• 26 اپریل, 2024

محترم بابا ملک رشید احمد صاحب دوالمیال ضلع چکوال

(جنوری 1919ء تا جون 2020ء)

مکرم رشید احمد صاحب کے گھر میں احمدیت کا ورود آپ کے والد مکرم عبدالصمد صاحب کی احمدیت قبول کرنے سے ہوا۔ اس لئے آپ پیدائشی احمدی تھے۔آپ نے دوالمیال کے صحابہ حضرت مسیح موعودکی صحبت میں اپنی زندگی بسر کی۔ آپ نہایت جوشیلے احمدی اور دلیر داعی الی اللہ تھے۔جوانی میں فوج کی ملازمت کے دوران بھی ہر جگہ ایک مثالی احمدی کی حیثیت سے زندگی بسر کی۔ پنجوقتہ نماز کے عادی تھے اور باقاعدہ تہجد گزار تھے۔ دوران ملازمت بھی نمازوں کو بڑے التزام سے ادا کرتے رہے۔

آپ دوسری جنگِ عظیم میں شامل ہوئے اور آپ کی یونٹ دورانِ جنگ برما کے محاذ پر جاپانی فوجوں سے نبرد آزما رہی۔آپ بتایا کرتے تھے کہ برما کا محاذ بہت مشکل تھا۔ وہاں لڑائی میں سو سو جاپانی جہاز ہمارے اوپر گولہ باری کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں مجھے بتایا کہ ہماری فوج نے جاپانی فوج کا کافی علاقہ قبضہ کر لیا۔ پھر ان کی جانب سے بہت بڑا حملہ ہم پر ہوا۔جس میں ان کو آرٹلری اور ایئر فورس نے بھی مدد دی۔ ہمارے پاس نفری کم تھی۔ اور اس طرح انہوں نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ وہ بتاتے تھے ہم بڑی دلیری سے لڑے تھے اورکوئی خوف نہیں تھا۔ پھر ہماری سپلائی بند ہونے کی وجہ سے انہوں نے ہماری یونٹ کو قیدی بنا لیا۔ رات ہو گئی تھی اور ہمیں کیمپ میں لے جایا جا رہا تھا۔ ایسے میں اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئےمیں وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ بعد میں ہماری کمک پہنچ جانے پر ہماری فوج نے جب جاپانیوں پر حملہ کیا تو اس وقت جاپانیوں نے ہمارے تمام قیدیوں کو مار دیا۔ میری خوش نصیبی تھی کہ یوں اللہ تعالیٰ نے مجھے بچا لیا۔

دوسری جنگِ عظیم میں دوالمیال سے 835 جوانوں نے مختلف محاذوں پر شرکت کی۔ ان میں سے دو ویٹرن حیات تھے۔ان دونوں میں سے ملک رشید احمد صاحب بلحاظ عمر بڑے تھے جنہوں نے سو سال عمر پائی اور19جون 2020ء کو مولائے حقیقی سے جا ملے۔ جبکہ دوسرے ملک محمد خان صاحب کی عمر اس وقت 98سال ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں عمر دراز عطا فرمائے۔ آمین

مکرم ملک رشید احمد صاحب کی صحت آخری وقت تک بہت اچھی رہی۔ پہلی جنگِ عظیم کی صد سالہ تقریبات کے سلسلہ میں آپ نے خود دوالمیال توپ کے پاس آکر اور دوالمیال میوزیم میں آکر BBC,Geo, Aljazeera,Sky ,AFP, Public, Din اور بہت سارے ٹی وی چینلز پر اپنے انٹرویوز ریکارڈ کروائے اور دوالمیال کی عسکری تاریخ پر، پہلی جنگِ عظیم میں دوالمیال سے460 جوانوں کی شرکت، توپ کا انعام حاصل کرنے والے کپتان ملک غلام محمد صاحب کے حالات و واقعات (توپ اب بھی دوالمیال کے تالاب پر ان کی یاد تازہ کیے ہوئے ہے)، سو سے زیادہ پہلی جنگِ عظیم میں حصہ لینے والے دوالمیال کے وائسرائے کمشنڈ آفیسرز کے اور دوسری جنگِ عظیم کے واقعات بتائے جو ان سب چینلز پر ٹیلی کاسٹ کئے گئے۔

آپ نہ صرف پنجوقتہ نمازیں احمدیہ دارلذکر میں باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتے تھے بلکہ ہاتھ میں لالٹین اٹھا کر رات کے آخری پہر تہجد کی نماز احمدیہ دارالذکر میں بلا ناغہ ادا کرنے کے لئے جاتے تھے۔ قرآنِ مجید کی تلاوت آپ کا روزانہ کا معمول تھا۔12 دسمبر 2016ء کے سانحہ دوالمیال کے بعد احمدیہ دارالذکر کو انتظامیہ کی جانب سے غیر منصفانہ، اور ملاں کو خوش کرتے ہوئے سیل کیے جانے کے بعد آپ گھر میں ہی اپنی عبادات بجا لاتے اور جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو سب سے پہلے پوچھتے کہ احمدیہ دارالذکر کب کھلے گی؟ ساتھ ہی کہتے کہ ان شااللہ بہت جلد کھلے گی اور پھر ہم اس میں عبادات بجا لائیں گے۔

قیامِ پاکستان کے وقت آپ ہشیارپور میں مقیم تھے۔آپ بتاتے تھے کہ اکثر قادیان جا کر بہشتی مقبرہ میں دعائیں کرنے، مسجد اقصیٰ قادیان، مسجدمبارک قادیان میں نمازیں ادا کرنے اور فیوض و برکات حاصل کرنے کے مواقع نصیب ہوئے۔ جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہونے کا جب بھی موقع ملتا، شامل ہوتے۔ ربوہ کے تقریباََ ہر جلسہ میں شمولیت اختیار کی۔1991ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کی جس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الربعؒ قادیان تشریف لائے تھے۔بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میری ملاقات حضرت خلیفۃ المسیح الربعؒ سے کروا دی۔

آپ کے پاس ایک کھونڈی(عصا) تھا۔آپ بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ جو کھونڈی میرے نصیب میں ہے اور جسے میں برکت کے لیے کبھی کبھی استعمال بھی کرتا ہوں یہ امام آخرالزماں حضرت مسیح موعودؑ کا بابرکت عصا ہے۔ جب بھی میں آپ کے پاس جاتا تھا تو ان سے درخواست کر کے اس عصا کی زیارت ضرور کیا کرتا تھا۔دوالمیال کی یہ خوش نصیبی ہے کہ اس کے پاس حضرت مسیح موعودؑ کے دو اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ایک تبرک موجود ہے۔ ایک حضرت مسیح موعودؑ کا عصا اوردوسرا حضرت مسیح موعودؑ کی کوٹ کا ایک ٹکڑا جو محترمہ آپا اختر صاحبہ دختر کپتان عبداللہ صاحب کے پاس موجود ہے جبکہ ایک اور عصا ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مکرم میجر ملک حبیب اللہ صاحب پہلے امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع چکوال کو اپنی طرف سے تحفہ کے طور پر عطا کیا تھا۔

پاکستان بننے کے بعد آپ پولیس میں بھرتی ہو گئے۔ جھوٹ اور رشوت اور سگریٹ نوشی سے نفرت تھی۔ اپنے بڑے سے بڑے افسر کے سامنے بھی سچ بات کہنے سے نہ گھبراتے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کے افسران کو آپ کی سچائی پر بہت اعتماد تھا اور وہ کہا کرتے تھے کہ ملک رشید جو بات کہے گا وہ درست ہو گی۔ آپ اکثر بتایا کرتے تھے کہ جب مجھے صفائی اور دوسرے سمن کی تعمیل کے لئے کہیں بھیجا جاتا تو میں اپنی روٹی ساتھ باندھ کر لےجاتا اور وہاں کسی سے روٹی اور چائے بھی نہیں پیتا تھا۔ کسی قسم کی رشوت آج تک نہیں لی۔آپ ایک مثالی کردار کے مالک تھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت نے ہمیں توحید پر قائم رہنا سکھایا،شرک سے دور کر دیا، جھوٹ، رشوت اور دوسری تمام برائیوں سے دور رہنے کا درس دیا، بدعات سے نفرت کا سبق دیا اور ہمارے کردار کو ایک صحیح اورحقیقی مسلمان کا کردار بنا دیا۔ہمیں دین کی دولتِ عظیم سے نوازا۔ہم جو کچھ ہیں احمدیت کی وجہ سے ہیں۔ہمیں اپنی اولاد کی صحیح رنگ میں تربیت کر کے انہیں احمدیت کی دولت سے مالا مال کرنا چاہیئے۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے بھیرہ میں اپنی تعیناتی کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی مسجد میں، جوحضورؓ کے گھر میں ہی بنی ہوئی ہے، بڑی مدت تک نمازیں اور نماز تہجد ادا کی ہیں۔

آپ کی دلی خواہش تھی کہ آپ کا پوتا آپ کی نظروں کے سامنے مربی سلسلہ بن کر دین کی خدمت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس دلی خواہش کو آپ کی زندگی میں پورا کر دیا اور آپ کا پوتا حاشر احمد جس دن مربی بن کے جامعہ سے پاس آؤٹ ہوا تو اس دن آپ کی خوشی دیدنی تھی۔ آپ سب کو بلا بلا کر بتا رہے تھے کہ اس مولا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جس نے میری اس خواہش کو پورا کیا اور میرا پوتا مربی سلسلہ بن گیا۔آپ کے دوبیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بہت ساری پوتے پوتیاں،نواسے نواسیاں ہیں اورسب ہی بڑھ چڑھ کر احمدیت کی خدمت کر رہے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکرم رشید احمد صاحب کو جنتِ فردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اپنی مغفرت کی چادرمیں لپیٹ لے۔ آمین۔

٭…٭…٭

(ریاض احمد ملک)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 28 جون 2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 29 جون 2020ء