نام ونسب
حضرت اسعدؓ بن زرارہ کی کنیت ابو امامہ تھی جس سے زیادہ مشہور تھے۔ والدہ کا نام سعاد الضریعہ تھا۔ حضرت سعدؓ بن معاذ رئیس انصار کے خالہ زادبھائی تھے ۔ان کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نجّار سے تھا جن سے ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکا ننھالی رشتہ بنتا ہے۔ آپؓ اسعد کے لقب سے مشہور تھے گویا آغاز سے ہی سعادت مند طبیعت پائی تھی۔ سچائی سے فطری لگاؤ تھا۔
روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپؓ طبعاً موحّد تھے ۔اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ نے عمارہ بن حزم اور عوف بن عفراء کے ساتھ بنو نجّار کے بتوں کے خلاف جہاد کی توفیق پائی۔
(ابن سعد جلد 3صفحہ 610-608)
قبول اسلام
اسعدؓ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی عجیب ہے اس زمانے میں مدینہ کے مختلف قبائل میں باہم آویزش تھی۔ جنگ کی تیار ی ہورہی تھی۔ اسعد اپنے ساتھی ذکوان کے ساتھ مکہ میں اپنے ایک سردار دوست عتبہ بن ربیعہ کے ہاں امداد کے طالب ہوکر گئے ،وہیں رسول اللہﷺ کے دعوے کی تفصیل کا علم ہوا۔
آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے،رسول اللہﷺ نے خود ان کو اسلام کا پیغام سمجھایا۔قرآن شریف کی تلاوت سنائی۔وہ طبعاً پہلے ہی توحید کی طرف راغب تھے۔رسول اللہﷺ کی مؤثر دعوت الیٰ اللہ سے اسلام ان کے دل میں گھر کر گیا۔ وہ اسلام قبول کرکے واپس مدینہ لوٹے۔ روایات میں ہے کہ مدینہ میں انہوں نے خاموشی سے اسلام کا پیغام پہنچانا شروع کیا اسی کے نتیجہ میں 6 افراد پر مشتمل ایک ابتدائی وفد نے حج کے موقع پر ان کے ساتھ پہلی دفعہ عقبہ مقام پر رسول اللہﷺ سے ملاقات کی۔حضرت اسعدؓ بیعت عقبہ ثانیہ میں بھی شامل تھے اور بنونجّار کے نقیب (سردار) کے طور پر ان کو خدمت کی سعادت ملی۔
مؤرخ ابن اسحاق نے عقبہ اولیٰ اور عقبہ ثانیہ کی دونوں بیعتوںمیں حضرت اسعدؓ کے شامل ہونے کا ذکر کیاہے۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 71)
گواس زمانہ میں ان کی عمر کم تھی لیکن سردارانہ فہم و فراست اللہ تعالیٰ نے بہت عطا کی تھی۔
بیعت کی حقیقت
بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر ان کی دانش اور سنجیدگی کا اظہار حضرت عبادہ ؓبن صامت کے بیان کے مطابق اس طرح ہوا کہ بیعت کے وقت حضرت اسعدبن زرارہؓ نے آنحضرتﷺ کا ہاتھ پکڑلیا اور کہا کہ ’’اے لوگو!جانتے ہو کہ کس بات پر تم نبی کریمؐ کی بیعت کر رہے ہو۔ اس کی حقیقت سمجھ کر بیعت کرنا، یہ بیعت اس بات پر ہے کہ تمہیں سارے عرب کے ساتھ جنگ مول لینی پڑے گی، تمام عجم کے ساتھ تمہاری لڑائی ہوگی اور تمام جنّ وا نس کے ساتھ برسر ِپیکار ہوجاؤ گے‘‘ انہوں نے بھی کیاخوب جواب دیا کہ ’’ہاں اس شعور کے ساتھ ہم بیعت کر رہے ہیں کہ جو آنحضرت ؐ سے جنگ کرے گا ہم اس سے جنگ کریں گے اور جو آپؐ سے صلح کرے گا ہم اس سے صلح کریں گے‘‘ پھر بھی حضرت اسعد بن زرارہ ؓنے رسول اللہﷺ کا ہاتھ نہیں چھوڑا بلکہ عرض کیا یارسول اللہ ﷺ !اس وقت بیعت کے موقع پر آپؐ جو شرط چاہیں عائد کردیں، میں اس شرط پرآپؐ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں، حضور ؐ نے فرمایا ’’ تم سب اس بات پر میری بیعت کررہے ہو کہ یہ گواہی دوگے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور تمہیں سننا اور اطاعت کرناہوگی اور باہم اختلاف پیدا نہیں کرنا اور تمہیں میری حفاظت کرنی ہوگی بالکل اسی طرح جس طرح اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہو۔‘‘ اس پر تما م لوگوں نے یہ عرض کیا کہ یارسول اللہؐ!ہم بلا شبہ اسی طرح آپؐ کی حفاظت کریں گے ۔ یہی حضرت اسعدؓ کا مقصد تھا کہ بیعت کی حقیقت سب پر کھل جائے، اس پر مجمع میں سے آواز آئی کہ ’’اگر یہ سب کچھ ہم نے کیا تو ہمیں کیا ملے گا؟‘‘ حضورﷺ نے فرمایا ’’جنت ملے گی اوراس دُنیا میں خداتعالیٰ کی تائید ونصرت سے بھی ہمکنا ر ہوگے۔‘‘دوسری روایت میں ہے کہ اسعدؓ نے (جو عمر میں سب انصار سے چھوٹے تھے) کہا ’’اے اہل یثرب !ہم محمد رسول اللہ ؐ کے پاس صرف اس لئے آئے ہیں کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اور ہمیں خوب علم ہے کہ آج آپؐ کی بیعت کا نتیجہ میں سارے عرب سے دشمنی مول لینا اور اپنے پیاروں کو قتل کروانا ہے۔ پس اگر تو رسول اللہﷺ کو قبول کر تے ہوتو اس کا اجر تم کو اللہ تعالیٰ دے گااور اگر اپنی جانوں کا خوف ہے تو ان کو چھوڑ دو۔‘‘ انہوں نے کہا ’’اے اسعدؓ ہم ان کی بیعت کبھی نہ چھوڑیں گے نہ اس میں خیانت کریں گےپھر سب نے باری باری بیعت کی۔‘‘
( ابن سعد جلد 3صفحہ 322)
مدینہ میں پہلا جمعہ
حضرت اسعدؓ کے فضائل کا ذکر احادیث میں ملتا ہے کہ وہ سبقت جو ان کے حصے میں آئی اس میں ایک نماز جمعہ کا آغاز ہے۔ چنانچہ سب سے پہلا جمعہ جو مدینے میں پڑھا گیا ،اس کا انتظام و انصرام کرنے والے حضرت اسعدبن زرارہؓ تھے ۔انہوں نے ہی نمازجمعہ کی بناء وہاں پر ڈالی تھی مدینہ میں ایک بڑی حویلی یا دالان دو یتیم بچوں سھل اور سھیل کی ملکیت تھا ۔ وہ دونوں حضرت اسعد بن زرارہؓ کی کفالت میں تھے۔ اس جگہ حضرت اسعد ؓ نے جمعہ کا انتظا م کیا جس میں چالیس کے قریب لوگ شامل ہوئے۔یہ بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد کا واقعہ ہے۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 71)
روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس موقع پر مسلمانوں کے پہلے اجتماع کی خوشی میں حضرت اسعد ؓنے ایک بکری بھی ذبح کروائی اور جمعہ میں شریک مسلمانوں کی دعوت کا انتظام کیا۔ حضرت اسعدبن زرارہؓ اس وقت تک نماز جمعہ پڑھاتے رہے۔ یہاں تک کہ اسلام کے پہلے مبلغ حضر ت مصعب بن عمیرؓ مدینہ تشریف لائے اس کے بعد امامت اور دیگر ذمہ داریاں انہوں نے سنبھال لیں پھر جب وہ اگلے سال بعض انصار کا وفد لیکر رسول اللہ ﷺسے ملاقات کے لئے مکہ گئے تو اس دوران بھی حضرت اسعدبن زرارہ ؓکومدینے میں جمعہ پڑھانے کی سعادت نصیب ہوتی رہی۔
(ابن سعد جلد 3صفحہ 609)
حضرت کعب ؓبن مالک شاعر دربار نبوی ؐ اور صحابی رسولؐ جب جمعہ کےلئے نکلتے تو اذان کی آواز سن کر مسنون دُعائیہ کلمات کے بعد استغفار پڑھتے اور خاص طور پرحضرت اسعد بن زرارہؓ کےلئے مغفرت کی دُعا کیا کرتے۔ کسی کہنے والے نے انہیں کہا کہ’’یہ کیا بات ہے جمعہ کی اذان کے وقت آپ خاص طور پر اسعد بن زرارہؓ کےلئے بخشش کی دُعاکرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا ’’اسعد وہ شخص تھا جس نے آنحضرؐت کی مدینے میں تشریف آوری سے پہلے مدینے میں جمعہ کا آغاز کیا تھا۔‘‘
(اصابہ فی جلد 1صفحہ 32)
خدمتِ رسولﷺ
پھرنبی کریمﷺ جب مدینے تشریف لے آئے تو انصار مدینہ نے بیعت عقبہ میں جو عہد کئے تھے اس کے مطابق اپنا سب کچھ حضوؐر کی خدمت میں پیش کردیا۔ رسول اللہ ﷺ کے قیام کیلئے ہر صحابی اپنا گھر پیش کررہاتھا ۔حضور ؐ نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو۔ اسے جہاں حکم ہوگا رک جائے گی اور انہی لوگوں کا میں مہمان ہوں گا۔ اونٹنی جہاں رکی وہاں سے قریب ترین گھر حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا تھا جہاں رسول اللہﷺ نے قیام فرمایا اور چھ ماہ تک وہاں فروکش رہے۔لیکن حضرت اسعدبن زرارہؓ نے یہ خیال کرکے رسول اللہﷺ کی خدمت کی ازلی سعادت تو اب حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے حصہ میں آگئی تو میں کسی اور ذریعہ سے حضور ؐ کی کوئی خدمت کرلوں۔ چنانچہ حضوؐر کی اونٹنی کی باگ انہوں نے پکڑ لی اور اسے اپنے گھر لے کر گئے اور اس کی خدمت کی توفیق انہیں کو ملتی رہی۔
(مسلم جلد 3صفحہ 1623)
آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق تھے۔مخیّرلوگوں میں ان کا شمار تھا۔ اپنے قبیلے کے رئیس اور سردار بھی تھے۔ اس زمانے میں جب آنحضرتﷺ ہجرت کرکے مدینہ آئے تو سب کچھ چھوڑ کے آگئے تھے مدینے میں نئی جگہ آباد کاری کی کئی ضروریات سامنے تھیں۔ حضرت اسعد بن زرارہ ؓنے اسی موقع پر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حسب ضرورت وہ تحفہ پیش کیا ہوگا جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے گھر میں بہت عمدہ خوبصورت قسم کا پلنگ تھا جس کے پائے ہاتھی دانت کے بنے ہوئے تھے اورجو حضرت اسعدؓ بن زرارہ نے بطور تحفہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔
(زادالمعاد جلد 1صفحہ 132)
رسول کریمﷺ کی مدینہ تشریف آوری پر جب مسلمانوں کےلئے مسجد کے قیام کی ضرورت پیدا ہوئی تو وہی احاطہ جو سھل اور سھیل کا تھا وہاں مسجد نبوی تعمیر کرنے کی تجویز ہوئی حضرت اسعدؓ نے یہ مخلصانہ پیشکش کی کہ ان دونوں بچوں کو میں راضی کرلوں گا یہ زمین مسجد کےلئے قبول کر لی جائے اور اس کے عوض انہوں نے بنی بیاضہ والااپنا باغ پیش کردیا (زرقانی جلد اول صفحہ264) آنحضر تﷺنے رقم دئیے بغیر وہ قطعہ زمین قبول کرنے پر رضا مندی نہیں فرمائی۔
بیماری میں حضورﷺ کی شفقت
حضرت اسعدؓ بن زرارہ غزوہ بدر سے پہلے ہی بیمار ہو کر وفات پاگئے۔ ان کو ایسی بیماری لاحق ہوگئی جس سے چہرہ اور جسم سرخ ہوجاتاہے۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق اس بیماری کا علاج داغنے سے کیا جاتا تھا آنحضرتﷺ کی مدینے ہجرت کے بعد حضرت اسعدؓ وفات پانے والے پہلے فرد ہیں۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں مسلمانوں کےلئے نیا ماحول تھا یہود کی دشمنی الگ تھی، آنحضرتﷺ کو فکر لاحق تھی کہ اس عاشق صادق اور وفا شعار صحابی کی بیماری یا موت دشمن کی خوشی کا موجب نہ ہو۔حضورﷺ اسعدؓ کی عیادت کےلئے ان کے گھر تشریف لے گئے۔ ان کی بیماری کا حال دیکھ کر آپ نے پہلے ہی تقدیرالہٰی کا مسئلہ کھول کر بیان کردیا اور فرمایا کہ‘‘ حضرت اسعدؓ اس بیماری سے جانبر نہیں ہوسکیں گے اور یہود طعنہ زنی کریں گے کہ دیکھو!یہ کیسا نبی ہے اپنے وفا شعار ساتھی کو بھی بچا نہیں سکا۔’’آپ ؐنے فرمایا کہ‘‘ سچ تو یہ ہے کہ نہ تو میں اپنے بارے میں بھی کوئی قدرت اور اختیار رکھتا ہوں نہ کسی دوسرے کیلئے مجھے کوئی طاقت حاصل ہے اس لئے کوئی مجھے ابوامامہؓ ( اسعدؓ بن زرارہ) کے بارہ میں ملامت نہ کرے’’ تقدیر مبرم معلوم ہوجانے پر بھی نبی کریمﷺ نے علاج اور تدبیر نہیں چھوڑی۔ آنحضرتﷺ کے مشورہ سے بالآخرداغنے کا علاج کیا گیا مگر تقدیر الہٰی غالب آئی اور حضرت اسعدؓ بن زرارہ اسی بیماری سے فوت ہوگئے۔
( اسد الغابہ جلد 1صفحہ 71،ابن سعد جلد3ص 611)
اس موقع پر بھی آنحضرتﷺ نے کمال محبت اور تعلق کا اظہار فرمایا۔ ان کی وفات کے بعد رسول اللہﷺ خود ان کے غسل دینے میں شریک ہوئے۔ انہیں تین چادروں کا کفن پہنایااورخود نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت اسعد ؓوہ پہلے خوش قسمت صحابی تھے جو جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ نبی کریمﷺ ان کے جنازہ کے ساتھ آگے آگے چلتے ہوئے جنت البقیع تک گئے اور یوں ایک اعزاز کے ساتھ اپنے وفا شعار ساتھی کی تدفین فرمائی۔
( ابن سعد جلد 3صفحہ 612)
حضرت اسعدؓ کی وفات جنگ بدر سے پہلے اورہجرت نبویؐ کے چھ ماہ بعد شوال کے مہینے میں ہوئی ۔جبکہ مسجد نبوی کی تعمیر جاری تھی۔
آنحضرتﷺسے حضرت اسعدؓ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جو تین بیٹیاں کبشہ، حبیبہ اور فارعہ چھوڑیں ان کی وصیت اپنے آقا آنحضرت ؐ کے حق میں کی کہ رسول اللہﷺ ہی میری بچیوں کے نگران و محافظ ہوں گے اور ان کے حق میں جو مناسب فیصلہ ہووہی فرمائیں گے۔ آنحضرتﷺ نے بھی یہ حق خوب ادا کیا حضرت اسعدؓ کی بچیوں کواپنے گھر میں لے آئے۔ وہ آپؐ کے کنبہ کی طرح آپ ؐ ہی کے گھر میں رہتی تھیں۔ آپ ؐ کے گھر میں ہی پلی بڑھیں اور رسول اللہﷺ ؐ نے ان کا بہت خیال رکھا ۔بعد کے زمانے میں جب مختلف جنگوں میں مال غنیمت آیا جس میں سونا اور کچھ موتی تھے۔ آنحضرتﷺ نے ان بچیوں کو بھی اس میں سے تحفہ عطا فرمایا۔
( ابن سعد جلد 3صفحہ 611،استیعاب جلد1ص 175)
حضرت اسعد ؓ کی وفات کے بعد آنحضرتﷺ کی خدمت میں ان کے قبیلہ کے لوگ حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہﷺ ہمارا سردار فوت ہوگیا ہے ان کا کوئی اور قائمقام سردار ہمارے قبیلہ میں سے مقرر فرمادیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا بنو نجّار! اَنْتُمْ اِخْوَانِیْ وَ أَناَ نَقِیْبُکُمْ تم میرے بھائی ہو اور میں تمہارا نقیب ہوں۔ اسعد ؓبن زرارہ کے بعداب تم میری کفالت میں ہو۔ میں خود تمہارا خیال رکھوں گا اور تمہاری نگرانی کے حق ادا کروں گا۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 72)
کتنے سعادت مند تھے اسعدؓ! بلا شبہ وہ اسم بامسمّٰی تھے جنہیں اپنے آقا و مولا کی اتنی شفقتیں عطا ہوئیں۔
ایں سعادت بزور بازونیست
(حافظ مظفر احمد)