• 25 اپریل, 2024

فقہی کارنر

کھانے کے لئے کوئی خاص طریق اختیار کرنا خلافِ شرع نہیں

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ لدھیانہ میں پہلی دفعہ بیعت لے کر یعنی ابتداء 1889ء میں حضرت صاحب (مسیح موعودؑ) علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ میں اور میر عباس علی اور شیخ حامد علی ساتھ تھے۔ حضرت صاحب سید تفضّل حسین صاحب تحصیل دار کے مکان پر ٹھہرے جو ان دنوں دفتر ضلع میں سپر نٹندنٹ تھے۔ وہاں ایک تحصیل دار نے جو سید صاحب کا واقف تھا۔ حضرت صاحب کی دعوت کی اور شہر کے دوسرے معززین کو بھی مدعو کیا۔ حضور تشریف لے گئے اور ہم تینوں کو حسب عادت اپنے دائیں بائیں بٹھایا۔ تحصیلدار صاحب نے کھانے کے لئے چوکیوں یعنی چھوٹے چھوٹے تخت پوشوں کا انتظام کیا تھا جن پر کھانا رکھا گیا اور لوگ ان کے گرد بیٹھ گئے۔ چوکیوں پر کنچ کے گلاسوں میں گلدستے رکھے ہوئے تھے۔ جب کھانا شروع ہوا تو میر عباس علی نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا بلکہ خاموش بیٹھے رہے۔ حضرت صاحب نے ان سے دریافت کیا میر صاحب آپ کیوں نہیں کھاتے؟ انہوں نے کہا یہ نیچریوں کے طریق کا کھانا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا نہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ خلاف شرع نہیں ہے۔ میر صاحب نے کہا میرا تو دل نہیں چاہتا۔ حضرت صاحب نے فرمایا میر صاحب! ہم جو کھاتے ہیں۔ میر صاحب نے کہا حضرت! آپ کھائیں میں تو نہیں کھاتا۔ غرض میر عباس علی نے کھانا نہیں کھایا۔ میاں عبداللہ صاحب کہتے تھے کہ جب عباس علی مرتد ہوا تو مجھے یہ بات یاد آئی کہ وہ تو دراصل اسی وقت سے کٹ چکا تھا۔

(سیرت المہدی جلد1 صفحہ71-72)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

تلخیص صحیح بخاری سوالاً جواباً (كتاب الحیض) (قسط 16)

اگلا پڑھیں

مہدی آباد کے شہداء