• 16 مئی, 2024

گیمبیا میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد

مغربی افریقہ کے سب سے چھوٹے ملک گیمبیا میں جماعت احمدیہ کا پہلا پودا سن 1952ء میں لگا جب جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کرنے کے ذریعہ پہلی بیعت ہوئی اور ایک ہی سال میں افراد جماعت کی تعداد اتنی ہوگئی کہ انہوں نے اس وقت کے جماعتی مرکز پاکستان سے ایک باقاعدہ مبلغ بلوانے کے لئے کوششیں شروع کردیں۔ تاہم مولویوں کی مخالفت کی وجہ سے ایسا جلد ممکن نہ ہو سکا اور 1959ء میں پہلے مشنری مکرم الحاجی حمزہ سینائیکو نائیجیریا سے بھجوائے گئے۔

گیمبیا میں ایک بہت معروف احمدی مکرم سر فارمنگ ماماڈی سنگھاٹے تھے جو بعد میں گیمبیا کے پہلے گورنر جنرل بھی بنے اور موصوف جماعت کی تاریخ میں پہلے احمدی ہیں جوکسی بھی ریاست کے سربراہ ہیں۔ جماعت کے ایک مبلغ مکرم الحاجی ابراہیم جیکینی کے ذریعہ آپ کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔آپ نے ان کے ذریعہ 1963ء میں بیعت کی تھی۔ یاد رہے کہ سر فارمنگ ماماڈی سنگھاٹے صاحب نے 1966ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو خط لکھا تھا جس میں حضورؒ سے درخواست کی تھی کہ حضرت مسیح موعودؑ کے کپڑوں کا ٹکڑا بطور تبرک عنایت فرمائیں۔ چنانچہ حضورؒ نے شفقت فرماتے ہوئے ان کی درخواست قبول فرمائی اور ان کو حضرت مسیح موعودؑ کے کپڑوں کا ٹکڑا بطور تبرک عنایت فرمایا اور اس طرح اللہ تعالٰی کا الہام ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ بڑٰی شان سے پورا ہوا۔ الحمد للہ

گیمبیا میں جماعت کی پہلی مسجد کی تعمیر کا سہرا بھی مکرم سر فارمنگ ماماڈی سنگھاٹے کے سر ہی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آپ کی پیدائش گیمبیا کے ایک ریجن مکاٹی (سنٹرل ریور ریجن) کے علاقہ میں ہوئی تھی۔ لیکن بعدازاں آپ وہاں سے ایک دوسرے ریجن (نارتھ بنک ریجن) کے ایک قصبہ فرافینی میں آگئے تھے۔ جہاں پر انہوں نے بطور کمپاؤڈر ایک میڈیکل سٹور (فارمیسی) شروع کیا اور یہیں پر سکونت اختیار کی۔ اس کے بعد آپ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک چھوٹی سی مسجد بنوائی۔ جو کہ گیمبیا میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد تھی۔ گو کہ اس سے پہلے ملک کے دارالخلافہ بانجل میں نماز سنٹر قائم تھا لیکن پہلی تعمیر ہونے والی مسجد یہی تھی جو کہ فرافینی نارتھ بنک ریجن میں بنی اور اس کی تعمیر 1964ء میں عمل میں آئی۔

شروع میں مکرم سنگھاٹے صاحب نے اپنے گھر کے ایک کمرے کو ہی مسجد کی جگہ مخصوص کرکے اس میں باجماعت نمازیں پڑنی شروع کیں، لیکن بعد میں سن1964ء میں باقاعدہ ایک مسجد تعمیر کروائی۔ سائز کے لحاظ سے یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس میں تقریباً بیس سے پچیس افراد بیک وقت نماز ادا کر سکتے تھے۔

مکرم سنگھاٹے صاحب کو جولائی 1966ء میں ملک کا گورنر جنرل بنا دیا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ ملک کے دارالخلافہ بانجل میں منتقل ہوگئے۔ لیکن ان کے جانے کے بعد بھی اس مسجد میں باقاعدہ نمازیں اور خصوصاً نماز جمعہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ کئی کئی کلومیٹر دور سے احمدی احباب آتے اور یہاں آکر نماز جمعہ ادا کرتے۔

اگر اس مسجد کی موجودہ صورتحال پر بات کی جائے تو یہ مسجد چونکہ احمدیوں کی بڑھتی تعداد کو سمیٹنے کے لئے ناکافی تھی، اس لئے جماعت نے اس کے علاوہ فرافینی ہی میں بڑی جامع مسجد بنالی۔ اب باقاعدہ جمعہ اور باجماعت نمازیں اس جامع مسجد میں ہوتی ہیں۔ جب کہ مذکورہ مسجد کی مکرم سنگھاٹے صاحب کے بچوں نے اپنے ذاتی خرچ پر توسیع کرتے ہوئے اس کو نئے زمانے کے مطابق شکل دے دی ہے اور اس کو بڑے خوبصورت طریق سے سنگ مرمر کی ٹائلوں سے مزین کیا ہے۔ اب نہ صرف یہ کہ اس میں پانچ وقت باجماعت نماز ہوتی ہےبلکہ پانچ وقت سپیکر میں اذان بھی دی جاتی ہے۔ یہ مسجد قصبہ کے بازار میں واقع ہے اس لئے بازار میں موجود دکان دار بھی یہاں آکر نماز ادا کرتے ہیں۔سائز کے لحاظ سے اس وقت بعد از توسیع اس میں پچاس کے قریب افراد نماز باجماعت ادا کر سکتے ہیں۔

دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالٰی اس مسجد کو جماعت احمدیہ مسلمہ کی اشاعت اور ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ آمین

(مسعود احمد طاہر نمائندہ الفضل آئن لائن گیمبیا)

پچھلا پڑھیں

انڈونیشیا کی مسجد محمود سانڈینگ

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی