• 29 اپریل, 2024

برکینا فاسو کی ابتدائی مساجد

تعارف برکینا فاسو

دو مختلف مقامی زبانوں کے الفاظ سے مل کر بننے والے نام ’’برکینافاسوؔ‘‘ کا مطلب ہے ’’خود دار اور ایمان دار لوگوں کی سرزمین۔‘‘ یہ نام02، اگست 1984کو رکھا گیا۔ برکینافاسو مغربی افریقہ کا خشکی سے گھرا ہوا ایک ملک ہے جس کا رقبہ دو لاکھ چوہتر ہزار دو صد کلو میٹرز ہے۔اس کا پرانا نام اپر وولٹا تھا۔ اپر وولٹا نے 05، اگست 1960 کو فرانس سے آزادی حاصل کی۔ برکینافاسو کا دارالحکومت واگادوگو Ouagadougou) (ہے۔ اس کی سرحدیں چھ ہمسایہ ممالک مالی، نائجر، بینن، ٹوگو گھانا اور آئیوری کوسٹ سے ملتی ہیں۔موجودہ آبادی بائیس ملین کے قریب ہے۔ سرکاری زبان فرنچ ہے جبکہ کئی مقامی زبانوں میں جُولا، مورے، فُل فُل دے اور بیسا بڑی زبانیں ہیں

برکینا فاسو میں احمدیت کا تعارف

برکینا فاسو میں جماعت احمدیہ کی رجسٹریشن02 جنوری 1986ء کو ہوئی اور اس کے بعد یہاں باقاعدہ مبلغین آنا شروع ہوئے۔ گھانا کے شمالی قصبہ وا WA کے ایک مخلص احمدی الحاج صالح صاحب جو 1932ء میں احمدی ہوئے تھے، کے ذریعہ اپر وولٹا کی سرزمین پر 1950ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں احمدیت کا پیغام پہنچا۔ اس پیغام پر لبیک کہنے والے ابتدائی مخلصین میں الحاج بارو مودی (Barro Mody) صاحب (1993-1898ء) شامل تھے۔ آپ کی بیعت 1951ء کی ہے۔ الحاج بارو صاحب کا تعلق برکینا فاسو کے مغربی ریجن ددگو کے گاؤں کوں ای (Kougny) سے تھا۔ اس گاؤں میں مسلمان موجود تھے اور مسجد بھی تھی۔ تاہم قبول احمدیت کے بعد مخالفت کی وجہ سے احمدیوں کو اپنی مسجد الگ کرنا پڑی۔ احمدی احباب نے ایک کچا چھپر نما کمرہ بنا کر اس میں نماز باجماعت شروع کر دی۔ برکینا فاسو میں اس مسجد کو جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد کہا جا سکتا ہے۔

برکینا فاسو میں بارو (Barro) قبیلہ معروف قبائل میں شمار ہوتا ہے جس کی اندرونی تین چار شاخیں بھی ہیں۔ اسی قبیلہ کے لوگ کوں ای (Kougny) سے دو کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع گاؤں (Moara Petit) موارا پیتی اور بیس کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع (Siena) سی اینا گاؤں میں آبا دتھے اور آپس میں تعلق داری بھی تھی۔ ان دونوں دیہات میں بھی جماعت کا پیغام اسی عرصے میں پہنچ گیا۔اس وقت کے احمدی احباب نے موارا پیتی میں ایک کچی مسجد تعمیر کی۔ مٹی کی اینٹوں کی موٹی دیواروں اور ان میں آٹھ چوڑے ستونوں کے علاوہ مسجد کے اندر درمیان میں بھی ایک چوڑا ستون بنا کر اسے مضبوط بنایا گیا تھا۔ ایک چوکور محراب بھی تھا جس پر باہر کی طرف سے سیڑھیاں لے جاکر چھت پر چڑھ کر اذان دینے کے لئے جگہ بنائی گئی تھی۔یہ مسجد اب استعمال نہیں ہوتی لیکن اس کا بنیادی ڈھانچہ ابھی بھی موجود ہے۔

بوبو جلاسو میں باقاعدہ مسجد کی تعمیر

برکینا فاسو کے جنوب مغرب میں واقع بوبو جلاسو ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ جسے برکینا فاسوکا اقتصادی دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں جماعت کا پیغا م ابتدائی ایام میں ہی پہنچ گیا تھا۔ اس شہر میں ایک مخلص احمدی زونو (Zono) سلیف اور ان کی فیملی نے جماعت کے نام ایک پلاٹ ہبہ کر دیا۔ اس جگہ ابتدائی طور پر ایک کمرے میں نماز باجماعت شروع ہوئی۔بعد ازاں 1998میں یہاں باقاعدہ مسجد کی تعمیر شروع ہوئی۔ اس مسجد کی تعمیر کے لئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے مقامی طو رپر فنڈ اکھٹا کرنے کی اجازت لی گئی۔ ایک ملین فرانک سیفا اس فنڈ میں جمع ہوا۔بوبو جلاسو کی مسجد 2002-2001 میں مکمل ہوئی۔

واگا دوگو میں مسجد کی تعمیر

واگا دوگو شہر میں جماعتی مرکزی مشن کرائے کے مکان میں تھا۔اسی مکان کا ایک حصہ نماز اور دیگر جماعتی سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتا تھا۔شہر کی ایک جماعت پی سی (Pisi) میں کچی آبادی کے علاقے میں حکومت سے ایک پلاٹ جماعت کوملا۔ اس پلاٹ پر مسجد کی تعمیر کا کام 1999 میں شروع ہوا اور اسی سال مکمل ہوگئی۔ یہ ایک چھوٹی کچی مسجد تھی۔ یہ مسجد بوبو جلاسو کی مسجد سے پہلے مکمل ہوگئی۔

2004ء میں سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے برکینا فاس کا دورہ فرمایا اور اس کے بعد جماعت کی ترقیات کا ایک نیا دور شروع ہوا۔آپ نے اپنے دورے کے بعد امیر جماعت برکینا فاسوکے نام ایک خط میں ارشاد فرمایا:
’’خدا کے فضل سےبرکینا فاسو کا دورہ بھی غیرمعمولی او رخوشکن تھا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔۔۔ جماعت کے تمام افراد مردوخواتین اور بچوں نےبڑے اخلاص اور فدائیت کا نمونہ دکھایا ہے۔۔۔مجھے پورا یقین ہےکہ برکینا فاسو کی سرزمین پر احمدیت کا جو بیج بویا گیا ہے وہ جلد دائمی پھل لائے گا۔برکینا کے لوگ حقیقتاً بڑے عظیم لوگ ہیں او رمجھے خوشی ہےکہ خدا نے ان کواحمدیت کے نورسے منور کیا ہے۔ میں نے جو بیداری جماعت برکینا فاسو کےافرادمیں دیکھی ہےوہ حیرت انگیز ہے۔ امید ہے اگلے دو تین سالوں میں اس دورہ کے عظیم الشان نتائج ظاہر ہوں گےاور جماعت تیزی سے ترقی کرے گی۔ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ۔‘‘

(T .9653/1.5.2004)

پچھلا پڑھیں

انڈونیشیا کی مسجد محمود سانڈینگ

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی