• 29 اپریل, 2024

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ 17۔اپریل 2020ء کا خلاصہ بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یو کے

خلاصہ خطبہ جمعہ

بدری صحابی حضرت معاذ بن حارثؓ کی سیرت و سوانح کادلکش تذکرہ۔غزوۂ بدر میں آپؓ کی بہادری اور شجاعت کا دلفریب واقعہ

غزوۂ بدر میں عفراء کے دونوں بیٹوں معاذؓ اور معوذؓ نے ابوجہل پر اس زور سے حملہ کیاکہ اُس کو موت کے قریب پہنچا دیا ۔ بعد ازاں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جُدا کیا

جماعت کےایک انتہائی مخلص کارکن اور خادم سلسلہ مکرم رانا نعیم الدین کی وفات پر مرحوم کا ذکر خیر، جماعتی خدمات اور خلافت سے محبت کا تذکرہ

کرونا سے بیمار ہونے والے احمدی احباب کیلئے دعا کا اعلان۔ عبادت، حقوق العباد اوراس بیماری سے محفوظ رہنے کیلئے دعاکرنے کی تحریک

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے خطبہ جمعہ 17۔اپریل 2020ءکا خلاصہ بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح ا لخامس ایدہ ا للہ تعالیٰ نےمورخہ17۔اپریل 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اے انٹرنیشنل پر براہ راست نشر کیا گیا۔ حضور انور نے فرمایا: آج بدری صحابہؓ میں سے حضرت معاذ بن حارثؓ کا میں ذکر کروں گا۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بنو مالک بن نجار سے تھا۔ حضرت معاذؓ کے والد کا نام حارث بن رفاعہ اور والدہ کا نام عفراء بنت عبید تھا۔حضرت معوّذ اور حضرت عوف ؓ ان کے بھائی تھے۔ یہ تینوں بھائی اپنے والد کے علاوہ اپنی والدہ کی طرف بھی منسوب ہوتے تھے اور ان تینوں کو بنو عفراء بھی کہا جاتا تھا۔ حضرت معاذؓ اور ان کے دو بھائی حضرت عوفؓ اور حضرت معوذؓ غزوہ بدر میں شامل ہوئے۔

حضرت عوفؓ اور حضرت معوذؓ دونوں غزوہ بدر میں شہید ہو گئے مگر حضرت معاذؓ بعد کے تمام غزوات میں بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریک رہے۔ حضرت معاذؓ ان آٹھ انصار میں شامل ہیں جو آنحضرت ﷺ پر بیعت عقبہ اُولیٰ کے موقع پر مکہ میں ایمان لائے۔ حضرت معمر بن حارث ؓکے ساتھ نبی کریم ﷺ نے ان کی مؤاخات قائم فرمائی۔

حضور انور نے بخاری کی روایات سے ابوجہل کے قتل کے واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا :حضرت انس ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے جنگ بدر کے دن فرمایا : کون دیکھے گا کہ ابوجہل کا کیا حال ہوا ہے؟ حضرت ابن مسعودؓ گئے اور جا کر دیکھا کہ اس کو عفراء کے دونوں بیٹوں حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ نے تلواروں سے اتنا مارا ہے کہ وہ مرنے کے قریب ہو گیا ہے ۔حضرت ابن مسعودؓ نے ابوجہل کی داڑھی پکڑی اورپوچھا کیا تم ابو جہل ہو۔ ابوجہل کہنے لگا کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی شخص ہے جس کو تم نے مارا ہے یا یہ کہا کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ہے جس کو اُس کی قوم نے مارا ہو۔بعض روایات میں ہے کہ عفراء کے دو بیٹوں معوذ ؓاور معاذؓ نے ابوجہل کو موت کے قریب پہنچا دیا تھا۔ بعد ازاں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جُدا کیا ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ نے غزوہ بدر کے حالات میں ابوجہل کے قتل کا واقعہ اس طرح لکھا ہے کہ میدانِ کارزار میں کشت وخون کامیدان گرم تھا۔ مسلمانوں کے سامنے اُن سے تین گنا جماعت تھی جو ہرقسم کے سامانِ حرب سے آراستہ ہوکر اس عزم کے ساتھ میدان میں نکلی تھی کہ اسلام کا نام ونشان مٹا دیا جاوے اور مسلمان بیچارے تعداد اور سامان میں تھوڑے تھے۔ وہ اس وقت میدانِ جنگ میں خدمت دین کا وہ نمونہ دکھا رہے تھے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہراک شخص دوسرے سے بڑھ کر قدم مارتا تھا اورخدا کی راہ میں جان دینے کے لئے بے قرار نظر آتا تھا۔ حمزہؓ اور علیؓ اورزبیرؓ نے دُشمن کی صفوں کی صفیں کاٹ کر رکھ دی تھیں۔ انصار کے جوشِ اخلاص کا یہ عالم تھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف ؓروایت کرتے ہیں کہ جب عام جنگ شروع ہوئی تو میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی مگر کیا دیکھتا ہوں کہ انصار کے دو نوجوان لڑکے میرے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں۔ انہیں دیکھ کر میرا دل کچھ بیٹھ سا گیا کیونکہ ایسی جنگوں میں دائیں بائیں کے ساتھیوں پر لڑائی کابہت انحصار ہوتا تھا اوروہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو محفوظ ہوں مگر عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں اس خیال میں ہی تھا کہ ان لڑکوں میں سے ایک نے مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ گویا وہ دوسرے سے اپنی یہ بات مخفی رکھنا چاہتا ہے یہ چاہتا ہے کہ دوسرے کو پتا نہ لگے جو دوسری طرف کھڑا ہے کہ چچا وہ ابو جہل کہاں ہے جومکہ میں آنحضرت ﷺ کو دُکھ دیا کرتا تھا میں نے خدا سے عہد کیا ہوا ہے کہ مَیں اُسے قتل کروں گا یاقتل کرنے کی کوشش میں مارا جاؤں گا۔ عبدالرحمن بن عوفؓ کہتے ہیں کہ میں نے ابھی جواب نہیں دیا تھا کہ دوسری طرف سے دوسرے نے بھی اسی طرح آہستہ سے یہی سوال کیا۔ میں ان کی یہ جرأت دیکھ کر حیران سا رہ گیا کیونکہ ابوجہل گویا سردارِلشکر تھا اور اس کے چاروں طرف آزمودہ کار سپاہی جمع تھے۔ میں نے ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا کہ وہ ابوجہل ہے۔ عبدالرحمنٰؓ کہتے ہیں کہ میرا یہ اشارہ کرنا تھا کہ وہ دونوں بچے باز کی طرح جھپٹے اور دُشمن کی صفیں کاٹتے ہوئے ایک آن کی آن میں وہاں پہنچ گئے اوراس تیزی سے وار کیا کہ ابوجہل اوراس کے ساتھی دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے اور ابوجہل خاک پر تھا۔ عکرمہ بن ابوجہل بھی اپنے باپ کے ساتھ تھا وہ اپنے باپ کو تو نہ بچا سکا مگر اس نے پیچھے سے معاذؓ پر ایسا وار کیا کہ اس کا بایاں بازو کٹ کرلٹکنے لگا۔ معاذؓ نے عکرمہ کا پیچھا کیا مگر وہ بچ کرنکل گیا چونکہ کٹا ہوا بازو لڑنے میں مزاہم ہوتا تھا۔ معاذؓ نے اُسے زور سے کھینچ کراپنے جسم سے الگ کردیا اورپھر لڑنے لگ گئے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ابوجہل جس کی پیدائش پر بڑی خوشی منائی جا رہی تھی کہ مکہ کی فضا بھی گونج اُٹھی تھی۔ بدر کی لڑائی میں جب مارا جاتا ہے تو پندرہ پندرہ سال کے دو انصاری چھوکرے تھے جنہوں نے اُسے زخمی کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کے بعد لوگ واپس جا رہے تھے تو مَیں میدان میں زخمیوں کو دیکھنے کے لئے چلا گیا۔ مَیں میدان جنگ میں پھر ہی رہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ابوجہل زخمی پڑا کراہ رہا ہے۔ جب مَیں اُس کے پاس پہنچا تو اُس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مَیں اب بچتا نظر نہیں آتا تکلیف زیادہ بڑھ گئی ہے تم بھی مکہ والے ہو، مَیں یہ خواہش کرتا ہوں کہ تم مجھے مار دو تا میری تکلیف دُور ہو جائے لیکن تم جانتے ہو کہ مَیں عرب کا سردار ہوں اور عرب میں یہ رواج ہے کہ سرداروں کی گردنیں لمبی کر کے کاٹی جاتی ہیں اور یہ مقتول کی سرداری کی علامت ہوتی ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ تم میری گردن لمبی کر کے کاٹنا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے اُس کی گردن تھوڑی سے کاٹ دی اور کہا تھوڑی کے قریب سے کاٹی اور کہا تیری یہ آخری حسرت بھی پوری نہیں کی جائے گی۔ اب انجام کے لحاظ سے دیکھو تو ابوجہل کی موت کتنی ذلت کی موت تھی جس کی گردن اپنی زندگی میں ہمیشہ اُونچی رہا کرتی تھی وفات کے وقت اُس کی گردن تھوڑی سے کاٹی گئی اور اُس کی یہ آخری حسرت بھی پوری نہ ہوئی۔

حضور انور نے فرمایا: حضرت معاذ بن حارثؓ نے چار شادیاں کی تھیں جن کی تفصیل یہ ہے۔ حبیبہ بنت قیس ان سے ایک بیٹا عبیداللہ پیدا ہوا۔ دوسری شادی ام ّحارث بنت سبرة سے تھی ان سے حارث ، عوف، سلمی، ام عبداللہ اور رملہ پیدا ہوئے۔ امّ عبداللہ بنت نمیر تیسری بیوی تھیں ان سے ابراہیم اور عائشہ پیدا ہوئے۔ ام ثابت رملہ بنت حارث چوتی تھیں ان سے سارہ پیدا ہوئیں۔علامہ ابن اسیر نے اپنی تصنیف اسد الغابہ میں حضرت معاذؓ کی وفات کے متعلق مختلف اقوال درج کئے ہیں۔ ایک قول کے مطابق حضرت معاذ ؓ غزوہ بدر میں زخمی ہوئے اور مدینہ واپس آنے کے بعد ان زخموں کی وجہ سے اُن کی وفات ہوئی۔ ایک قول کے مطابق وہ حضرت عثمانؓ کے دَور خلافت تک زندہ رہے۔ ایک قول کے مطابق وہ حضرت علیؓ کے دَور خلافت تک زندہ رہے۔ اُن کی وفات حضرت علیؓ اور امیر معاویہ کے درمیان جنگ صفین کے دوران ہوئی۔ جنگ صفین 36اور37 ہجری میں ہوئی تھی اور حضرت معاذؓ نے حضرت علیؓ کی طرف سے جنگ میں شرکت کی تھی۔ تو بہرحال ان کی وفات کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔بعض جو باتیں ہیں ان سے یہی پتا لگتا ہے کہ اُنہوں نے لمبی زندگی پائی تھی ۔

حضور انور نے آخر پر مکرم رانا نعیم الدین ابن مکرم فیروز دین منشی کی 19۔ اپریل 2020ء کو وفات پا جانے پر مرحوم کا ذکر خیر اور جماعتی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد محترم فیروز دین کے ذریعہ سے ہوا تھا جنہوں نے 1906ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بذریعہ خط بیعت کی تھی اور پھر تقسیم ملک کے بعد جب ہندوستان اور پاکستان کی پارٹیشن ہوئی ہے، یہ پہلے لاہور میں رہے پھر 1948ء میں رانا صاحب ربوہ آ گئے۔ پھر انہوں نے اپنے آپ کو فرقان بٹالین کے لئے پیش کیا اور فرقان بٹالین کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے رانا صاحب کو میر پور خاص کے قریب زمینوں پر بھجوا دیا۔ یہاں یہ چند سال رہے۔ نظام وصیت میں بہت پرانے شامل ہیں 1951ء سے ان کی وصیت ہے۔ ان کی اہلیہ کا نام سارہ پروین تھا جو حضرت دولت خان ؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی تھیں۔ دفتر کے ریکارڈ کے مطابق عملہ حفاظت خاص میں رانا نعیم الدین صاحب کا 3۔اگست 1954ء کو ریزرو آن ڈیوٹی کے طور پر تقرر ہوا اور اس کے بعد نومبر 1955ء سے 11 مئی 1959ء تک عملہ حفاظت خاص میں بطور گارڈ رہے۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ تفسیر کے کام کے سلسلہ میں نخلہ جابہ جایا کرتے تھے اور کئی کئی مہینے وہاں قیام فرمایا کرتے تھے تو مرحوم کی بھی اُس وقت وہاں حفاظت اور جنریٹر کی دیکھ بھال پر ڈیوٹی تھی ۔ یہ چھوٹی سی جگہ آباد کی گئی تھی اس کی آبادی کی حفاظت کی ذمہ داری بھی تھی۔ 1978ء میں عملہ حفاظت سے فارغ ہوئے اور پھرہڑپہ ضلع ساہیوال چلے گئے اور بعد ازاں ساہیوال مسجد میں بطور خادم مسجد خدمت کرتے رہے۔ اس دوران اکتوبر 1984ء میں احمدیہ بیت الذکر ساہیوال پر مخالفین نے حملہ کیا جس میں یہ حفاظتی ڈیوٹی پر مامور تھے، وہاں جب حملہ ہوا اور انہوں نے اس کا جواب دیا تو رانا نعیم الدین کے ساتھ کل گیارہ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور اس طرح رانا صاحب کو 26اکتوبر 1984ء سے مارچ 1994ء تک اسیر راہ مولیٰ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ سپیشل ملٹری کورٹ نے الیاس منیر مربی سلسلہ اور رانا نعیم الدین کو سزائے موت کی سزا سنا دی تھی ۔ بہرحال اس فیصلہ کے خلاف اپیل پر لاہور ہائی کورٹ نے مارچ 1994ء میں رہائی کا حکم دیا اور کاغذات کی تکمیل پر 19مارچ 1994ء کو ان کی رہائی عمل میں آئی اور اس طرح یہ ہمارے اسیر جو تھے ساڑھے نو سال ان کو راہ مولیٰ میں اسیری برداشت کرنے اور اسیر رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ رانا نعیم الدین اس مقدمے سے رہائی کے بعد 1994ء میں لندن شفٹ ہو گئے اور یہاں بھی اپنی عمر کے لحا ظ سے بہت بڑھ کے عملہ حفاظت میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے۔ 2010ء میں ان کی بڑی بیٹی کی وفات ہوئی پھر چند دن بعد ان کی اہلیہ کی وفات ہو گئی۔ مرحوم نے پسماندگان میں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔ان کے بیٹے رانا وسیم احمد وقف زندگی ہیں پرائیویٹ سیکرٹری یو۔کے کے دفتر میں کام کر رہے ہیں اور چاروں بیٹیاں بھی لندن میں مقیم ہیں۔ ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ ہمیں ہمیشہ یہی سبق دیا کہ خلافت سے چمٹے رہنا اور سب کچھ خلافت سے وابستہ ہے۔ خلافت کے شیدائی تھے ۔کہتے تھے مَیں ڈیوٹی پر جاتا ہوں، خلیفہ وقت کو دیکھتا ہوں تو جوان ہو جاتا ہوں۔ وقت کے بہت پابند تھے ہمیشہ ڈیوٹی کے لئے دو تین گھنٹے پہلے تیار رہتے تھے۔ یہی کہا کرتے تھے میری صحت چلنے پھرنے کا راز یہی ہے کہ مَیں ڈیوٹی پرآ جاؤں اور خلیفہ وقت کے ساتھ رہوں اور ان کی صحبت میں رہوں۔ آپ نے ہمیشہ صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا اور جیل میں جب مارا جاتا ہے بڑے ظالمانہ طریقے سے پاکستانی جیلوں میں مارا جاتا ہے تو بہرحال سب کچھ انہوں نے برداشت کیا اور باہر آ کے بھی صبر کا معیار ان کا بہت بلند تھا کبھی طبیعت خراب ہوتی تو کسی کو نہیں بتاتے تھے بلکہ اکثر یہی کہتے تھے کہ الحمد للہ میں ٹھیک ہوں۔

پھر ان کی خوبیوں میں لکھتے ہیں نہایت شفیق باپ تھے اور سچے دوست تھے۔ رانا وسیم نے جب وقف کیا ہے تو کہتے ہیں جب میرا وقف قبول ہوا تو مجھے ایک دن کہنے لگے کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے ہمیشہ توبہ استغفار کرتے ہوئے اپنے وقف کو نبھانا کبھی کوئی دکھ بھی دے تو چپ کر جانا نہ کہ بحث کرنا اور تمام بات اللہ پر چھوڑ دینا اور صبر کرنا اور صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑنا۔ چندے کی بےانتہا پابندی کرتے تھے ۔ ہمیشہ خاموشی سے بہت سے لوگوں کی مالی مدد کرتے تھے۔ ان کی بیٹیاں بیان کرتی ہیں کہ خلافت سے تو ابا جان کا تعلق ایسا تھا کہ رشک آتا تھا۔ خلافت سے محبت تو ان کی رَگ رگ میں تھی۔ ہمیشہ جب بھی خلیفہ وقت کا ذکر ہوتا تو آنکھیں نم ہو جاتیں۔ ہمیں ساری عمر یہی نصیحت کی کہ زندگی میں فائدہ لینا ہے تو خلافت سے ایسے چمٹ جاؤ جیسے لوہا مقناطیس سے چمٹتا ہے۔ ان کی بہو بیان کرتی ہیں کہ میرا بہت خیال کرتے تھے ہمیشہ باپ بن کے مجھے نصیحت کرتے تھے ۔جب بھی رات کے کسی پہر میں میری آنکھ کھلتی تو مَیں نے ہمیشہ ان کو نماز پڑھتے دیکھا۔ خلافت سے بے انتہا عشق تھا ہر ایک لکھنے والے نے تقریباً یہی لکھا ہے خلافت سے وفا کا تعلق بہت تھا اور کہا کرتے تھے کہ خلافت کی دُعاؤں کی بدولت ہی جیل میں رہا ہوں اور خلافت کی دُعاؤں سے ہی یہاں ہوں ۔ان کی بیٹی عابدہ کہتی ہیں کہ ہمارے بچوں کو ایک نصیحت ہمیشہ کرتے تھے کہ خدا سے اور خلافت سے ہمیشہ پختہ تعلق رکھو اور کہتے تھے اسی میں تمہاری بقاء ہے، ہمیشہ قرآن مجید پڑھنے کی تلقین کرتے رہتے نمازاور تہجد کے پابند تھے۔ بہت زیادہ مہمان نواز تھے، غریب رشتہ داروں کا خیال رکھتے تھے۔ کہتی ہیں کہ امّی جان کی وفات کے بعد ہم سب بہنوں کا بہت زیادہ خیال رکھا اور اپنی بہو کے ساتھ بھی بیٹیوں سے بڑھ کے سلوک کیا ۔ایک بیٹی لکھتی ہیں کہ واقعی انہوں نے آزمائش کے وہ دن جو جیل میں گزارے اس کی رضا پر،دین کی محبت اور خلافت کی محبت میں گزارے۔ کبھی اُن کے منہ سے شکوہ تو دُور اُف تک نہیں سنا ۔ ان کے بھانجے رانا شبیر کہتے ہیں کہ کئی دفعہ ملاقات کے لئے جیل جاتے تو ہمیں پریشانی ہوتی تھی اور وہ اکثر ہمیں صبر اور دُعا کی تلقین کرتے تھے، بڑے اعلیٰ پائے کے بزرگ تھے اور بڑے صبر کرنے والے انسان تھے۔ بڑے دلیر بہادر اور کلمے کی حفاظت کرنے والے خلافت سے عشق کرنے والے نڈر احمدی مسلمان تھے۔

الیاس منیر صاحب جو جیل میں رانا صاحب کے ساتھی تھے وہ لکھتے ہیں کہ اسیری کے دوران ایک دن بھی میں نے اُنہیں حوصلہ ہارتے ہوئے نہیں دیکھا حتیٰ کہ جب فوجی ڈکٹیٹر کی طرف سے آپ کو سزائے موت کا ظالمانہ اور بہیمانہ حکم سنایا گیا تو بھی اُسے خندہ پیشانی سے سنا اور قبول کیا۔

حضور انور نے فرمایا: مَیں نے ان کے چہرے پر ہمیشہ بڑی طمانیت دیکھی اور خلافت کے لئے محبت دیکھی۔ اللہ تعالیٰ ان سے اگلے جہان میں بھی پیار اور محبت کا سلوک فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے۔فرمایا: میں انہیں بچپن سے جانتا ہوں جب جابہ نخلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے ساتھ ہوتے تھے اس وقت جایا کرتے تھے ہم بھی کچھ دنوں کے لئے وہاں جایا کرتے تھے گرمیوں میں۔ ہم سے اس وقت بھی ان کا بڑی شفقت کا سلوک ہوتا تھا اور خلافت کے بعد تو اس کا رنگ ہی اور تھا میرے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ہمیشہ وفا کے ساتھ اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حالات کی وجہ سے ان کا جنازہ تو نہیں پڑھا جا سکا ،میں نہیں پڑھ سکا حکومتی پابندیاں بھی تھیں ۔ اس کا افسوس بھی ہے انشاء اللہ کسی وقت ان کا جنازہ غائب بھی پڑھا دوں گا۔

حضور انور نے فرمایا: آج کل کے مرض کی وجہ سے بعض جو احمدی مریض ہیں ، اُن کے لئے بھی دُعا کریں اللہ تعالیٰ سب کو شفائے کاملہ عطا فرمائے اور ہمیں بھی اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ صحیح رنگ میں ہمیں عبادت کا اور حقوق العباد کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جلد یہ بلا ہم سے دُور فرمائے۔ دُنیا کو بھی سمجھ اور عقل دے وہ بھی ایک خدا کو پہچاننے والے بنیں ۔

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 19۔اپریل 2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ ۔اپریل 2020ء