• 30 اپریل, 2024

خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی خلافت کیلئے قربانیاں

حضرت مرزاشریف احمدؓ کا حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کےلئےقربانیوں کا مختصرذکر

سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دادا جان حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ کا دسمبر 1939ءمیں ایک تاریخی مکتوب جو اخبار الحکم قادیان کے جوبلی نمبر صفحہ 54کی زینت ہوا ۔

بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحیم
نحمدہ ٗونصلی علیٰ رسولہ الکریم

مکرمی محترمی شیخ صاحب ! السلام علیکم

آپ الحکم کا جوبلی نمبر نکال رہے ہیں ۔میری بھی خواہش تھی کہ مَیں اس میں چند سطور لکھ کر شامل ہو ں گا مگرگز شتہ دنو ں کام کی نوعیت اس قسم کی رہی کہ باوجود خواہش کے مَیں اس میں حصّہ نہیں لے سکا ۔

میرا ارادہ بیان کرنے کا یہ تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کا طرزِ عمل حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی وفات سے قبل اور اس کے بعد کیا رہا اور واقعات سے اس بات کو ظاہر کرنا تھا کہ اس موقع پر جبکہ مخالفینِ خلافت نے ہرایسے طریق کو خلافت کے خاتمہ کے لئے استعمال کیا جو نہ صرف دیانت اور تقویٰ کے خلاف تھا بلکہ ادنیٰ اخلاق سے بھی گرا ہوا تھا۔

اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ نے مخالفین کی خفیہ کارروائیوں کو خوب اچھی طرح جا نتے ہو ئے اور اس خطرے کو اچھے طور پر محسوس کرتے ہوئے کہ منکرین اس وقت خلافت کو جڑ سے اُکھیڑنا چاہتے ہیں۔ صرف دُعااور خشیت اللہ سے اُن کا مقابلہ کیا۔ مَیں حضرت مسیح موعودؑکے خاندان کا ایک فرد ہو نے کی حیثیت سے اس بات کا گواہ ہوں کہ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی ہدایت اوراثر کے ماتحت ہمارے تما م خاندان نے خلافت کو خداتعالیٰ کی امانت جانتے ہوئے اس کے قیام کے لئے صرف خداتعالیٰ کی خُوشنودی کے حصول کے لئے کوشش کی اور حضور کے دل میں کسی وقت میں اور کسی رنگ میں بھی خودغرضی اور ذاتی مفادکا خیال پیدا نہیں ہوا۔وَاللّٰہُ عَلیٰ مَا أَقُوْلُ شَھِیْد۔

مَیں اس جگہ ایک بات لکھ دینا ضروری خیال کرتاہوں۔ ہم جمعہ کی نماز کے بعد واپس آرہے تھے اور مَیں اُس وقت اُس گلی سے گزر رہا تھا جو دفتر ڈاک سے تحریک جدید کے دفترکے پاس سے ہوتی ہوئی چوک میں آتی ہے ۔اُس وقت مَیں نے ایک شخص سے سنا کہ حضرت خلیفۃ المسیح فوت ہو گئے ہیں ۔اس فقرہ کو سنکر میرا پہلا جذبہ ایک گھبراہٹ کا جذبہ تھا اور مَیں چند قدم باہر آنے کے لئے دوڑا مگر اچانک رُک گیا اور اسی گلی میں کھڑے ہو کر مَیں نے جو دُعا کی ۔وہ یہ تھی کہ اے خدا ! خلیفۃ المسیح وفات پا گئے ہیں۔اب تو جماعت کو فتنہ اور شقاق سے بچائیو۔

اس دُعا کے بعد مَیں آگے بڑھا ۔خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے فتنہ سے بچا لیا اور جو لوگ فتنہ پیدا کر نے والے تھے وہ خود اس میں ایسے بہے کہ مرکز سے ہمیشہ کے لئے منقطع ہو گئے۔

میرا یہ واقعہ بیان کرنے سے صرف مقصد یہ ہے کہ ہما ری طبائع نے حضرت خلیفۃالمسیح ثا نی کے اقوال اور افعال سے جو اثر لیا وہ یہ تھا کہ ہمارے دِلوں میں صرف ایک ہی تڑپ تھی کہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ سلسلہ اپنی صحیح تعلیم پر قائم رہے اور یہ جذبہ اپنےانتہائی کمال تک حضرت خلیفۃ المسیح ثانی میں اُسوقت مو جود تھا اور ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو خلا فت کے لئے اس لئے ہی چنا ہو کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں اتّحاد ملّت کی جو تڑپ اس وقت آپ کے دِل میں تھی وہ کسی اور فرد میں موجود نہ تھی ۔

خاکسار
مرزا شریف احمد

1901ءمیں حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے پیا رے محسن خدا کو مخاطب کرکے عرض کیاتھا۔

مری اولاد سب تیری عطا ہے
ہر اِک تیری بشارت سے ہوا ہے
یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیدہ ہے
یہی ہیں پنجتن جن پر بناء ہے
یہ تیرا فضل ہے اے میرے ہادی!
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِی

سیّدنا حضرت مسیح موعود ؑ نے 1899ء میں اپنے موعود و مبشر خاندان کی نسبت واضح لفظوں میں بتا دیا تھا کہ ’’چونکہ خداتعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت ِاسلام کی ڈالے گا اور اس میں سے وہ شخص پیدا کریگا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا ۔اس لئے اُس نے کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس میں سے وہ اولاد پیدا کرے جو اُن نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہو ئی ہے دُنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلاوے اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی وادی کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہو گی اس کانام نصرت جہاں بیگم ہے یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے۔‘‘

(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد 15صفحہ275)

آیت استخلاف میں تمکنت ِ دین کو نظام ِ خلافت سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اس نقطہ ٔنگاہ سے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے مندرجہ بالا ارشاد سے یہ حقیقت بھی نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ خلافتِ احمدیہ کے عالمگیر نظام کی نصرت و استحکام میں مسیح محمدی کے مبارک خاندان کو ہمیشہ نمایاں خدمات بجا لانے کی نمایاں توفیق ملتی رہے گی۔

’’ہے یہ تقدیر خداوندکی تقدیروں سے‘‘

حضرت مولانا نور الدین خلیفہ اوّلؓ کی وصیّت
حضرت مولانا محمد علی صاحب بانی احمدیہ انجمن اشاعت ِ اسلام لاہور کا انکشاف

’’اپنی پہلی بیماری میں یعنی 1911ء میں جو وصیّت آپ (یعنی خلیفہ اوّلؓ نے۔ ناقل) نے لکھوائی تھی اور بند کرکے ایک خاص معتبر کے سپرد کی تھی اس کے متعلق مجھے معتبر ذریعہ سے معلوم ہو اہے کہ اس میں آپ نے اپنے بعد خلیفہ ہونے کے لئے میاں صاحب کا نام لکھا تھا ۔‘‘

(حقیقت اختلاف،صفحہ 69شائع کردہ احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور۔طبع اوّل)

حضرت خواجہ کمال الدین بانی ووکنگ مشن کاعہد

حضرت خلیفہ اوّلؓ نے خواجہ کما ل الدین صاحب سے 1909ء میں دوبارہ بیعت لی تھی جس کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے خواجہ صاحب رقمطراز ہیں ۔

’’جب مَیں نے بیعت ارشاد کی اور یہ بھی کہا کہ مَیں آپ کا حکم بھی مانوں گا اور آنے والے خلیفوں کا بھی حکم مانوں گا۔‘‘

( اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب صفحہ 70ناشر احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور دسمبر 1914ء)

وصال سے قبل حضرت خلیفہ اوّلؓ کی پیشگوئی

اخبار ’’پیغام صلح‘‘ لاہور نے24فروری 1914ء کے صفحہ 4پر حسبِ ذیل نوٹ اشاعت پذیر ہوا ۔ ’’اخبار قادیان و ڈائری حضرت خلیفۃ المسیح 21فروری 1914ء کل بعد دوپہر تولیہ بھگو کر حضرت صاحب کا بدن صاف کیا گیا شام کے قریب دَردپسلی شروع ہو گیا بہت تکلیف ہو ئی مگر رات کو آرام رہا ۔صبح پھر خفیف ساہوا۔ لیکن طبیعت اچھی رہی فرمایا: خلیفے اللہ ہی بناتا ہے میرے بعد بھی اللہ ہی بنا ئے گا۔‘‘

ختم نبّوت کی بدولت اُمّت میں دریائے نبوت

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کے وصال (13مارچ1914ء) سے ٹھیک 1ماہ قبل غیرمبائعین کے قدیم آرگن ’’پیغامِ صلح‘‘ نے 12فروری 1914ء کی اشاعت میں حسب ذیل نظم شائع کی ۔

کیا ختم رسالت نے کمال اپنا دکھایا
اُمّت میں ہے دریائے نبوت کو بہایا
اس فیض کے ملنے سے ہوئے خیرِ اُمم ہم
کیا حرج ہے اُمّت میں نبی بن کے گر آیا
مومن کے لئے کوئی بشارت ہے تو اس سے
اُمّت میں اگر کوئی کرامت ہے تو اس سے
اس فیض کے وارث ہی تو اللہ کے ولی ہیں
اور ختمِ رسالت کی صداقت ہے تو اس سے
قرآن کی اطاعت کا نتیجہ بھی یہی ہے
ہاں قربِ الہٰی کا وسیلہ بھی یہی ہے
اس راز کو ہے ختمِ نبوت نے ہی کھولا
اسلام کی برکت کا ذریعہ بھی یہی ہے

(مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت)

پچھلا پڑھیں

خلافت کی ضرورت، اہمیت اور برکات

اگلا پڑھیں

آج کی دعا