پیدائش اورخاندانی حالات
حضرت حافظ مختارؓ شاہجہاں پور،اترپردیش،انڈیا کے ایک ممتاز سادات گھرانے میں 1853ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا محترم سیدضیاء الدین احمد میاں ایک جید عالم اور سجادہ نشین بزرگ تھے۔ اسی طرح آپ کے والد محترم حضرت حافظ سید علی میاں بھی نادر الوجود ہستی تھے جن کے قلم سے بیسیوں علمی تصانیف وجود میں آئیں۔ عربی، فارسی اور اردو نظم و نثر پر یکساں مقدرت رکھتے تھے۔
حضرت حافظ مختار شاہجہانپوریؓ اپنے زمانہ کی ایک نابغۂ روزگار ہستی تھے۔ آپ کا ادبی و شعری مرتبہ بہت بلند اور قابل رشک تھا۔ فن تنقید میں آپ کے ثانی برصغیر پاک وہند میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ آپ قابل رشک حافظ ،صائب الرائے اور زبردست قوت فیصلہ کے مالک تھے۔ آپ نے 1892ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت پائی۔ اوائل عمری میں ہی گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی لیکن اپنی دینی مہمات کے سلسلہ میں آپ بر صغیر پاک و ہند کے اکثر شہروں کا سفر کرتے رہتے تھے۔ آپ کو دعوت الیٰ اللہ کا بہت شوق تھا۔
دعوت الیٰ اللہ کا جنون
جب قدرت ثانیہ کے چوتھے مظہر حضرت مرزا طاہر احمؒد صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ تھے، اس وقت آپؒ نے حافظ صاحب کے بارہ میں فرمایا:
’’حضرت حافظ سید مختار احمد شاہجہانپوری کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو آپ کا شوق دعوت الی اللہ تھا۔یہ دعوت آپ کا اوڑھنا، بچھونا اور کھانا پینا ہو چکی تھی اور واقعتاً نہ کہ محاورۃ آپ دعوت الی اللہ سے قوت پاتے تھے۔ایک مرتبہ مجھے حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تو حافظ صاحب ایک دوست سے پہلے روز کے ایک واقعہ کے متعلق استفسار فرما رہے تھے چنانچہ میرے حاضر ہونے پر مجھے بھی اس گفتگو میں شامل فرما لیا۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک روز پہلے یہی دوست جن سے حضرت صاحب کی گفتگو ہوئی ایک ہمارے ضلع جھنگ کے بڑے زمیندار کو حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں ملاقات کے لیے لائے تھے۔ جب پہنچے تو حضرت حافظ صاحبؓ انتہائی ضعف کے نتیجہ میں لب ہلانے میں بھی دقت محسوس کر تے تھے جب معلوم ہوا کہ ان کو لانے کا مقصد دعوت الیٰ اللہ ہے تو رفتہ رفتہ کوشش کر کے بعض مسائل پر کچھ کہنا شروع کیا۔جوں جوں وقت گزرتا گیا حضرت حافظ صاحب کی توانائی بڑھتی گئی یہاں تک کہ خدا کے فضل سے اٹھ کربیٹھ گئے اور مختلف کتابیں نکلوا کر اصل حوالہ جات بھی دکھانا شروع کر دئیے۔اور تقریباََ ڈیڑھ دو گھنٹہ تک ان سے ہر مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ۔گفتگو کے بعد وہ دوست باہر تشریف لے جارہے تھے تو دروازے میں اونچی آواز میں کہا (بلا بدّھی ہوئی اے) جسے حافظ صاحب نے بھی سن لیا چنانچہ میرے پہنچنے پر حافظ صاحب اسی بارے میں استفسار فرما رہے تھے کہ اس نے مجھے ’’بلا‘‘ کیوں کہا؟ میں نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی تھی۔ نیز فرمایا کہ ’’بدّھی‘‘ کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ چنانچہ اس پر خاکسار (حضرت مرزا طاہر احمدؒ) نے عرض کیا کہ اس سے بہتر الفاظ میں پنجابی زبان میں وہ آپ کو خراج تحسین پیش نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے صرف ’’بلا‘‘ کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ’’بلا بدھی‘‘ کہہ کر بلاغت کی انتہا کر دی کہ یہ کوئی انسان نہیں بلکہ بلا بندھی ہوئی ہے جس کے ساتھ مقابلہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
(حیاتِ حضرتِ مختار از ابو العارف سلیم شاہجہانپوری صفحہ 139 تا 140)
رئیس شاہجہانپور کا قبول احمدیت
حافظ عبد الجمیل تلمیذ خاص حضرت حافظ سید مختار احمد ؓبیان کرتے ہیں کہ
’’حافظ سید مختار احمد میرے استاد تھے اور میں نے ان کے پاس تقریباً بائیس سال تربیت حاصل کی ۔وہ میرے بڑے شفیق استاد تھے۔ میرا زیادہ تر وقت انہیں کے پاس گزرا ہے۔ میں نے دیکھا کہ انہیں تبلیغ کے سوا کسی دوسرے کام سے دلچسپی نہ تھی۔صبح سے شام تک جو شخص بھی طالب حق بن کر ان کے پاس آتا۔اس کے ساتھ مصروف گفتگو ہو جاتے اور جو اعتراض وہ کرتا اس کا جواب تسلی بخش دیتے اور جب تک کوئی جواب باقی رہتا طالب حق کو جانے نہ دیتے۔ان کی کوشش سے شاہ جہاں پورمیں بہت سے لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ایک واقعہ یہاں بیان کرتا ہوں:
شاہ جہان پور میں ایک بہت معزز اور رئیس کو جب سلسلہ کی خبر پہنچی تو انہوں نے بغرض استفسار حافظ صاحب سے ملاقات کی اورسلسلہ کے حالات معلوم کرنا چاہے۔یہ ملاقات مختصر تھی اس کے بعد خاں صاحب نے فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے مولوی صاحبان کے ساتھ مباحثہ کر لیں اور ایک تاریخ مقرر کرلیں۔ حافظ صاحب نے بخوشی منظور کر لیا۔اس زمانہ میں غالباًمولوی غلام احمد بدوملہی بھی جو مربی سلسلہ تھے۔پیشتر سے شاہ جہاں پور میں موجود تھے اور دوسرے حضرت حافظ صاحب۔غیر احمدی حضرات کی طرف سے شاہ جہاں پور کے جید علماء کے علاوہ مولانا بدرعالم میرٹھی کو بھی بلوایا گیاجو دیو بندیوں کے مشہور مناظر مانے جاتے تھے۔یہ مناظرہ حافظ صاحب کے مکان کے اندر منعقد ہوا۔اس وقت چند سنجیدہ اور سمجھدار لوگ مناظرہ میں موجود تھے ان میں حافظ صاحب کے پھوپھی زاد بھائی سید الطاف حسن میاں بھی شامل تھے۔ سید صاحب اتنا علم تو نہیں رکھتے تھے لیکن بات کے پہلو کو سمجھنے کی خدا داد صلاحیت رکھتے تھے علاوہ ازیں ایک جری انسان تھے۔یہ مناظرہ بتراضی فریقین حکومت کی منظوری سے ہوا تھااس لئے امن و امان قائم رکھنے کی خاطر پولیس بھی موجود تھی تاکہ کوئی نا خوشگوار واقعہ نہ پیش آئے۔دن کے گیارہ بجے یہ مناظرہ شروع ہوا۔فدا حسین خاں صاحب نے پیشتر ہی اس بات کا اعلان کر دیا تھاکہ مرزا غلام احمد صاحب کی ذات اور کلام کے متعلق جو اعتراضات میں نے جمع کیے ہیں ان کو سلسلہ وار بیان کروں گااور ان کا جواب لوں گا۔اگر وہ اعتراضات صحیح ثابت ہو گئے اور احمدی علماء ان کا جواب دینے سے قاصر رہے تو میں یکلخت احمدیت کا خیال دل سے نکال دوں گا اور غیر احمدی علماء ان کو صحیح ثابت کرنے میں ناکام رہے تو میں اسی جگہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کا اعلان کر دوں گا اور میری کل جائیداد سلسلہ کے لیے وقف ہو گی۔
خاں صاحب نے پہلا اعتراض پڑھ کر سنایا اور مطالبہ کیا کہ جس کتاب کا یہ حوالہ ہے اسے اصل کتاب سے پڑھ کر سنایا جائے۔ غیراحمدی مولوی صاحب کافی دیر تک کتاب کی ورق گردانی کرتے رہے اور پھر کتاب کو میز پر رکھ دیا۔اس کے بعد خاں صاحب نے دوسرا اعتراض پیش کیالیکن مخالف مولوی صاحب اس مرتبہ بھی وہ حوالہ متعلقہ کتاب سے پیش نہ کر سکے اور ورق گردانی کے بعد وہ کتاب میز پر رکھ دی۔ بعد ازاں خاں صاحب نے تیسرا اعتراض پیش کیا جس میں کہا گیا تھا کہ مرزا صاحب نے حضرت عیسیٰ ؑ کو غلیظ گالیاں دی ہیں اور ان کی بڑی توہین کی ہے۔لیکن جس کتاب کا حوالہ دیا گیا تھا وہ کتاب مولوی صاحبان کے پاس نہیں تھی اس پر حافظ صاحب نے اپنے کتب خانہ سے وہ کتاب نکال کر مخالف مولوی صاحبان کو دے دی لیکن احمدی مولوی صاحبان نے خاں صاحب کو یہ بات کتاب کی عبارت پڑھ کر واضح کرادی کہ اس میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ ہرگز حضرت عیسیٰؑ کے متعلق نہیں بلکہ عیسائیوں کے اس فرضی یسوع کے بارے میں کہا گیا ہے جس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور جس کا یہ قول تھاکہ میرے بعد سب چور اور بٹ مار آئیں گے سچا نبی کوئی نہیں آئے گا۔اس کے بعد والا اعتراض محمدی بیگم والی پیشگوئی کے متعلق تھا۔اس کی حقیقت بھی خاں صاحب پر واضح کردی گئی۔یہ اعتراض بھی باطل ثابت ہوا۔اس بحث مباحثہ میں مقررہ وقت اختتام کے قریب آپہنچا۔خاں صاحب کے برادر خورد علی حسین خاں برق بھی اس مجلس میں حاضر تھے مگر جب انہوں نے اپنے مولویوں کی ہزیمت کی کیفیت بچشم خود دیکھ لی تو اختتام وقت سے کچھ پہلے اجازت لے کر رخصت ہو گئے۔ وہ یقیناً جان چکے تھے کہ نتیجہ کیا ہو گا۔وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے بھائی نے جو اعلان کیا ہے وہ اس سے ہر گز نہیں ہٹیں گے۔ چنانچہ وقت پورا ہونے پر گفتگو ختم ہو گئی۔جتنے سامعین تھے ان میں سب سے پہلے سید الطاف حسن میاں نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں ایک غیر مذہبی آدمی ہوں اور میں کچھ زیادہ علم بھی نہیں رکھتا مگر میں نے سارا وقت مناظرہ سنا اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مرزا صاحب پر جو اعتراضات کئے گئے تھے وہ سب غلط ثابت ہوئے اور ہمارے مولوی صاحبان سے ان کا کوئی جواب بن نہ پڑا۔احمدی لوگ جیت گئے اور یہ لوگ ہار گئے۔یہ کہہ کر وہ بیٹھ گئے۔اس کے بعد خاں صاحب فدا حسین خاں کھڑے ہوئے۔اور بولے کہ جیسا کہ میں اعلان کر چکا ہوں مجھ پر حقیقت آشکار ہو گئی کہ علماء اہلسنت کے پاس سوائے جھوٹ اور اتہام کے اور کوئی چیز نہیں ہے۔اس لیے میں علی الاعلان سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں اور اپنی کل جائیداد سلسلہ کے لئے وقف کرتا ہوں اور اب میں کسی اور کی بات سننے کے لئے تیارنہیں ہوں۔اس طرح یہ مباحثہ ختم ہو گیا۔حافظ صاحب کے مکان کے باہر کافی لوگ جمع تھے اور وہ مناظرہ کے نتیجہ کے متعلق معلوم کرنا چاہتے تھے۔مولوی صاحبان تیز قدم چلتے ہوئے یہی کہتے جا رہے تھے کہ آج قادیانیوں نے ایک بڑے رئیس کو پھانس لیا ہے۔بعد ازاں انہوں نے اشتہار بھی شائع کئے جس میں ظاہر کیا گیاکہ قادیانیوں نے دھوکہ دیا ہے وغیرہ۔اس کے بعد خاں صاحب موصوف نے اپنی ساری جائیداد بحق صدر انجمن قادیان وقف کر دی جس کی قیمت اس زمانہ میں بھی کئی لاکھ تھی۔یہ جائیداد آج بھی انجمن احمدیہ قادیان کی تحویل میں ہے۔خان صاحب شاہ جہانپور سے ترک سکونت کرکے حیدر آباد دکن چلے گئے اور وہیں وفات پائی۔‘‘
(حیاتِ حضرتِ مختار از سلیم شاہجہانپوری صفحہ 45 تا 48)
غیر از جماعت عالم کا چھپ کے استفادہ کرنا
مکرم لئیق احمد طاہر بیان فرماتے ہیں کہ
’’لاہورمیں قیام کے دوران کوئی غیر از جماعت عالم آپ سے استفادہ کرنا چاہتے تھے لیکن عوام سے بہت ڈرتے تھے کہ کہیں مرزائی اور قادیانی مشہور نہ کر دیں۔ چنانچہ کبھی وہ رات کے اندھیرے میں، کبھی علی الصبح آپ کے حضور میں حاضر ہوتے۔آہستہ آہستہ جھجھک دور ہوئی تو آزادانہ آنے لگے۔ اس پر حضرت حافظ صاحب نے یہ شعر فرمائے:
نرالا مست ہوں واعظ بھی مشتاقانہ آتا ہے
کبھی چھپ چھپ کے آتا تھا اب آزادانہ آتا ہے
بڑی رنگینیاں ہیں یوں تو واعظ کی طبیعت میں
مگر منبر پر آتا ہے تو معصومانہ آتا ہے
جواب لن ترانی اب نہ آئے گا نہ آتا تھا
تڑپنا جانتا ہوں نعرہ مستانہ آتا ہے
ہوائے آب و دانہ میں جو اڑتے ہیں تو اڑنے دو
مرے لب تک تو خود اڑ اڑ کے یک یک دانہ آتا ہے
نکل آیا ہے موقع آپ بیتی کیوں نہ کہہ ڈالوں
یہ فرمائش ہوئی ہے کیا ، کوئی افسانہ آتا ہے
(حیاتِ حضرتِ مختار از سلیم شاہجہانپوری صفحہ 77 تا 78)
بنا لفافہ کھولے خط کے مضمون کا علم
مکرم لئیق احمد طاہر ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ
’’میرے ایک عزیز دوست نے لندن میں حضرت حافظ صاحب کے تعلق باری تعالیٰ کا ذکر کیا۔کہنے لگے۔ میری والدہ حضرت حافظ صاحبؓ کے زیر تربیت تھیں۔ میں نے اپنے خاندان میں چھوٹی عمر میں ہی احمدیت قبول کر لی تھی۔سارے خاندان نے شدید مخالفت کی۔ آہستہ آہستہ والدہ ماجدہ احمدیت میں دلچسپی لینے لگیں اور حضرت حافظ صاحب کے ہاں میرے ساتھ جاتیں اور اپنے استفسارات پیش کرتیں۔ اس بحث و مباحثہ میں کئی مہینے صرف ہوئے۔ آخر ایک روز گھر میں والدہ صاحبہ نے بلایا اور بیعت فارم پر کرکے بند لفافے میں ڈال کر مجھے دیدیا اور کہا کہ حضرت حافظ صاحب کو دے آؤ۔میں حاضر ہوا اور لفافہ پیش کیا۔آپ نے خاموشی سے لے کر سرہانے کے نیچے رکھ دیا۔ میں نے عرض کیا حضرت آپ نے اسے کھول کر دیکھا نہیں کہ اس میں کیا ہے۔ فرمایا ہمیں معلوم ہے اس میں تمہاری والدہ کا بیعت فارم ہے۔ پھر فرمایا میاں یاد رہے۔ اگر ہم پر بارش نہیں پڑتی تو پھوار تو ضرور پڑتی ہے۔‘‘
(حیاتِ حضرتِ مختار صفحہ 78 تا 79)
ذوق تبلیغ اور اشاعت سلسلہ احمدیہ
حضرت شیخ محمد احمد مظہر، حافظ صاحب کے جذبۂ تبلیغ کی عکاسی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’خاکسار کی کتاب Arabic The Source of all Languages شائع ہوئی اور اخبار پاکستان ٹائمز مورخہ 28مارچ 1965ء میں کتاب مذکورہ پر ایک عالمانہ اور سیر حاصل تبصرہ شائع ہوا۔ حافظ صاحب نے اس کا اردو میں ترجمہ کروایا اور سارا ترجمہ سنا اور محظوظ ہوئے۔ مجھے فرمانے لگے کہ بھائی ہمیں وہ کتاب دی ہوتی۔ کیا ہوا جو ہم انگریزی نہیں پڑھے۔ ہم کسی سے کتاب پڑھوا کر سنیں گے۔ ہمارے پاس ہر قسم کا آدمی آتا ہے، اسے دکھائیں گے، بات چلے گی اور حضرت صاحب کا ذکر ضرور آئے گا۔ میں نے کتاب آپ کی خدمت میں پیش کر دی۔‘‘
(حیاتِ حضرتِ مختار از سلیم شاہجہانپوری صفحہ143)
دعوت الی اللہ میں انہماک
سلیم شاہجہانپوری بیان کرتے ہیں کہ
’’جب سے میں نے ہوش سنبھالا حضرت حافظ صاحب کو دعوت حق میں منہمک پایا۔آپ کے پاس صبح سے شام تک متلاشیان حق کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ یہ شاہجہانپور کی بات ہے۔ کھانا میری والدہ تیار کرتی تھیں۔میں تقریباً ساڑھے بارہ بجے یا ایک بجے اپنے گھر سے کھانا لے کر حافظ صاحب کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ لیکن اکثر ایسا اتفاق ہوتا تھاکہ حافظ صاحب حاضرین سے گفتگو میں ایسے محو ہوتے تھے کہ مجھے اتنی جرات ہی نہ ہوتی تھی کہ کھانا لے آنے کی اطلاع ہی دیدوں بلکہ میں خود اس محفل کا ایک حصہ بن کر رہ جاتا تھا کیونکہ حافظ صاحب کا طرز بیاں اتنا دل آویز اور دل موہ لینے والا ہوتا تھا کہ آپ کی محفل میں پہنچ کر وقت کا احساس ہی ختم ہو جاتا تھا۔اور یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے، جس کا مشاہدہ قریباً ہر روز ہی ہوتا تھا۔ان کی محفل میں پہنچ کر ہر دوسرا ضروری امر دماغ سے محو ہو کر صرف حافظ صاحب کی سحر انگیز تقریر کا نقش ہی باقی رہ جاتا تھا۔اس عرصہ میں کھانا ٹھنڈا ہو کر اپنا رنگ تبدیل کر لیتا۔روٹیاں اکثر سوکھ جاتیں اور چبانے کے قابل نہ رہتیں لیکن اس خدمت دین میں مست الست کو کچھ پروا نہ ہوتی۔چارپانچ بجے جب لوگ رخصت ہو جاتے تو میں کھانا سامنے رکھ دیتا۔حافظ صاحب اسی ٹھنڈے سالن اور سوکھی روٹیوں پر گزارا کر لیتے اور پانی پی کر خدا کا شکر بجا لاتے اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔کئی دفعہ دوپہر کا کھانا کھانے کی نوبت ہی نہ آتی اور کھانا جوں کا توں واپس جاتا صرف رات کے کھانے پر قناعت کرتے۔کھانے اور دیگر ضروریات سے لاپرواہی اور خدمت دین میں ہمہ تن مستغرق ہو جانے کی وجہ سے یہ کیفیت آخر دم تک قائم رہی۔‘‘
(حیاتِ حضرتِ مختار از سلیم شاہجہانپوری صفحہ 147)
’’جن دنوں آپ جودھا مل بلڈنگ لاہور کے ایک کمرے میں قیام فرما تھے انہیں ایام کا واقعہ ہے کہ ایک روز مکرم ضیاء الحق جو ان دنوں اسی بلڈنگ کے زیریں حصے میں سکونت پذیر تھے دوپہر کو حسب معمول حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ کمرہ دھوئیں سے بھرا ہوا ہے اور حضرت حافظ صاحب کاغذ وغیرہ جلا کر انگیٹھی میں کوئلہ جلانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ کھچڑی تیا ر کریں۔ضیاءالحق صاحب نے عرض کیا کہ یہ کام اب میں کروں گا تو حافظ صاحب نے سختی سے منع فرما دیا اور کہا کہ آپ ابھی باہر سے آئے ہیں کچھ دیر آرام کر یں۔ابھی پانی گرم بھی نہ ہونے پایا تھا کہ کچھ لوگ آگئے حافظ صاحب نے آگ بجھا دی اور دیگچی چولہے پر سے اتار کر دوسری جگہ رکھ دی اور آنے والوں سے گفتگو میں مصروف ہوگئے اور یہ سلسلہ کافی دیر چلا یہاں تک کہ رات ہو گئی۔قبل ازیں گزشتہ روز بھی ایسا ہی واقعہ ہوا تھا اور حافظ صاحب اس روز بھی کچھ نہ کھا سکے تھے۔ضیاء الحق صاحب تین چار انڈے لے آئے۔لوگ ابھی تک موجود تھے۔اس لئے ضیاء الحق انڈے پیش کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے۔غرض اسی حیص بیص میں رات کے گیارہ بج گئے اور اسی دوران ضیاء الحق صاحب کئی بار آکر دیکھ گئے کہ مجلس کا کیا رنگ ہے۔کہتے ہیں کہ ساڑھے گیارہ بجے کا وقت ہوگا کہ میں چار انڈے لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ پر ہلکا سا ضعف طاری تھا چائے پینے کے بعد میرے لئے خصوصی دعا کی۔ اس سے قبل حافظ صاحب ان گنت بار ضیاء الحق صاحب کو کھانا کھلا چکے تھے مگر وہ کہتے کہ میری اس حقیر سی خدمت کا بےحد احساس فرمایا۔‘‘
(حیاتِ حضرتِ مختار از ابو العارف سلیم شاہجہانپوری صفحہ 148 تا 149)
قرآن حفظ کرنے کا چیلنج
حضرت حافظ مختار احمد خود بیان فرماتے ہیں کہ
’’ابتدائی دور میں کسی مخالف نے کہا کہ اگر احمدیت سچی ہے تو آنے والے رمضان میں قرآن حفظ کر کے مسجد میں سناؤ۔آپ نے اس چیلنج کو منظور کر لیا اور جب اگلا رمضان آیا تو آپؓ نے سارا قرآن اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنا دیا یہ غیر معمولی حافظہ اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ تھا۔ اللہ نے غیر معمولی برکت ڈالی اور یہ امتیازی کیفیت آخر دم تک غالب ہی۔‘‘
(حیاتِ حضرتِ مختار از ابو العارف سلیم شاہجہانپوری صفحہ 151)
جلسہ ہائے سیرۃ النبیؐ
’’شاہجہانپور میں آپ بالالتزام سالانہ سیرت النبیؐ کے اجلاس منعقد کراتے اور اس میں غیر از جماعت اصحاب بھی شرکت کرتے بلکہ تقاریر بھی ہوتیں۔ ان تقاریر میں ایک ہندو وکیل بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ یہ اجلاس حضرت حافظ صاحب کے مکان کی پشت پر ان کے ایک مملوکہ احاطہ میں ہوا کرتے تھے۔‘‘
(حیاتِ حضرتِ مختار از ابو العارف سلیم شاہجہانپوری صفحہ 158)
تمہارا یہ تنکا میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا
’’ایک مرتبہ کوئی افغانی سید الطاف میاں سے ملنے آیا۔اتفاق سے حضرت حافظ صاحب بھی وہاں موجود تھے،حضرت حافظ صاحب تو ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ سلسلہ کے متعلق گفتگو چھڑ گئی۔ وہ شخص کسی بات پر مشتعل ہو گیا۔ اور کمر میں بندھی ہوئی تلوار میان سے نکال کر اپنے غضب کا اظہار کرنے لگا۔حضرت حافظ صاحب نے اس کے اس فعل کو خاطر میں نہ لا تے ہوئے بلا جھجھک فرمایا کہ تمہارا یہ تنکا میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے اس فعل نے ثابت کر دیا ہے کہ تم ایک غیر مہذب انسان ہو جسے آداب مجلس کا بھی شعور نہیں سید الطاف حسن میاں نے بھی اس شخص کو ڈانٹا تو اپنا سا منہ لےکر رہ گیا اور پھر وہاں سے چلا گیا۔‘‘
(حیاتِ حضرتِ مختار از ابو العارف سلیم شاہجہانپوری صفحہ162,163)
شاہجہانپور کے ایک مخالفِ احمدیت کا عبرتناک انجام
‘‘شاہجہان پور کے ایک رئیس جو فقیرے خاں کے نام سے مشہور تھے۔ایک مرتبہ لوگوں کے اکسانے پر حضرت حافظ صاحب سے ملنے آئے۔دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ایک موقعہ پر فقیرے خاں بول اٹھے کہ مختار میاں آپ کی ایک آنکھ تو قدرت نے پھوڑ دی ہے دوسری میں پھوڑ دوں گا۔ حضرت حافظ صاحب نے بڑے اطمینان سے فرمایا کہ خاں صاحب میں نے حضرت مرزا صاحب کی صداقت کے سلسلے میں جو دلائل آپ کے سامنے رکھے ہیں ان کا بطلان میری آنکھ پھوڑ دینے سے کس طرح ہو جائے گا۔اس پر فقیرے خاں سوچ میں پڑ گئے۔ اور خاموشی کے ساتھ اٹھ کر چلے گئے۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ فقیرے خاں صاحب جنگل میں شکار کے لئے گئے۔ اتفاق سے کسی ساتھی کی گولی ان کی آنکھ میں لگی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گئے۔ حضرت اقدسؑ مرزا صاحب نے سچ ہی تو فرمایا تھا:
جو خدا کا ہےاسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پہ نہ ڈال اے روبہء زارو نزار
(حیاتِ حضرتِ مختار از لیم شاہجہانپوری صفحہ163,164)
آخری وقت تک دعوت الی اللہ کا شوق
مکرم محمد ضیاء الحق چوہدری فرماتے ہیں کہ
’’میرے ایک دوست چوہدری نصیر احمد میرے زی رِتبلیغ تھے ایک دو مرتبہ میں نے انہیں حافظ صاحب سے بھی ملوایا۔شروع میں وہ احمدیت کے بہت قریب آکر پھر مخالفت سے گھبرا کر کچھ وقت کے لیے پیچھے ہٹ گئے۔میرا طریق تھا کہ ربوہ سے واپس ہوتے وقت حضرت حافظ صاحب سے ضرور مل کے آتا۔میں حاضر ہوا،دیکھا اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔تمام جسم پر سوج پڑی ہوئی تھی۔میرے ساتھ میری بیوی اور بچے بھی تھے۔میں نے سلام کیا۔جواب میں صرف ہونٹ ہلے۔میں نے بہت قریب جا کر طبیعت کا پوچھا تو بہت ہی آہستہ سے،جسے میں کان لگا کر سن سکا،فرمایا کہ اب تو چل چلاؤ کا وقت ہے اب طبیعت کیسی؟ذراسے توقف سے استفسار فرمایا: آپ کے اس تاجر دوست کا کیا بنا؟ جس پر میں نے کچھ ناامیدی کی بات کی تو اونچی آواز میں، جسے میری بیوی اور بچوں نے بھی سنا،فرمایا: ’’میں نے اس کے چہرے پر ایمان کا نور دیکھا ہے۔جاؤ اور اس کا پیچھا کرو۔‘‘ میں سلام کر کے چلا آیا اور چند روز بعد ہی آپ کی وفات کی خبر آگئی۔‘‘
(حیاتِ حضرتِ مختار صفحہ 119 تا 120)
حضرت حافظ مختار شاہ جہان پوری صاحبؓ 8 جنوری 1969ء کو اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ اِنّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ
(باسل احمد بشارت)