نوٹ:حصہ اوّل کیلئے 7 فروری 2020ء کا شمارہ ملاحظہ کریں۔
حصہ دوم
بچپن میں ہی قرآن کریم کے ساتھ محبت
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں۔
’’جب میں راولپنڈی میں تھا تو ہمارے مکان کے قریب ایک انگریز الیگزینڈر کی کوٹھی تھی ۔ ایک شخص مجھ کو وہاں لے گیا اس نے میزان الحق اور طریق الحیٰوۃ دو کتابیں بڑی خوبصورت چھپی ہوئی مجھ کو دیں۔ میں نے ان کوخوب پڑھا۔ میں بچہ ہی تھا لیکن قرآن کریم سے اس زمانہ میں بھی مجھ کو محبت تھی ۔ مجھ کو وہ دونوں کتابیں بہت لچر معلوم ہوئیں۔ اس وقت ان کے روح القدس کو بھی نہیں جانتا تھا ۔ میں نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگنے والے مباحثات میں کبھی عاجز نہیں ہوتے۔‘‘
(حیات نور از مکرم عبدالقادر سابق سوداگرمل، صفحہ14)
بچپن سے ہی شدید محنت کی عادت
حضرت چوہدری سر ظفر اللہ خان رضی اللہ عنہ سکول کے ابتدائی درجوں میں اپنے والد صاحب کے مقرر کردہ ٹائم ٹیبل کے مطابق اس طرح دن گزارتے تھے۔ لکھا کہ
’’تجویز کردہ پروگرام کے مطابق مدرسے کے ابتدائی درجوں میں ہی ملازم صبح ہوتے ہی مجھے ٹیوٹر کے پاس چھوڑ آتا ، وہاں سے میں مدرسے چلا جاتا، میرا کھانا مدرسے بھیج دیا جاتا، مدرسے سے میں پھر ٹیوٹر کے پاس چلا جاتا ۔ وہیں میرے لئے گھر سے دودھ آجاتا۔شام کو میں کھانے کے لئے گھر آتا۔ کھانا ختم ہوتے ہی ملازم مجھے ٹیوٹر کے پاس چھوڑ آتا اور رات کو مجھے واپس گھر لے آتا۔‘‘
(تحدیث نعمت، صفحہ 14)
نوبل انعام یافتہ محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کی ہمشیرہ مکرمہ حمیدہ بشیر پروفیسر صاحب کے بارہ میں بیان کرتی ہیں۔
’’چونکہ ان دنوں جھنگ میں بجلی نہیں تھی اس لئے وہ مٹی کے تیل کے لیمپ میںپڑھتے تھے۔ لیمپ کی چمنی ہماری بڑی ہمشیرگان محترمہ باجی مسعودہ بیگم صاحبہ مرحومہ اور باجی حمیدہ بیگم صاحبہ روزانہ صاف کرتی تھیں۔ جب کہ مجھ سے بڑے بھائی محترم چوہدری محمدعبدالسمیع صاحب اور میں لیمپ میں تیل ڈالا کرتے تھے ۔ بھائی جان رات کو جلد سو جانے کے عادی تھے۔ وہ زیادہ تر پڑھائی صبح کیا کرتے تھے۔ کیونکہ اس وقت ہر طرف خاموشی ہوتی جس سے انہیں یک سوئی میسر آتی۔ باجی مسعودہ صاحبہ انہیں صبح 4بجے جگادیا کرتی تھیں بلکہ اکثر وہ سب سے پہلے جاگے ہوئے ہوتے تھے۔ گرمی کے موسم میں وہ پڑھائی بیٹھک میں کیا کرتے تھے کیونکہ اس کے دوطرف گلیاں ہونے کی وجہ سے ہوادار تھی۔ وہ اپنا کورس امتحان سے کم از کم دو ماہ قبل مکمل کرلیتے تھے اور امتحان سے پہلے اسے دو مرتبہ دوہرا لیا کرتے تھے۔
اپنے ایک انٹرویو میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ’’میرا کالج جھنگ اور مگھیانہ کے درمیان تھا اس لئے اس جگہ کو ’’آدھی وال‘‘ کہتے ہیں۔ یہ جگہ جھنگ شہر سے قریباً ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ہے۔ گرمیوں کے موسم میں سخت گرمی سے بچنے کے لئے میں کالج میں بیٹھ کر اپنا ’’ہوم ورک‘‘ ختم کرلیا کرتا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ جھنگ شہر میں میرے ہم جماعت بھی میرے پاس بیٹھ جاتے اور میرے کام کو نقل کرلیا کرتے تھے۔ جب سائے ڈھل جاتے تو ہم پیدل اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے۔‘‘
(ماہنامہ خالد، ڈاکٹر عبدالسلام نمبر، صفحہ 56-57)
حضرت خلیفہ المسیح الثالث ؒ کی دعا کی قبولیت:اعلیٰ کامیابیاں
حضرت سیٹھ عبداللہ الٰہ دین کے بیٹے حضرت حافظ ڈاکٹر صالح محمد الٰہ دین کی روایت ہے کہ
’’1979ء میں محترم پروفیسر عبدالسلام صاحب کو نوبل انعام ملا تھا اور سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے جلسہ سالانہ ربوہ 1979ء میں اپنی دلی تمنا کا اظہار فرمایا تھا کہ احباب جماعت علم میں کمال حاصل کریں اور حضور نے جماعت کو بھی اس کے لئے دعا کی تحریک فرمائی تھی۔ خاکسار کو اس جلسہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔چنانچہ اس کے معاً بعد اللہ تعالیٰ نے خاکسار کے لئے غیر معمولی طور پر علم میں ترقی کے سامان پیدا فرمائے۔ Oxford University کے پروفیسر Dr. Dick Ter Haar کی دعوت پر خاکسار کو تین مہینے Department of Theoretical Physics University of Oxford میں بطور سینئر وزٹنگ فیلو (Senoir Visiting Fellow) کام کرنے کا موقع ملا ۔ ایک مہینہ یونیورسٹی آف کیمبرج میں خاکسار کے لیکچرز آکسفورڈ، کیمبرج، مانچسٹر اور New Castle on Tyne میں ہوئے۔ الحمدللہ
حضورؒ جب لندن تشریف لائے تو حضورؒ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا تھا۔ ایک دفعہ حضور نے خاکسار سے دریافت فرمایا کہ Galaxies کے بارے میں جو تحقیقات ہوئی ہیں۔ وہ بتائیں۔ خاکسار نے اس کا ذکر کیا جو حضور نے بڑی دلچسپی سے سنا۔ خاکسار نے عرض کی کہ میں آکسفورڈ میں ایک مضمون Gravitational Interactions between Galaxies پر لکھ رہا ہوں۔ حضور سے دعا کی درخواست ہے۔ حضورؒ نے فرمایا۔
’’اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا‘‘
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یہ مضمون انٹرنیشنل رسالہ ’’فزکس رپورٹ‘‘ (Physics Report) میں دسمبر 1982ء میں شائع ہوا اور بفضلہ تعالیٰ مقبول رہا اور اللہ تعالیٰ نے مزید ریسرچ کی بھی توفیق بخشی اور 1985 میں خاکسار کو ہندوستان کا ایک نیشنل ایوارڈ Maghnad Saha Award of Theoretical Science دہلی میں دیا گیا۔‘‘
(مطبوعہ روزنامہ الفضل 25جون 2014ء)
٭…ایام طالب علمی میں بیعت اور مخالفت پر صبرو استقامت
حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدینؓ کے متعلق لکھا ہے کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خبر جب آپ کو ملی اس وقت آپ میڈیکل کالج لاہور کے طالب علم تھے۔ ایام طالب علمی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی بصیرت دی کہ آپ نے اپنے والد محترم سے ذکر کیا اور اجازت حاصل کرکے فوراً بیعت کرلی۔ ایک روایت ہے کہ آپ کے والد نے استفسار فرمایا کہ اگر یہ وہی مسیح ہے جس کی آنحضرت ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
اس بیعت کے بعد آپ کے گھر اور باہر دونوں اطراف سے سخت مخالفت ہوئی گھر میں بھائیوں نے بائیکاٹ کیا اور موچی دروازہ کی حویلیوں اور تاج پورہ اور شیخوپورہ روڈ پر آبائی زمین سے حصہ دینے سے انکار کردیا۔‘‘
(سیرت و سوانح حضرت حافظ خلیفہ ڈاکٹر رشید الدین ۔ صفحہ:61)
طرح طرح کی مشکلات اور پڑھائی
حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب رضی اللہ عنہ 1920 میں احمدی طلباء کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’میں 18نومبر 1920 گزشتہ میں لاہور پہنچا تو ہمارے احمدی کالج کے طالب علموں کی عجب حالت تھی،بےچارے پریشان و سرگرداں پھر رہے تھے۔ 17نومبر کو اسلامیہ کالج کے استادوں کی بے عزتی ہوچکی تھی۔ اور جتنا احمدیوں سے ہوسکا تھا انہوں نے استادوں کا تعاون کیا تھا۔ مگر کہاں تک۔ شہر کے غنڈوں اور کالج کے باقی 400لڑکوں کا مقابلہ تیس پنتیس طالب علم کیسے کرسکتے تھے؟ وہ ڈرتے تھے ان کو تسلی دی اور ان کو کالج میں بھجوادیا۔ مجھے گیارہ بارہ دن رہنے کا اور اتفاق ہوا۔ اور روزانہ ان کی حالت دیکھ کر مجھے بہت فکر رہتا تھا بلکہ ان کی تعلیم کے نقصان کا سخت رنج تھا۔‘‘
(سیرت و سوانح حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صفحہ:196)
مکرم مصطفیٰ ثابت ایک ممتاز مصری عرب احمدی تھے۔ آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیعت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کوعہد خلافت رابعہ میں عربوں میں تبلیغ کے سلسلہ میں اہم خدمات کی توفیق ملی۔ نیز متعد د کتب کے تالیف اور کئی اہم جماعتی کتب کے ترجمہ کی بھی سعادت نصیب ہوئی ۔آپ ایم ٹی اے3 العربیہ کے پروگرام “الحوار المباشر”کے نہایت اہم رکن تھے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خلافت سے عشق رکھنے والے منکسر المزاج احمدی اور نفیس انسان تھے۔آپ کے زمانہ طالب علمی کے دوواقعات درج کرتا ہوں۔وہ بتاتے ہیں کہ
ایک قصہ کاذہن پرگہرا اثر
پرائمری سکول میں ہماری درسی کتب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بھی مذکور تھا جس میںیہ ذکر تھا کہ حضرت موسیٰ ؑکے پاس ایک عصا تھا جس کو انہوں نے سمندر میں مارا تو سمندر پھٹ گیا اور فرعون کو اللہ تعالیٰ نے غرق کیا۔ یہ قصہ مجھے بہت پسند آیا ۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ اگر اللہ انسان کے ساتھ ہو تو انسان سب کچھ کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑے دشمن پر غلبہ پاسکتا ہے۔ میرے دل میں بڑی شدت کے ساتھ یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ میںبھی بڑ ا ہو کر خدا تعالیٰ کا بندہ بنوں شایدیوں وہ مجھے بھی ایک عصا دے دے اورمیں اس کے ذریعہ عجیب عجیب کام کیا کروں۔
اس عمر میں مجھے یہ سبق بڑی اچھی طرح یاد ہو گیا کہ خداتعالیٰ سے مانگیں تو ضرور مدد کرتا ہے ۔ لہٰذا کئی دفعہ جب مجھے سبق یاد نہ ہوتا تھا تو میں خدا سے دعا کرتا تھا کہ اس دفعہ مجھے استاد کی سزا سے بچا لے اگلی دفعہ یاد کرکے آنے کی کوشش کروں گا اور اکثر یوں ہوتا کہ میری باری آنے تک کلاس کا وقت ختم ہو جاتا اور یوں میں اس کی سزا سے بچ جاتا۔
ایک حادثہ سے معجزانہ حفاظت
ایک دن میں سکول جانے کے لئے ٹرین کے انتظار میں تھا۔ اس دن بہت ہجوم تھا مجھے پائیدان پر ایک پاؤں رکھنے کی جگہ ملی۔ ایک ہاتھ سے میں نے ہینڈل کو پکڑا ہوا تھا جبکہ میرے دوسرے ہاتھ میں کتابیں تھیں۔ٹرین چلی تو سٹیشن پر کھڑا ایک شخص مجھ سے ٹکرا گیا۔میرا پاؤں پائیدان سے پھسل گیا اور مَیں ٹرین کے دوڈبوںکے درمیان نیچے لٹکنے لگا۔ اس وقت میرے اندر سے مجھے یہ آواز آئی کہ ہینڈل کوہرگز نہیں چھوڑنا چنانچہ مَیں نے ایسا ہی کیا۔ میری کتابیں گر گئیں اور بعض میرے سامنے ٹرین کے پہیوں کے نیچے کٹنے لگیں۔کچھ دیر بعد ٹرین رک گئی، مَیں بعض افرادکی مدد سے باہر نکلا۔ لیکن یہ محض خدا کا فضل تھاکہ مجھے خراش تک نہیں آئی تھی۔
(صلحائے عرب و ابدال شام، جلد اول صفحہ:150)
طالب علم اور تبلیغ
حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین رضی اللہ عنہ کے زمانہ طالب علمی کے متعلق ذکر کرتے ہوئے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب لکھتے ہیں۔
’’طالب علمی کے ایام میں میں نے اس امر کا بغور مطالعہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے متعدد نسخے منگواکر رکھتے تھے۔ اور نہایت ہی فراخ دلی سے ان لوگوں کودیتے تھے جو ذرہ بھی شوق ظاہر کریں۔ معمولی قیمت کی کتابیں نہیں براہین احمدیہ جیسی قیمتی کتاب۔‘‘
(سیرت و سوانح حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین ۔ صفحہ:209)
بیٹیوں کی تعلیم و تربیت
حضرت حافظ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین کے متعلق آپ کی بیٹی محترمہ رضیہ بیگم لکھتی ہیں کہ
’’اپنی اولاد میں سے آپ کو لڑکیوں سے خاص محبت تھی اور ان کی دینی تعلیم کا بھی بہت خیال تھا۔ صبح کی نماز کے بعد آپ ہمیں قرآن کریم اور احادیث نبوی پڑھایا کرتے تھے۔ مجھے انگریزی بھی پڑھانی شروع کی تھی جب میں نے دو تین کتب پڑھ لیں تو آپ نے انگریزی ترجمہ سپارہ اول جو اسی سال شائع ہوا تھا پڑھانا شروع کردیا۔‘‘
(سیرت و سوانح حضرت حافظ ڈاکٹر رشید الدین صفحہ:335)
حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کے رفیق حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب نے فارسی اور سنسکرت کے باہمی ایک نسل کا ہونے پر انگلستان میں ایک تحقیقی مضمون لکھا جس پر 1921ء کے اوائل میں Societest Philology کی طرف سے آپ کو کا B. ‘Phil کا ڈپلومہ دیاگیا۔
(نیر احمدیت از نعمت اللہ شمس صفحہ:5)
تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل بھی ضروری
رسالہ ریویو آ ف ریلجنز، اردو میں رپورٹ بابت کارکردگی مدرسہ احمدیہ شائع ہوئی۔ لکھا:
’’ہمارا مدرسہ ضلع میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ ٹورنامنٹ کے موقع پر کل انعامات میں سے قریباً نصف تعلیم الاسلام ہائی سکول نے حاصل کئے حالانکہ ضلع میں دو سرکاری اور دو مشنریوں کے اعلیٰ درجہ کے ہائی سکول ہیں۔ بچوں کی جسمانی ورزش کی طرف ماسٹر عبدالرحیم صاحب خاص توجہ رکھنے کے باعث خاص شکریہ کے مستحق ہیں۔ فجزاہ اللہ‘‘
(ریویو آف ریلجنز اردو۔ فروری 1910ء صفحہ 80)
حصہ اوّل
(طارق حیات)