• 13 جولائی, 2025

عشق ووفا ، ایثار و قربانی ، صبر اور عزم وہمت کی لازوال داستان

سانحہ28مئی 2010ء دارالذکر و ماڈل ٹاؤن لاہور

28مئی 2010ء جمعۃ المبارک کا روز احمدیت کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔یہ وہ دن تھا جب حسب معمول احمدی اپنے مولیٰ کے حکم کے مطابق اپنے کاروبار اور مصروفیات ترک کر کے اﷲ کے گھر میں جمعہ کی عبادت کے لئے جمع ہوئے۔لاہور جسے پاکستان کا دل کہا جاتا ہے اورتاریخ احمدیت میں بھی اس شہر کی غیر معمولی اہمیت ہے جس شہر کو متعدد بار مسیح پاک کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ اس شہر میں جماعت احمدیہ کی دو بڑی مساجد جہاں بڑی تعداد میں احمدی جمعہ کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں یعنی دارالذکر گڑھی شاہو اور مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن، 28مئی کے جمعہ کے لئے بھی لوگ جمع تھے کہ دونوں مقامات پر آتشیں اور جدید اسلحہ سے لیس ظالموں نے نہتے نمازیوں پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں دونوں مقامات پر مجموعی طور پر 86نمازیوں نے جام شہادت نوش کیااسی طرح دارالذکر کے خاکروب مکرم برکت مسیح صاحب بھی اس واقعہ میں وفات پا گئے۔ جماعتی وفد نے ان کے گھر جا کر تعزیت کی۔ڈیڑھ صد کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ماڈل ٹاؤن میںنہتے احمدیوں نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو مسلح دہشت گردوں کو زندہ پکڑ کر پولیس کے حوالہ کیا ۔یہ بہادری کا ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے جو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

دارالذکر اور بیت النور لاہور میں ہونے والی دہشت گردی جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت و تعصب کی مہم کا نتیجہ تھا ۔جو گزشتہ کئی دہائیوں سے منظم طورپر جاری ہے اور ایک حد تک اسے آرڈیننس نمبر 20 اور 298C کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔اس نفرت اور اشتعال انگیز مہم کے نتیجہ میں گزشتہ کئی دہائیوں میںسینکڑوں قیمتی جانیں قربان ہوچکی ہیں اور 28مئی 2010ء کے واقعہ میں اب تک سب سے زیادہ جانی نقصان پہنچایا گیا ہے۔لاہور میںاس واقعہ سے پہلے احباب جماعت احمدیہ کو مولویوں کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی تھیںاور مختلف مقامات پر جماعت احمدیہ کے خلاف بینرز اور سٹیکرز لگے ہوئے تھے لیکن انتظامیہ کو آگاہ کرنے کے باوجود کوئی قابل ذکر کاروائی نہ کی گئی اور اس قدرا لمناک سانحہ پیش آگیا۔

28مئی 2010ء کے سانحہ میں دارالذکر میںشہید ہونے والوں میں جماعت احمدیہ لاہور کے امیر بھی شامل تھے اسی طرح بیت النور ماڈل ٹاؤن میں صدر جماعت ماڈل ٹاؤن اور مربی سلسلہ ماڈل ٹاؤن نے بھی جام شہادت نوش کیا ۔

اس المناک واقعہ کے بعد فوری طور پر شہداء کی تدفین کے انتظامات کا کام شروع کیا گیا ۔شہداء کی تدفین کے لئے میّتوں کو ربوہ لے جانے کا فیصلہ ہوا۔ 78شہداء کو تدفین کے لئے ربوہ لایا گیا اور آٹھ شہداء کی لاہور اور دوسرے مقامات پر تد فین ہوئی۔جماعتی فیصلہ کے مطابق شہداء کی میّتوں کو لاہور سے لانے کے بعد انصاراﷲ پاکستان کے زیریں ہال میں رکھا گیا اور یہیں شہداء کے دیدار اور نماز جنازہ کا انتظام تھا۔شہداء ان کے لواحقین اور مریضان کی دیکھ بھال و دیگر انتظامات لاہور میں محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کی نگرانی میں سرانجام پاتے رہے جو واقعہ کے فوراً بعد لاہور روانہ ہوگئے تھے۔

اس اندوہناک سانحہ کے بعد رات گئے لاہور کے ہسپتالوں سے ضروری کارروائیوں کے بعدمیّتوں کی وصولی اور ان کی تدفین کے لئے ربوہ آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ ربوہ ٹول پلازہ پر مستعد خدام جو موٹر سائیکلوں پر سوار ہوتے وہ شہداء کی میّتو ں کے استقبال کے لئے موجود تھے۔جنازوں کی آمد کے بعد انہیں انصار اﷲ کے زیریں ہال میں رکھا گیا جہاں برف کے بلاکس رکھ کر اسے عارضی سرد خانہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔یہاں خدام الاحمدیہ کے تحت ڈیوٹی کا منظم انتظام تھا۔ انصار اﷲ پاکستان کو میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔انصاراﷲ پاکستان کے تینوں گیسٹ ہاؤسزمیں شہداء کی فیملیز اور لواحقین کے قیام و طعام کا انتظام کیا گیا۔ کھانا دارالضیافت کی طرف سے مہیا کیا گیا تھا۔

انتظامات جنازہ و تدفین

انصار اﷲ پاکستان کے لان میں ٹینٹ لگا کر لواحقین کے لئے سائے اور کرسیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے شہداء کے جنازے انصاراﷲ کے ہال میں پڑھائے اور تدفین مکمل ہونے پر آپ دعا بھی کرواتے رہے۔ شہداء کے قریبی عزیز اور جماعتی بزرگان ہال میں صف بندی کرتے جبکہ دیگر احباب انصار اﷲ کے لان اور ملحقہ سڑک پر صفیں بنا کر نماز جنازہ میں شریک ہو جاتے تھے۔ نماز جنازہ سے قبل شہداء کا تعارف اوران کا آخری دیدارکروایاجاتا رہا۔ شہداء کے لئے تابوتوں کا انتظام پہلے سے ہی کر لیا گیا تھا۔ اسی طرح 28مئی کی رات تک قبرستان عام میں قبروں کی کھدائی کا کام مستعد خدام نے مکمل کر دیاتھا۔


نماز جنازہ کے بعدشہداء کے تابوت ایمبولنس پر قبرستان عام لے جائے جاتے تھے جہاں چاق و چو بند خدام انتہائی باوقار اور منظم طریق سے شہداء کے لواحقین کی موجودگی میں تدفین کا کام سر انجام دیتے رہے۔قبرستان میں حفاظتی انتظامات کے لئے خدام نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مختلف حصار بنا رکھے تھے۔ اس قدر پُروقار انداز میں تدفین کے مراحل دیکھ کر اغیار حیران تھے اور کوریج کرنے والی مختلف میڈیاٹیمیں حیرت زدہ تھیں کہ نہ رونا پیٹنا نہ احتجاج نہ توڑ پھوڑ یہ کیسے لوگ ہیں!!!

28مئی کے المناک سانحہ پر پوری جماعت ہی غم کی کیفیت میں تھی۔ راضی برضا ہونے کا ہمیں درس دیا گیا ہے اور اسی پر سب نے عمل کیا۔ بیشتر شہداء کی تدفین ربوہ میں ہوئی اور یہ سلسلہ چار روز تک جاری رہا اس موقع پر غم اور افسوس کا اظہار کسی احتجاج کی صورت میں نہ تھا بلکہ ایک اعلیٰ نمونہ اہالیان ربوہ نے پیش کیا کہ جس کو اغیار نے بھی محسوس کیا۔ان چار ایام میں ربوہ کے بازار بند رہے، گلیاں سنسان تھیں اور اپنے پیاروں کے آخری دیدار ،ان کے جنازوں اور تدفین میں شرکت کے لئے تڑپ رہے تھے۔ حفاظتی نقطہ نظرسے خلاف معمول بڑے پیمانے پر جنازوں میں حاضری کا انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود ایک بڑی تعداد جنازوں اور تدفین میں شامل ہوئی۔ ربوہ کے سینکڑوں خدام ہمہ وقت ڈیوٹی پر موجود رہے۔


پاکستانی میڈیا کا کردار

سانحہ لاہور کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کے لئے الیکٹرانک میڈیا نے نمایاں کردار ادا کیا بعض ٹی وی چینلز اس کی مسلسل کوریج اگلے کئی ایام تک بھی کرتے رہے اور مختلف ٹاک شوز میں بھی اس واقعہ کا تذکرہ ہوتا رہا۔ملکی اخبارات نے بھی اس واقعہ کو جلی سرخیوں کے ساتھ کوریج دی۔کالم نگاروں اور دانشوروں نے سانحہ لاہور پر کالم لکھے اور اخبارت نے اس بارہ میں ادارتی نوٹ لکھے۔شہداء لاہور کی قربانی کا ایک ثمرہ اس طرح بھی ظاہر ہوا کہ اس واقعہ اور اس کے مضمرات کو بھی کوریج دی گئی اور پہلی بار کسی حدتک جماعتی مؤقف کو بھی پیش کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ ہر چند کہ بعض کی طرف سے منفی پراپیگنڈہ اور تعصب کا بھی مظاہرہ کیا گیا۔

مورخہ 30مئی کو دارالذکر میں ہونے والی پریس کانفرنس میں ایک بڑی تعداد میں پریس نمائندگان تشریف لائے پریس کانفرنسوں میں محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد نے بریفنگ دی اور صحافیوں کے سوالات کے جوابات دئیے۔ اس پریس کانفرنس کو الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے کوریج دی۔

تعزیت وعیادت مریضان

اس قیامت خیز گھڑی میں شہداء کے خاندانوں کے ساتھ تعزیت اور ہمدردی کا اظہار احباب کی طرف سے اپنی نیک روایات کے مطابق ہوتا رہا۔ساری جماعت نے ایک جسم کی مانند ہونے کا ثبوت دیا۔پیارے امام ایدہ اﷲالودود نے تمام شہداء کے لواحقین سے ٹیلی فون پر بات کر کے ان کے زخموں پر ایسا مرہم رکھا کہ لواحقین اپنے سارے غم بھول گئے۔ اہالیان ربوہ نے شہداء کی تدفین کے انتظامات اور ان کے لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔جماعتی اور ذیلی تنظیموں کے وفود بھی شہداء کے گھروں میں گئے اور ہسپتالوں میں جا کر زخمیوں کی عیادت کی۔

سانحہ لاہور پر حضور انور ایدہ اللہ کا خطبہ جمعہ

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ4جون کے خطبہ میں سانحہ 28مئی 2010ء کا تذکرہ کیا اور فرمایا۔

’’گزشتہ ہفتے میں ہزاروں خطوط معمول کے ہزاروں خطوط سے بڑھ کر مجھے ملے اور تمام کا مضمون ایک محور پر مرکوز تھا، جس میں لاہور کے شہداء کی عظیم شہادت پر جذبات کا اظہار کیا گیا تھا، اپنے احساسات کا اظہار لوگوں نے کیا تھا۔غم تھا، دکھ تھا، غصہ تھا، لیکن فوراً ہی اگلے فقرہ میں وہ غصہ صبر اور دعا میں ڈھل جاتا تھا۔ سب لوگ جو تھے وہ اپنے مسائل بھول گئے۔ یہ خطوط پاکستان سے بھی آرہے ہیں، عرب ممالک سے بھی آ رہے ہیں،ہندوستان سے بھی آرہے ہیں، آسڑیلیا اور جزائر سے بھی آ رہے ہیں۔ یورپ سے بھی آ رہے ہیں، امریکہ سے بھی آ رہے ہیں، افریقہ سے بھی آ رہے ہیں، جن میں پاکستانی نژاد احمدیوں کے جذبات ہی نہیں چھلک رہے کہ ان کے ہم قوموں پر ظلم ہوا ہے۔ باہر جو پاکستانی احمدی ہیں، ان کے وہاں عزیزوں یا ہم قوموں پر ظلم ہوا ہے۔ بلکہ ہر ملک کا باشندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کی بیعت میں آنے کی توفیق دی، یوں تڑپ کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہا تھا یا کر رہا ہے جس طرح اس کا کوئی انتہائی قریبی خونی رشتہ میں پرویا ہوا عزیز اس ظلم کا نشانہ بنا ہے۔ اور پھر جن کے قریبی عزیز اس مقام کو پا گئے، اس شہادت کو پا گئے، ان کے خطوط تھے جو مجھے تسلیاں دے رہے تھے اور اپنے اس عزیز، اپنے بیٹے، اپنے باپ، اپنے بھائی، اپنے خاوند کی شہادت پر اپنے رب کے حضور صبر اور استقامت کی ایک عظیم داستان رقم کر رہے تھے۔

پھر جب میں نے تقریباً ہر گھر میں کیونکہ میں نے تو جہاں تک یہاں ہمیں معلومات دی گئی تھیں، اس کے مطابق ہر گھر میں فون کر کے تعزیت کرنے کی کوشش کی۔ اگر کوئی رہ گیا ہو تو مجھے بتا دے۔ جیسا کہ میں نے کہا میں نے ہر گھر میں فون کیا تو بچوں، بیویوں، بھائیوں، ماؤں اور باپوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی پایا۔ خطوط میں تو جذبات چھپ بھی سکتے ہیں، لیکن فون پر ان کی پُر عزم آوازوں میں یہ پیغام صاف سنائی دے رہا تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے مومنین کے اس ردّعمل کا اظہار بغیر کسی تکلف کے کر رہے ہیں کہ اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ہم پورے ہوش و حواس اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ادراک کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر خوش ہیں۔ یہ ایک ایک دو دو قربانیاں کیا چیز ہیں ہم تو اپنا سب کچھ اور اپنے خون کا ہر قطرہ مسیح موعودؑ کی جماعت کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس لئے تیار ہیں کہ آج ہمارے لہو، آج ہماری قربانیاں ہی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہونے کا اظہار اور اعلان دنیا پر کریں گی۔ ہم وہ لوگ ہیں جو قرونِ اولیٰ کی مثالیں قائم کریں گے۔ ہم ہیں جن کے سامنے صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم نمونہ پھیلا ہوا ہے۔یہ سب خطوط، یہ سب جذبات پڑھ اور سن کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا تو میرے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس یقین پر قائم کر دیا، مزید اس میں مضبوطی پیدا کر دی کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیارے یقینًا ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں جن کے پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ یہ صبر و استقامت کے وہ عظیم لوگ ہیں، جن کے جانے والے بھی ثباتِ قدم کے عظیم نمونے دکھاتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ۔ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (البقرۃ:155) کے مصداق بن گئے اور دنیا کو بھی بتا گئے کہ ہمیں مردہ نہ کہو بلکہ ہم زندہ ہیں۔ ہم نے جہاں اپنی دائمی زندگی میں خدا تعالیٰ کی رضا کو پا لیا ہے وہاں خدا تعالیٰ کے دین کی آبیاری کا باعث بھی بن گئے ہیں۔ ہمارے خون کے ایک ایک قطرے سے ہزاروں ثمر آور درخت نشوونما پانے والے ہیں۔ ہمیں فرشتوں نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ ہمیں تو اپنی جان دیتے ہوئے بھی پتہ نہیں لگا کہ ہمیں کہاں کہاں اور کتنی گولیاں لگی ہیں؟ ہمیں گرینیڈ سے دئیے گئے زخموں کا بھی پتہ نہیں لگا۔ یہ صبر و رضا کے پیکر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بے چین، دین کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے، گھنٹوں اپنے زخموں اور ان میں سے بہتے ہوئے خون کو دیکھتے رہے لیکن زبان پر حرفِ شکایت لانے کی بجائے دعاؤں اور درود سے اپنی اس حالت کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتے رہے۔‘‘

پھر فرمایا: ’’مبارک ہیں لاہور کے احمدی جنہوں نے یہ استقامت دکھائی، جانے والوں نے بھی اور پیچھے رہنے والوں نے بھی۔ پس یقینًا اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے اپنے وعدے پورے کرے گا۔ اور دلوں کی تسکین کے لئے جو وعدے ہیں، جو ہمیں نظر آرہے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہونے کا ہی نشان ہے۔‘‘

فرمایا: ’’آج ہمارے شہداء کی خاک سے بھی یقینا یہ خوشبو آرہی ہے جو ہمارے دماغوں کو معطر کر رہی ہے۔ ان کی استقامت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جس استقامت اور صبر کا دامن تم نے پکڑا ہے، اسے کبھی نہ چھوڑنا۔ یقینا اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے۔ ابتلاء کا لمبا ہونا تمہارے پائے استقلال کو ہلا نہ دے۔ کہیں کوئی نا شکری کا کلمہ تمہارے منہ سے نہ نکل جائے۔ ان شہداء کے بارے میں تو بعض خوابیں بھی بعض لوگوں نے بڑی اچھی دیکھی ہیں۔ خوش خوش جنت میں پھر رہے ہیں۔ بلکہ ان پر تمغے سجائے جا رہے ہیں۔ دنیاوی تمغے تو لمبی خدمات کے بعد ملتے ہیں یہاں تو نوجوانوں کو بھی نوجوانی میں ہی خدمات پر تمغے مل رہے ہیں۔

پس ہمارا رونا اور ہمارا غم خدا تعالیٰ کے حضور ہے اور اس میں ہمیں کبھی کمی نہیں ہونے دینی چاہئے۔ آپ لاہور کے وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ

’’لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں‘‘

(الہام 13دسمبر 1900ء)

اور ’’لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں‘‘

(الہام 13دسمبر1900ء)

پس یہ آپ لوگوں کا اعزاز ہے جسے آپ لوگوں نے قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کو صبر اور دعا سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اور پھر اس تعلق میں بہت سی خوشخبریاں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بتائی ہیں۔ پس خوش قسمت ہیں آپ جن کے شہر کے نام کے ساتھ خوشخبریاں وہاں کے رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک مسیح علیہ السلام کے ذریعہ دی ہیں۔

دشمن نے تو میرے نزدیک صرف جانی نقصان پہنچانے کے لئے یہ حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور بھی مقصد تھے۔ ایک تو خوف پیدا کر کے اپنی نظر میں ،اپنے خیال میں کمزور احمدیوں کو احمدیت سے دور کرنا تھا، نوجوانوں میں بے چینی پیدا کرنی تھی۔ لیکن نہیں جانتے کہ یہ ان ماؤں کے بیٹے ہیں جن کے خون میں، جن کے دودھ میں جان، مال، وقت، عزت کی قربانی کا عہد گردش کر رہا ہے۔ جن کے اپنے اندر عہدِ وفا نبھانے کا جوش ہے۔ دوسرے دشمن کایہ خیال تھا کہ اس طرح اتنی بڑی قربانی کے نتیجے میں احمدی برداشت نہیں کر سکیں گے اور سڑکوں پر آ جائیں گے۔ توڑ پھوڑ ہو گی، جلوس نکلیں گے اور پھر حکومت اور انتظامیہ اپنی من مانی کرتے ہوئے جو چاہے احمدیوں سے سلوک کرے گی۔ اور اس ردّ عمل کو باہر کی دنیا میں اچھال کر پھر احمدیوں کو بدنام کیا جائے گا۔ اور پھر دنیا کو دکھانے کے لیے ، بیرونی دنیا کو باور کرانے کے لئے یہ لوگ اپنی تمام تر مدد کے وعدے کریں گے۔ لیکن نہیں جانتے کہ احمدی خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنے والے اور اس کی پناہ میں آنے والے لوگ ہیں۔ خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہونے والے لوگ ہیں۔ اور یہ کبھی ایسا ردّ عمل نہیں دکھا سکتے۔ جب یہ ردّ عمل جو مخالفین کی توقع تھی ان لوگوں نے نہیں دیکھا اور پھر بیرونی دنیا نے بھی اس ظالمانہ حرکت پر شور مچایا اور میڈیا نے بھی ان کو ننگا کر دیا تو رات گئے حکومتی اداروں کو بھی خیال آ گیا کہ ان کی ہمدردی کی جائے۔ اور اپنی شرمندگی مٹائی جائے۔ اور پھر آ کے بیان بازی شروع ہو گئی۔ ہمدردیوں کے بیان آنے لگ گئے۔ حیرت ہے کہ ابھی تک دنیا کو، ان لوگوں کو خاص طور پر یہ نہیں پتہ چلا کہ احمدی کیا چیز ہیں؟ گزشتہ ایک سو بیس سالہ احمدیت کی زندگی کے ہر ہر سیکنڈ کے عمل نے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھولیں۔ یہ ایک امام کی آواز پر اٹھنے اور بیٹھنے والے لوگ ہیں۔ یہ اس مسیح موعود کے ماننے والے لوگ ہیں جو اپنے آقا ومطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنے آیا تھا۔ جنہوں نے جانور طبع لوگوں کو انسان اور انسانوں کو باخدا انسان بنایا تھا۔ پس اب جبکہ ہم درندگی کی حالتوں سے نکل کر باخدا انسان بننے کی طرف قدم بڑھانے والے ہیں، ہم کس طرح یہ توڑ پھوڑ کر سکتے ہیں۔ جلوس اور قتل و غارت کا ردّ عمل کس طرح ہم دکھا سکتے تھے۔ ہم نے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھتے ہوئے اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن کہا اور اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا۔ ہم نے تو اپنا غم اور اپنا دکھ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دیا ہے اور اس کی رضا پر راضی اور اس کے فیصلے کے انتظار میں ہیں۔

یہ درندگی اور سفاکی تمہیں مبارک ہو جو خدا کے نام پر خدا کی مخلوق بلکہ خدا کے پیاروں کے خون کی ہولی کھیلنے والے ہو۔ عوام کو مذہب کے نام پر دوبارہ چودہ پندرہ سو سال پہلے والی بدّووانہ زندگی میں لے جانے والے اور اس میں رہنے والے ہو۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے۔ اب کسی مسیح موعود کی آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب اس سے بھی انکاری ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے لئے قرآن اور شریعت کافی ہے۔ کیا تمہارے یہ عمل اس شریعت اور قرآن پرہیں جو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے؟ یقینًا نہیں۔ تم میرے آقا، ہاں وہ آقا جو محسنِ انسانیت تھا اور قیامت تک اس جیسا محسنِ انسانیت پیدا نہیں ہو سکتا، اس محسنِ انسانیت کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے ہو۔ ناموسِ رسالت کے نام پر میرے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے والے ہو۔ یقینًا قیامت کے دن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہ کا کلمہ تم میں سے ایک ایک کو پکڑ کر تمہیں تمہارے بدانجام تک پہنچائے گا۔ ہمارا کام صبر اور دعا سے کام لینا ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہر احمدی اس پر کاربند رہے گا۔

یہ صبر کے نمونے جب دنیا نے دیکھے تو غیر بھی حیران ہو گئے۔ ظلم اور سفّاکی کے ان نمونوں کو دیکھ کر غیروں نے نہ صرف ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ احمدیت کی طرف مائل بھی ہوئے بلکہ بیعت میں آنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ پس یہ ظلم جو تم نے ہمارے سے روا رکھااس کا بدلہ اس دنیا میں ہمیں انعام کی صورت میں ملنا شروع ہو گیا۔‘‘

فرمایا: ’’پس یہ وہ لوگ ہیں، یہ وہ مائیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں پیدا کی ہیں۔ قربانیوں کی عظیم مثال ہیں۔ اس بات کی فکر نہیں کہ میرے بچوں کا کیا حال ہے یا میرا بچہ شہید ہو گیا ہے۔ پوری جماعت کے لئے یہ مائیںدرد کے ساتھ دعائیں کر رہی ہیں ۔ پس اے احمدی ماؤں! اس جذبے کو اور ان نیک اور پاک جذبات کو اور ان خیالات کو کبھی مرنے نہ دینا۔ جب تک یہ جذبات رہیں گے، جب تک یہ پُر عزم سوچیں رہیں گی، کوئی دشمن کبھی جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔‘‘

(خطبات ِمسرور جلد 8صفحہ263-255)

لاہور میں اگلے جمعہ احمدیہ مساجد کے مناظر

دارالذکر لاہور کا وہ ہال جو28مئی 2010ء کو انسانوں کی قربان گاہ کا ایک منظر پیش کر رہا تھا یہاں درجنوں عباد اﷲ الرحمٰن نے اپنے خون سے اس کے درو دیوار اور فرش کو نہلا دیا تھا۔وہ ہال اگلے جمعہ میں ذکر الٰہی سے ویسا ہی سجا ہوا تھا جیسا کہ 28مئی کو سانحہ سے قبل۔ اگلے جمعہ پر ہال ویسے ہی فرزندان توحید سے پُر تھا جیسا کہ اس کا معمول تھا۔ 4جون کو سینکڑوں عباد اﷲ اپنے مالک حقیقی کے سامنے سر بسجود تھے اور تصور بھی نہ تھا کہ ایک ہفتہ قبل یہاں معصوم نمازیوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تھی۔ دارالذکر کے درو دیوار اور سجدہ گاہ سے 28مئی کے پیارے شہداء کے خون کی خوبصورت خوشبو آ رہی تھی جو شہداء کے جنت میں بسیرے کی نوید دے رہی تھی۔

ڈیوٹی پر موجود خدام احمدیت ان مقامات پر پہلے سے بھی زیادہ مستعد کھڑے تھے جہاں ایک ہفتہ قبل ان کے پیارے راہ مولیٰ میں قربان ہوئے۔ان کے پائے ثبات میں جرأت و بہادری اور استقامت کا عنصر غالب نظر آ رہا تھا۔ 4جون 2010ء کا جمعۃ المبارک لاہور میں پہلے سے بڑھ کر ذوق عبادت کے ساتھ ادا کیا گیا ۔چار مقامات پر مرکزی نمائندگان نے خطبہ دیا اور نماز پڑھائی ان میں دارالذکر میں محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب، بیت النور ماڈل ٹاؤن میں محترم سید محمود احمد صاحب ناظر اصلاح ارشاد مرکزیہ، بیت التوحید میں محترم حافظ مظفر احمد صاحب ناظر اصلاح ارشاد مقامی اور مسجد دہلی گیٹ میں محترم مولانا مبشر احمد کاہلوں صاحب ناظر دعوت الی اﷲ نے جمعہ پڑھایا۔

آنسوؤں سے ترسجدہ گاہیں

خاکسار (جو اس وقت ماہنامہ انصاراللہ کا ایڈیٹر بھی تھا) نے 4جون کا جمعہ جماعت احمدیہ لاہور کی مرکزی مسجد دارالذکر گڑھی شاہو میں ادا کیا تھا۔ہاں اسی ہال میں جہاں سات روز قبل جمعہ ہی کے دن باوضو اور مطہر عباد اﷲ کو نماز جمعہ کے موقع پر ظلم و جور کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان کے خون سے دارالذکر کو تر کر دیا گیا۔ اگلے ہی جمعہ جب لوگ اﷲ کی عبادت کے لئے اس مبارک دن دارالذکرمیں جمع ہوئے تو اﷲ کے حضور اپنی آہ و بکا سے اپنی سجدہ گاہوں کو اپنے آنسوؤں سے تر کر دیا۔ یوں لگتا تھا کہ آج غلامان مسیح موعودؑکی اﷲ کے حضور آہ و زاری عرش الہٰی کو ہلا دے گی۔ فرزندان توحید نے اس زور سے متیٰ نصر اﷲ کی آواز بلند کی کہ عرش سے الاان نصر اﷲ قریب کی صدا سنائی دے رہی تھی۔ یہ اﷲ ہی کی مدد ،اس کی تائیدو نصرت اور اس کی طرف سے عطا کردہ سکینت تھی کہ جس مقام پر اس کے عبادت گزار بندوں پر گولیاں برسا کر انہیں اپنے مقصد تخلیق سے دور کرنے کی ناکام کوشش دشمن نے کی تھی، وہ مقام آج پھر اﷲ کے عبادت گزار بندوں سے بھرا ہوا تھا اور ان کی عبادت میں پہلے سے بڑھ کر ذوق اور خشوع و خضوع پایا جا رہا تھا۔ یہ تھا جماعت احمدیہ کا رد عمل 28مئی کے واقعہ پر جس کو دیکھ کر دشمن خائب و خاسر ہو گیا اور ہمارے اغیارکو احمدیت کا حقیقی چہرہ نظر آیا۔ یہ دراصل ان شہداء کی قربانیوں کا ثمرہ ہی ہے جسے ایک بے مثل عالمی دینی کردار کی صورت میں دنیا نے دیکھا ہے۔

آفرین ہے شہداء کے لواحقین پر کہ اگلے جمعۃالمبارک 4جون پر جہاں 28مئی کو ان کے پیاروں اور عزیزوں نے اپنے مولیٰ کے حضور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اس مقام پر آکر اﷲ تعالیٰ کی عبادت کر رہے تھے۔محترم امیر صاحب ضلع لاہور محترم منیر احمد شیخ صاحب نے دارالذکرمیں اپنی جان اپنے مالک حقیقی کو پیش کی۔ آپ کے بچے جو عموماً ماڈل ٹاؤن بیت النور میں جمعہ پڑھتے ہیں اور 28مئی کو بھی بیت النور ماڈل ٹاؤن میں تھے خاکسار نے ان کے تینوں بیٹوں کو اگلے جمعہ یعنی 4جون کو دارالذکرکے محراب میں نماز جمعہ ادا کرتے ہوئے دیکھا جہاں ان کے پیارے والد محترم نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ شہداء کے لواحقین نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ اپنے مولیٰ سے باندھے ہوئے عہد کو وقت آنے پر پورا کر دکھائیں گے اور اس وقت وہ یَنْتَظِر کی صف میں پُر عزم کھڑے ہیں اور انہیں کسی بزدلانہ کوشش سے مرعوب نہیں کیا جا سکتا۔

خوبصورت ردعمل اور حسین کردار

اتنا بڑا سانحہ گزرا کہ سینکڑوں خاندان اس سے براہ راست متاثر ہوئے اور جماعت احمدیہ من حیث الجماعت اس المناک سانحہ سے دوچار ہوئی۔لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ اس سانحہ کے نتیجہ میں جہاں عورتوں کے سُہاگ لُٹ گئے، جہاں ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کو کھو دیا، جہاں معصوم بچے اپنے باپوں کے سایہ سے محروم ہو گئے، جہاں بہنوں نے اپنے جوان بھائی گنوا دئیے۔ کونسا رشتہ تھاجو چشم زدن میں متاثر نہ ہوا ہو لیکن اس قدر عظیم سانحہ پر سب کی زبانوں پر یہی فقرہ تھا کہ ہم اﷲ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔

دشمن نے شاید خیال کیا ہو گا کہ اس عظیم صدمہ کے بعد احمدی گلی کوچوں میں سراپا احتجاج بن جائیں گے، ٹائر جلائیں گے، اغیار کی املاک کو نقصان پہنچائیں گے، دھرنے دیں گے، ٹریفک بلاک کریں گے،حکومت کے خلاف نعرے لگائیں گے لیکن دشمن کو کیا معلوم کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔ یہ تو حضرت مسیح موعود ؑ کی پیاری جماعت ہے جو کہ دین حق کے حقیقی چہرہ کو دکھانے کے لئے پیدا کی گئی ہے دنیا نے دیکھا کہ اس قدر عظیم سانحہ پر اس قدر عظیم الشان صبرو حوصلے اور ضبط جذبات کا مظاہرہ کیا گیا۔اپنا ہم و غم اپنے مولیٰ کے حضور بیان کیا اور اپنے پیارے شہیدوں کو انتہائی صبر و حوصلے اور سکینت کے ساتھ لحدوں میں اتارا۔ تدفین کے مناظر کی عکس بندی کرنے والے چینلز کی ٹیمیں اس پُر وقار نظارہ کو دیکھ کر حیران تھیں کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ داراصل یہ وہ سکینت تھی جو اﷲ تعالیٰ کے فرشتے نازل فرما رہے تھے اور شہدا ء کے لواحقین کے خوف کو امن اور سکون میں بدل رہے تھے۔

حالت خوف کا امن میں بدلنا

جماعتی انتظام کے تحت خاکسار کو دو بار متعدد شہداء کی فیملیز سے لاہور میں ان کے گھروں میں جا کر ملاقات اور ان کے بلند حوصلے، تسکین قلب اور عدیم المثال صبر کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔سب سے بڑھ کر لواحقین کی طرف سے اس بات پر اظہار مسرت تھا کہ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہر شہید کے گھر فون کر کے ان کے احوال معلوم کر کے ان کے حوصلے کوبلند کیا۔ یقینًا حضور انور ایدہ الودود کے ٹیلی فونز نے شہداء کے لواحقین کے زخموں پر مرہم کا کام کیا۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ خلیفۃ المسیح کی آواز کو اپنے گھر میں سن کر اپنے سارے غم بھول گئے ہیں۔ یہ وہ کیفیت ہے جو داراصل برکات خلافت کے نتیجہ میں ہی ملا کرتی ہے۔ ہاں وہ خلافت جس کے نتیجہ میں اﷲ تعالیٰ خوف کی حالت کو امن میں بدل دیتا ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ ہم نے اس عظیم سانحہ کے نتیجہ میں طبعی طور پر پیدا ہونے والے خوف کو امن کی حالت میں اپنی آنکھوں کے سامنے بدلتے ہوئے دیکھا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اس نعمت خلافت سے سرفراز رکھے اور اس کی برکات سے مستفیض فرماتا رہے۔ آمین۔

شہداء کے خاندانوں سے ملنے کے بعد ہمیں مِنْھُمْ مَنْ قَضیٰ نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ کی تفسیر معلوم ہوئی کہ راہ مولیٰ میں قربان ہونے والے تو اپنے عہدوں کو پورا کر گئے اور ان کے لواحقین ان کی راہ پر چلنے کی تمنا اپنے دل میں رکھتے ہیں اور تقدیر الٰہی کے منتظر ہیں۔ عشق و وفا اور جاں نثاری کی داستان احباب جماعت اپنے پیارے امام کے خطبات میں سن چکے ہیں جو دلوں کو گرما دینے والی ہے۔

جرأت و بہادری کا شاندار نمونہ

صبرو رضا کے پیکروں نے اپنے آپ کو خدا کے حضور پیش کر دیا ایثار و قربانی کے عظیم نمونے دکھائے کہ قرون اولیٰ کی یاد تازہ کر دی۔ دوسروں کو بچاتے ہوئے اپنی جانیں دے دیں۔ جرأت اور بہادری کے ایسے عظیم نمونے بھی ہم نے دیکھے کہ بیت النور ماڈل ٹاؤن میں نہتے نوجوانان احمدیت نے وہ کارنامہ دکھایا کہ جو حالت جنگ میں مسلح تربیت یافتہ لوگ بھی نہیں دکھا سکتے اور دو حملہ آور دہشت گردوں کو جو آتشین اسلحہ سے لیس اور خود کش جیکٹ پہنے ہوئے تھے ان کو زندہ پکڑ کر بہت بڑی تباہی سے بچا لیا۔ ایک دہشت گرد کو قابو کرنے والاایک بظاہر کمزور سا نہتاجوان تھا لیکن اس نے وہ کام کر دکھایا جو طاقتور پہلوان بھی نہ کر سکے۔ اس نے جب ایک ہاتھ سے دشمن کی گردن دبوچی تو دوسرا ہاتھ دشمن کی گن پر رکھ دیا جس کے بعد دوسرے ساتھیوں نے دشمن پر قابو پا لیا۔اس کی بندوق سینکڑوں گولیاں برسانے کے بعد آگ کی طرح گرم تھی۔ اس کے نتیجہ میں اس بہادر نوجوان کا ہاتھ جل کر شدید مجروح ہوا لیکن اس کے ہاتھ پر نگینوں کی طرح اُبھرے ہوئے چھالے بہتوں کی جان بچا گئے۔

مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن میں سیکیورٹی گارڈ محمد انور نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان دے کہ اپنا وعدہ سچ کر دکھایاکی میری لاش سے گزر کر ہی کوئی بیت النور میں داخل ہو گا۔اس شہید کے جواں سال بیٹے عطاء نے بھی جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا اور مسجد بیت النور کے مین ہال میں شدید زخمی ہوا اوراسی حالت میں دشمن کو قابو کرنے میں اپنے ساتھیوں کی مدد کرتا رہا۔ اﷲ تعالیٰ اس کو شفائے کامل عطا فرمائے۔

بیٹا آگے نکل گیا میں پیچھے رہ گیا

سانحہ لاہور میں شہید ہونے والے سب سے کم عمر نوجوان عزیزم ولید احمد آف ناصر آباد شرقی ربوہ تھے۔منفرد اعزاز کے حامل ہیں کہ دادا بھی شہید اور نانابھی شہید۔ اپنے دادا اور نانا کی قربانیوںکی یاد کو زندہ کر گیا۔اس کی تو بچپن سے ہی خواہش تھی کہ وہ بڑا ہو کر شہید بنے گا ۔دارالذکر میں زخمی حالت میں والدین کو فون کیا لیکن اپنے زخمی ہونے کا نہ بتایا کہ والدین کو دکھ نہ ہو اور پھر جام شہادت نوش کیا۔آفرین ہے ولید کے والدمحمد منور صاحب پر کہ جن کا اکلوتا بیٹا شہید ہو گیا اور وہ یہ کہہ رہے تھے ’’میرے والد بھی شہید اور میرا بیٹا بھی شہید ہو گیا۔میرا بیٹا آگے نکل گیا میں پیچھے رہ گیا۔‘‘ سبحان اﷲ راہ مولیٰ میںقربان ہونے کے لئے من ینتظر کے اس گروہ کی شان تو دیکھئے!!!

دشمن مجھے گرا کر ہی آگے جا ئے گا

شہید مکرم منور احمد قیصر صاحب دارالذکر لاہور میں سالہا سال سے گیٹ پر سیکیورٹی ڈیوٹی دیا کرتے تھے۔بہادری کے ساتھ ڈیوٹی دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ کوئی مجھے گرائے گا تو آگے جائے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی بات پوری کی اور جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ دارالذکر کے ابتدائی شہداء میں شامل ہوئے۔ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ میرا یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو اپنے پاس لے گیاجوزیادہ جماعتی خدمت کرنے والے تھے۔

شہادت کا ایک منفرد پہلو

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے پوتے محترم میاں منیر عمر صاحب آف ماڈل ٹاؤن نے بھی جام شہادت نوش کر کے خاندان حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے خون کو بھی گلشن احمدیت کی آبیاری کے لئے پیش کر دیا۔آپ کی اہلیہ محترمہ جو حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ پسر حضرت صوفی احمدجان صاحب لدھیانویؓ کی نواسی ہیں انہوں نے بتایا کہ مجھے خوشی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے خاندان کا خون احمدیت کی آبیاری میں شامل ہو گیا اور جس طرح حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا آپس میں گہرا تعلق تھا ۔آقا وغلام بھی تھے اور گہرے دوست بھی اور حضرت مسیح موعودؑ کا خون مرزا غلام قادر شہید کے ذریعہ احمدیت کے کام آیا اب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا خون بھی شامل ہو گیا۔ان کا کہنا تھا کہ اﷲ کرے کہ یہ خون آپ کے تمام عزیزوں کے لئے بھی باعث برکت اور نیک ثمرات کا حامل ہو۔

واقف زندگی بھائی کی شہادت

ہمارے پیارے واقف زندگی بھائی محترم محمود احمد شاد صاحب مربی سلسلہ نے ماڈل ٹاؤن میں منبر پر موجودگی کے دوران احباب جماعت کو دعاؤں کی تلقین کرتے ہوئے اور اﷲ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنی جان مالک حقیقی کے سپرد کر کے واقفین زندگی کے لئے بھی مثال قائم کر دی ہے۔بہت ہی مرنجان مرنج طبیعت کے مالک اور علمی مزاج کے حامل تھے۔ آپ کو متعدد بار دشمن کی دھمکیاں ملتی رہی لیکن مردانہ وار میدان جنگ میں سینہ تان کر جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

معصوم زخمی بچی کانمونہ

اس سانحہ کے دوران ڈیڑھ صد کے قریب لوگ زخمی ہوئے ان کے حوصلے بلند ہیں اور وہ کسی سے خوف کھانے والے نہیں۔اﷲ تعالیٰ کے فرشتوں نے ان کو بھی سکینت سے نوازا ہے۔اس کی ایک ’’معصوم مثال‘‘ بہت ہی پیاری سب سے کم عمر بچی چار سالہ عزیزہ نور فاطمہ ہے جو کہ اپنے ابا محمد اعجازصاحب آف مغلپورہ کے ہمراہ دارالذکر جمعہ پڑھنے آئی۔ اس کے دو بھائی جو اطفال کی عمر میں ہیں وہ بھی ہمراہ تھے ان سب کو گرنیڈ کے پھٹنے سے زخم آئے لیکن سب سے گہرا زخم نور فاطمہ کو اس کے رخسار پر آیا۔ ڈیڑھ انچ کے قریب زخم آیا لیکن آفرین ہے اس معصوم بچی پر کہ تقریباً تین گھنٹے مربی ہاؤس میں محبوس رہی۔ رونا تو درکنار ایک بار اُف تک نہیں کی اور جب دوسرے لوگ بولتے تو یہ انگلی کے اشارے سے منع کرتی کہ باہر گندے لوگ ہیں خاموش رہیں اس پر یہ تسکین یقینًا اﷲ کے فرشتے اُتار رہے تھے۔

لازوال قربانی کی حسین مثال

شہداء کی قربانی اور ان کے لواحقین کے صبرو رضاکی داستان بہت طویل ہے ان کو صفحات میں سمویا نہیں جا سکتا۔ ان شہادتوں کی ایک شان یہ بھی ہے کہ دارالذکر اور مسجد بیت النور ماڈل ٹاؤن دونوں مقامات پر جماعت لاہور کی مرکزی قیادت کو جام شہادت نوش کرنے کی توفیق ملی ہے۔ دارالذکرمیں محترم منیر اے شیخ صاحب امیر جماعت لاہور اوربیت النور میں میجر جنرل ناصر احمد صاحب صدر جماعت ماڈل ٹاؤن شہید ہوئے اس طرح آپ حضرت مسیح موعود ؑ کے بیان فرمودہ اس شعر کی بھی عملی تصویر بن گئے کہ

من نہ آنستم کہ روز جنگ بینی پشت من
آں منم کاندرمیان خاک و خوں بینی سرے

میں وہ نہیں ہوں کی جس کی بروز جنگ پشت نظر آئے بلکہ میں وہ ہوں جسے تومیدان جنگ میں خاک و خون سے لتھڑا ہواپائے گا۔پس ان مردان خدا نے ثابت کر دیا کہ وہ مسیح موعودؑ کے حقیقی غلام ہیں جنہوں نے میدان جنگ میں پشت نہیں دکھائی بلکہ ان کے جسم خاک و خون سے بھرے ہوئے تھے اور انہوں نے عین میدان کارزار میں سینہ تان کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت سید عبداللطیف شہید کابل کی عظیم شہادت پر فرمایا تھا۔

’’اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تونے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جو لوگ میری جماعت میں میری موت کے بعد رہیں گے۔میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے۔‘‘

(تذکرۃالشھادتین روحانی خزائن جلد20 صفحہ 60)

آج حضرت مسیح موعود ؑ کے غلام آپ کی وفات کے سو سال سے زائد عرصہ بعد بھی وہی نمونہ دکھلا رہے ہیں جس کی مثال شہزادہ عبداللطیف صاحب نے قائم کی تھی۔ آج ہزاروں لاکھوں مظفر راہ مولیٰ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔

سانحہ لاہور اور ہماری ذمہ داریاں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبات میں تمام شہداء لاہور کا فرداً فرداً تذکرہ فرمایا اور ان کی سیرت کا خلاصہ بیان کرنے کے بعد ہمیں ہماری ذمہ داریوں کی طرف اپنے خطبہ جمعہ9؍جولائی 2010ء میں ان الفاظ میں توجہ دلائی۔

’’یہ شہداء تو اپنا مقام پاگئے، مگر ہمیں بھی ان قربانیوں کے ذریعے سے یہ توجہ دلا گئے ہیں کہ اے میرے پیارو! میرے عزیزو! میرے بھائیو!میرے بیٹو! میرے بچو !میرے مائوں!میری بہنو! اور میری بیٹیو! ہم نے تو صحابہ کے نمونے پر چلتے ہوئے اپنے عہد ِبیعت کو نبھایا ہے مگر تم سے جاتے وقت یہ آخری خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ نیکیوں اور وفا کی مثالوں کو ہمیشہ قائم رکھنا۔ بعض مردوں نے اور عورتوں نے مجھے خط بھی لکھے ہیں کہ آپ آج کل شہداء کا ذکر ِ خیر کر رہے ہیں، ان کے واقعات سن کر رشک بھی آتا ہے کہ کیسی کیسی نیکیاں کرنے والے اور وفا کے دیپ جلانے والے وہ لوگ تھے اور پھر شرم بھی آتی ہے کہ ہم ان معیاروں پر نہیں پہنچ رہے۔ ان کے واقعات سن کر افسوس اور غم کی حالت پہلے سے بڑھ جاتی ہے کہ کیسے کیسے ہیرے ہم سے جدا ہو گئے۔ یہ احساس اور سوچ جو ہے بڑی اچھی بات ہے لیکن آگے بڑھنے والی قومیں صرف احساس پیدا کرنے کو کافی نہیں سمجھتیں بلکہ ان نیکیوں کو جاری رکھنے کیلئے پیچھے رہنے والا ہر فرد جانے والوں کی خواہشات اور قربانیوں کے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس ہمارا کام ہے اور فرض ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ان قربانیوں کا حق ادا کریں۔ ان کے بیوی بچوں کے حق بھی ادا کر کے اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں۔ ان کے چھوٹے بچوں کی تربیت کے لئے جہاں نظام ِ جماعت اپنے فرض ادا کرے وہاں ہر فرد ِ جماعت ان کے لئے دعا بھی کرے۔ اللہ تعالیٰ تمام لواحقین کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔ ان کی پریشانیوں، دکھوں اور تکلیفوں کو دور فرمائے اور خود ہی ان کا مداوا کرے۔انسان کی کوشش جتنی بھی ہو اس میں کمی رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو صحیح تسکین کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے لئے تسکین کے سامان پیدا فرمائے اور ان کے بہتر حالات کے سامان پیدا فرمائے۔ پس ان شہداء کے ورثاء کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں اور احباب ِ جماعت اپنے لئے بھی دعائیں کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دشمن کے ہر شر سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ دعاؤں کی آج کل بہت زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان کے حالات جو ہیں وہ بدتر ہی ہورہے ہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑا اس سے، مخالفت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر شر سے بچائے اور اُن شریروں کے شر اُن پر الٹائے اور ہمیں ہر احمدی کو ثبات ِ قدم عطافرمائے۔‘‘ آمین

(خطبات ِ مسرور جلد 8صفحہ365-364)

گلشنِ احمد کو مہکاتی ہے خوشبوئے شہید
اٹھ رہی ہے رشک سے ہر اک نظر سوئے شہید
کاش مل جائے سبھی کو خوبی خوئے شہید
چاند سے بڑھ کر ہے روشن اک اک روئے شہید

(صاحبزادی امۃالقدوس بیگم)

(محمد محمود طاہر)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ27۔مئی2020ء

اگلا پڑھیں

آج کی دعا