاب میں شامل ہیں ۔اس وقت عیسائی مسلمانوں سے بالحاظ تعداد دوگنے ہیں، اسی لئے یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے کہ حضرت محمد(ﷺ) کو عیسیٰ مسیح سے بلند مقام دیا گیا ہے۔ اس فیصلہ کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔

اوّل مسیحیت کے فروغ میں یسوع مسیح کے کردار کی نسبت اسلام کی ترویج میں حضرت محمد (ﷺ) کا کردار کہیں زیادہ بھرپور اور اہم رہا۔ ہر چند کہ عیسائیت کے بنیادی اخلاقی اعتقادات کی تشکیل میں یسوع کی شخصیت بنیادی رہی (یعنی جہاں تک یہ صیہونی عقائد سے مختلف ہیں) سینٹ پال نے ہی صحیح معنوں میں عیسائی الہٰیات کی ترویج میں حقیقی پیش رفت کی۔ اس نے عیسائی پیروکاروں میں اضافہ بھی کیا اور وہ عہد نامہ جدید کے ایک بڑے حصہ کا مصنف بھی ہے۔

حضرت محمد (ﷺ) نہ صرف اسلام کی الہٰیات کی تشکیل میں فعال تھے بلکہ اس کے بنیادی اخلاقی ضوابط بھی بیان کئے۔ علاوہ ازیں انہوں نے اسلام کے فروغ کے لئے بھی مساعی کیں اور مذہبی عبادات کی بھی توضیح کی۔ عیسیٰ مسیح کے برعکس حضرت محمد (ﷺ) نہ صرف ایک کامیاب دنیا دار تھے بلکہ ایک مذہبی رہنما بھی تھے۔فی الحقیقت وہی عرب فتوحات کے پس پشت موجود اصل طاقت تھے۔ اس اعتبار سے وہ تمام انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ متاثر کن سیاسی قائد ثابت ہوتے ہیں۔‘‘

(سو عظیم آدمی صفحہ 25تا28)

ویسے بھی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسٰی علیہم السلام کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے comparison بنتا ہی نہیں کیونکہ ان کا دائرہ نبوت بنی اسرائیل تک محدود تھا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم میں فرمایا:

وَآتَیْنَا مُوْسیٰ الْکِتٰبَ وَ جَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِی اِسْرآءِیْلَ

(بنی اسرائیل :3)

اور ہم نے موسیٰ کو بھی کتاب دی تھی اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنایا تھا۔

اورحضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا۔

وَرَسُولًا اِلَی بَنِی اِسْرآئِیْلَ

(آل عمران :50)

اور وہ رسول ہوگا ،بنی اسرائیل کی طرف۔

اور باقی بانیان مذاہب بھی اپنی قوموں تک محدود تھے جبکہ حضرت محمد ﷺ کو عالمگیر نبوت عطا کی گئی جیسا کہ فرمایا

قُلْ یَااَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًانِ الَّذِی لَہُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ

(الاعراف: 159)

تُو کہہ دے کہ اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ کا مذہب

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی، ہرگز نہ کر سکتے ۔ان میں وہ دل وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبی (ﷺ) کو ملی تھی۔ اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذ اللہ سوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افترا ءکرے گا۔ میں نبیوں کی عزت اور حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں لیکن نبی کریم کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جزو اعظم ہے اور میرے رگ وریشہ میں ملی ہوئی بات ہے۔ یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں، بدنصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام کیا جو نہ الگ الگ اور نہ مل کر کسی سے ہو سکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشآءُ۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 174 بحوالہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام مرتبہ سید داؤد احمد جلد اول صفحہ 446۔ 447)

یَا رَبِّ صَلِّ عَلیٰ نَبِیِّکَ دَائِمًا
فِی ھٰذِہِ الدُّنْیَا وَ بَعْث ثَانِی

(انجینئر محمود مجیب اصغر)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 26 ۔اپریل2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر11، 27۔اپریل 2020ء