TOMMY HILFIGER, BURBERR, ARMANI, GUCCI
وغیرہ وغیرہ یہ نام نہ تو کسی سائنسدان فلاسفر اور نہ ہی کسی مسلمان جانباز، شہید یا غازی کے ہیں کہ جن کی تقلید سے فیضیاب ہوں یا بچوں کو اُن کے کارنامے بتائیں بلکہ یہ نام تو وہ ہیں جو آج کے بچے بڑوں کو بتاتے ہیں کہ یہ برینڈز وہ رول ماڈلز ہیں جن کے گِرد آج کی نسل گھوم رہی ہے ۔گویا یہ پروڈکٹس (Products) استعمال کرکے اُن کی شان میں دُوگنا اضافہ ہوگیا ہو، یہ محسوس کئے بغیر کے اُن کے دِلوں پر وہی سب کچھ چسپاں ہو رہا ہے جو یہ برینڈز ،رول ماڈلزسیٹ کر رہے ہیں، مثلاً شرٹس پر ایکٹرز، ٹاپ ماڈلز ،سنگرز ،کھلاڑیوں کی تصاویر جابجا چھپی ہوتی ہیں۔اس طرح لا علمی میں ہی سہی، آج کی نسل دن رات اپنے سینوں پر خواہشات کے بُت سجائے پھرتی ہے۔
نیا دَور یعنی ماڈرن زمانہ جس میں انسان چاند پر تو جاسکتا ہے۔ چند لمحوں میں بذریعہ انٹرنیٹ پوری دُنیا تو گھوم سکتا ہے۔ بس اس کے لئے جو مشکل ہے وہ ہے اپنا وقت دینا،اپنے بڑوں، بزرگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا۔ اَزل سے ایک دن میں 24 گھنٹے تھے، آج بھی ایک دن 24 گھنٹے کا ہی ہےجبکہ ذرائع ابلاغ، سواریاں پہلے کی نسبت انتہائی برق رفتار بھی ہیں، پھر بھی نہ کسی کے پاس وقت ہے نہ فرصت۔بچے باہر بھی نہیں نکلتے،گھر بیٹھے بیٹھے ہی خراب ہو رہے ہیں۔کہا تو یہ جاتا تھا کہ بچوں کو زیادہ باہر نہ نکالیں،کہیں زمانے کی ہوا نہ لگ جائے۔ لیکن اَب گھر بیٹھے بیٹھے ہی دُنیا بھر کی ہواؤں سے لُطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ایک دَور تھا کہ محلّے کے رہنے والے لوگ ایسے رہا کرتے تھے جیسے ایک ہی گھرانہ کے افراد ہوں،۔ محلّے داروں کی صرف دیواروں سے دیواریں ہی نہیں ملی ہوئی تھیں بلکہ اُن کے دل سے دل جُڑے ہوئے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ساگ،کڑی ،چاول، پکوڑوں کے تبادلے۔گرمیوں کی لمبی دوپہر گزار کر شام کو صحن میں چارپائیوں کی لائن لگانے سے پہلے پانی کا چِھڑکاؤ اور مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو اور رات میں رات کی رانی کی خوشبو چار سُو پھیل جاتی، دیوار کے اِس پار بھی اور اُس پار بھی اور دِلوں پر بھی ایسی ہی خوشبو کا راج تھا۔ ہر تصنع،دِکھاوا سے دُور،ہر چیز سچی، اصلی اور کَھری تھی ۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انسان نے جتنی ترقی کرلی ہے تو اس کے جذبوں، خلوص میں بھی اتنی ترقی ہوتی اور تیز ترین ایجادات کے بعد تو انسان اپنے کام بہت جلد نِبٹا لیتا اور بےحد ٹائم بچا پاتا اور یہ بہترین ٹائم اپنے بڑوں، اپنے چھوٹوں، بزرگوں، اپنے رشتہ داروں میں گزارتا لیکن یہ کیا ؟یہاں تو جذبے بھی ایک کِلک (Click) پر ہی ادا کردیئے جاتے ہیں۔ پہلے جب کوئی بیمار ہوتا تو تیمارداری کے لئے پورا گھرا نہ باقاعدہ پھلوں کے ساتھ جاتا اور اب یہ کام واٹس ایپ ،فیس بُک وغیرہ وغیرہ انجام دے رہے ہیں گویا تیمارداری بھی انٹرنیٹ کی ذمہ داری بن چکی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیاکہ ہم بیمار کی عیادت کریں،جنازے کے ساتھ جائیں، چھینک مارنے والے کی چھینک کا جواب دیں،قسم کھانے والے کو اس کی قسم کے پورا کرنے میں مدد دیں، مظلوم کی مدد کریں اور دعوت کے لئے بُلانے والے کی دعوت قبول کریں اور سلام کو رواج دیں۔
(بخاری، کتاب الادب، باب تشمیت العاطس اذا حمد اللّٰہ)
آج نئے دَور کا انسان اتنا مصروف ہے کہ درج بالا حدیث میں جو رُوٹین کے چھوٹے چھوٹے احکامات ہیں، اُن کے بجالانے کا بھی وقت نہیں حالانکہ ان کی ادائیگی انتہائی آسان اور نتائج انتہائی دُوررَس ہیں ۔یہ اسلام کے حقوق و فرائض کے وہ چھوٹے چھوٹے کوڈز (Codes) ہیں جن کو اَوپن (Open) کرنے سے بہترین معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ انسان کی بے خبری کا تو یہ عالَم ہے کہ چھینک کے جواب میں یَرْحَمَکَ اللّٰہ تو کیا کہنا اُسے تو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ اس کے ساتھ کوئی بیٹھا بھی ہے کہ نہیں ۔
ایک ہی گھر بلکہ ایک ہی کمرے میں تین سے چار افراد ہوں بشمول خواتین اور انتہائی خاموشی ہو۔ گو کہ یہ اَچنبھے کی بات ہے لیکن مزید حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یہ خاموشی بوجہ ذکرِ الہٰی نہیں ہوتی نہ سب کے ہاتھ میں تسبیح ہے جس کو گھماتے ہوئے ماحول خاموش ہے بلکہ سب کے ہاتھ میں موبائلز ہوتے ہیں جس پر کِلک (Click) کی مالا جَپتی اُنگلیاں تیزی سے یہ کام سرانجام دے رہی ہوتی ہیں۔
ایک وقت تھا کہ شادی نامے،دعوت نامے خود دینے جاتے تھے کہ بزرگوں کی دُعائیں بھی مل جائیں گی۔ اَب بَس ایک کِلک پر ہی سب کوبُھگتا دیا جاتا ہے۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ کہنےسے دن بھر ہم ایک دوسرے کو سلامتی کی دُعائیں دے سکتے ہیں ۔لیکن یہ بھی چھوٹے سے چھوٹا ہو کر (Hi) تک پہنچ چکاہے۔
دَسترخوان ایک ایسی جگہ تھی جہاں دن بھر کے کام کاج سے فارغ ہوکر سب اَفراد خانہ جمع ہوتے تھے،بڑے چھوٹوں کا اور چھوٹے بڑوں کا انتظار کرتے تھے کہ مِل کر کھانے میں برکت ہے اور واقعی کھانے میں برکت ہوتی ،تھوڑا کھانا بھی سب کو پورا پڑتا۔ اَب تو کھانے کے ٹائم پر گھر کی بیل (Bell) بجنے کا انتظار ہوتا ہے کہ کب پیزا ،شوارما، نوڈلز ڈِلیوری والا آئے اور پیٹ کی بھوک مٹائیں۔ ایک طرف تو بازاری کھانے اور دوسری طرف ڈائٹنگ پلان سَرچ کئے جاتے ہیں۔ نہ جانے کیسی اَفراتفری ہے زندگی میں۔
ہماری زندگی کی تمام ضروریات،مسائل خواہ وہ جسمانی ہوں یا روحانی،نفسیاتی اور اخلاقی ہوں،سب ہمارے پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی تفصیل سے بتائے بلکہ عملی طور پر سمجھائے۔
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آدمی نے پیٹ (کے برتن) سے بُرا کوئی برتن نہیں بھرا۔اِبن آدم کے لئے چند لقمے کافی ہیں جو اُس کی کمر کو سیدھا رکھ سکیں۔ اگر بہت ضرورت ہو تو ایک تہائی اس کے کھانے، ایک تہائی پینے اور ایک تہائی سانس لینے کے لئے ہونا چاہئے۔‘‘
(سنن ترمذی)
اب کیا اس اُصول کے مطابق انسان کھائے تو ڈائیٹنگ کی ضرورت پڑے؟ جو ہمیشہ قائم بھی نہیں رکھی جاسکتی۔
خیر اَب ایسا بھی نہیں ہے کہ نئے دَور میں کچھ اچھا نہیں ہے۔ اَچھا تو سب ہے اگر طریقہ کار بھی اَچھا ہو ۔میانہ رَوی، معتدل انداز ہو تو ہر چیز فائدہ دیتی ہے ۔ اَچھا کپڑا پہننا منع نہیں ہے لیکن مطمحِ نظر تَن کو ڈھانکنا ہو نہ کہ نمودونمائش۔ اَچھا کھانا کھانا منع نہیں ہے لیکن مطمحِ نظر بھوک مٹانا ہو، حرص بڑھانا نہ ہو۔ ایک مومن زندہ رہنے کے لئے کھائے، کھانے کے لئے زندہ نہ ہو۔
نئے دَور کی ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھانا منع نہیں ہے لیکن یہ نئی ایجادات میں تیزی اور ترقی ہماری دینی اور اخلاقی پستی کا باعث نہ ہو بلکہ دینی اُموراور تبلیغی کام ہم مزید تیز کرسکتے ہیں۔غرض ہر چیز کا مثبت استعمال مثبت نتائج لاتا ہے ۔اس سے پہلے کہ ہم اپنے نفس کی بے شمار بھول بھلیوں میں بھٹکتے پھریں، ایک مطمحِ نظر بنا لیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَ لِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ؕ
ترجمہ: اور ہر ایک کے لئے ایک مطمحِ نظر ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتاہے ۔ پس نیکیوں میں ایک دوسرےپر سبقت لے جاؤ ۔
(البقرہ : 149)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نئےدَور، ماڈرن زمانہ کے تمام تقاضوں اورمسائل سے ہمیں خوب آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ خُطبات میں ستاروں کی مانند صحابہؓ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شجاعت بہادری، وفا ،قربانی اورقناعت کے واقعات بیان فرماتے ہیں، ہمارا فرض ہے کہ ہم اُنہیں غور سے سنیں اور اپنا مطمحِ نظر اِن ہیروز پر رکھیں اور اِنہیں اپنا رول ماڈل بنائیں تو ہماری زندگی بھی اِن ستاروں کی مانند چمکنے لگے۔
(نوشابہ واسع بلوچ۔ جرمنی)