دنیا کی تمام آبادی ،تمام مخلوقات اس وقت جس کرب، پریشانی، بلاء اور بیماری سے گزر رہی ہے وہ ہر ایک پر عیاں ہے۔ یہ بلاء اور بیماری گھروں کو اجاڑ رہی ہے ۔شہروں کو ویران کر رہی ہے۔ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش میں اس سے متاثر ہے۔ تو جو بھی حفظ ماتقدم کے طور پر تدابیر ہو سکتی ہیں وہ اختیار کرنی چاہیئں اور اس میں سب کا فائدہ ہے۔ آج کل کچھ باتوں کی طرف خاص طور پر زور دیا جارہا ہے مثلاً سوشل دوری رکھیں، ایک دوسرے کے درمیان 7-6 فٹ کا فاصلہ رکھا جائے۔ہاتھوں کو بار بار دھویا جائے ۔
چھینک یا کھانسی آنے پر منہ کو ڈھانپا جائے اور اگر ایمرجنسی میں باہر گئے ہیں تو واپس آکر فوراً کپڑے بدل لیں۔ نہا لیں ۔ ماسک مل جائے تو اسے بھی پہنیں ۔ احتیاطی تدابیر میں روزمرہ استعمال کی چیزوں میں یا خریدو فروخت میں بھی بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔ مثلاًآپ کے گھر روزانہ ڈاک بھی آتی ہوگی اسے احتیاط سے کھولیں۔ بہتر ہے کہ 12-10 گھنٹے انتظار کر لیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کا اپنا عمل بھی اس بارہ میں یہ تھا کہ اگر ایسے علاقہ سے ڈاک اور خطوط آئے ہیں جہاں وباء پھیلی ہوئی ہوتی یا طاعون کی بیماری ہے تو ڈاک کھولنے کے فوراً بعد آپ ہاتھ دھو لیتے تھے۔ یہی طریق ہمیں بھی اپنانا چاہئے۔
اسی طرح جب آپ سٹورز میں جاتے ہیں کبھی دروازہ کھولتے ہیں یا جن شیلف میں چیزیں پڑی ہیں انہیں ہاتھ لگاتے ہیں۔ سب جگہوں پر احتیاط کی ضرورت ہے بہتر ہے کہ گھر سے Wipes ساتھ لے کر جائیں اور صاف کرلیں اور واپس آتے ہی سب سے پہلے ہاتھ اور کپڑے صاف کریں۔ وغیرہ وغیرہ
یہ سب باتیں بہت ضروری ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان باتوں کے کرنے کی ضرورت نہیں ہم اللہ پر ایمان لاتے ہیں دین ہمارا سہارا ہے اس نے ہمیں محفوظ رکھنا ہے۔ یہ ٹھیک ہے مگر ساتھ ہی اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اونٹ کا گھٹنا پہلے باندھیں پھر توکل کر یں یہ بھی اسلام کا ہی بتایا ہوا طریق ہے جس کی طرف ہمارے پیارےرسولﷺ نے رہنمائی فرمائی ہے ۔
ان تمام امور کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے حضوربھی جھکا جائے۔ کیونکہ جو تدبیر بھی ہم سب نے کرنی ہے اس میں اثر پید ا کرنا تو اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ ان چیزوں پر کار بند ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا در ہی کھٹکھٹانا ہے۔
اگر کسی تدبیر پر ہی بھروسہ کریں گے۔ تو وہ شرک کا رنگ اختیار کرسکتی ہے۔ اس لئے اس تحریر کے ذریعہ چند دعائیں اور ان کی اہمیت کے بارے میں خاکسار توجہ دلانا چاہتا ہے۔
گزشتہ کئی خطبات میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے جماعت کو جہاں بار بار احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں اس امر کو بخوبی واضح فرمایا ہے کہ ہمارا آخری ہتھیار اور حربہ دعا ہی ہے اور باربار دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے ۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی ایک دعا
حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت نواب محمد علی خان ؓ کے نام اپنے ایک مکتوب میں دعا کی تلقین کرتے ہوئے یہ لکھا کہ ’’دعا بہت کرو اور عاجزی کو اپنی خصلت بناؤ‘‘ خداتعالیٰ کے حضور میں دعا کرو۔
’’اے رب العالمین! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا، تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بےغایت درجہ مجھ پر احسان ہیں میرے گناہ بخش تا میں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما۔ اور مجھ سے ایسے عمل کر اجن سے تو راضی ہو جائے میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا و آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے ۔ آمین ثم آمین‘‘
(خزینۃ الدعا، ادعیۃ المہدی صفحہ 29)
حضرت ابوبکر ؓ نے نماز میں پڑھنے کے لئے آنحضور ﷺ سے کوئی دعا سکھانے کی درخواست کی ۔حضور ﷺ نے جو دعا سکھائی اس میں خاص طور پر خدا کی رحمت اور مغفرت طلب کی گئی ہے ۔
اس لئے قرآن کریم کی یہ دعا کثرت سے پڑھیں:
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ
(المومنون: 119)
ترجمہ : اے میرے رب !معاف کر اور رحم کر اور تو سب سے اچھا رحم کرنے والا ہے۔
حضرت ایوبؑ کی دعا بھی قرآن کریم میں یوں مذکور ہے:
أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
(الانبیاء:84)
اے میرے رب ! میری یہ حالت ہے کہ مجھے تکلیف نے آپکڑا ہے اور اے خدا !تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ۔
(خزینۃ الدعاء صفحہ22-18)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ مصیبت کے عالم میں یہ کلمات دہراتے تھے:
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ۔لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیْمِ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَ رَبُّ الْاَرْضِ وَ رَبُّ العَرْشِ الکَرِیْمِ
ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ عظیم اور بڑے حلم وا لا ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عظیم عرش کا رب ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمان زمین کا رب ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش کریم کا رب ہے۔
ابتلاء کے وقت کی دعا
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو جب کوئی کٹھن امر درپیش ہوتا تو آپ ﷺ یہ دعا کرتے۔
اَللّٰهُمَّ إنِّي أعُوذُ بِكَ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ الْقَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ
ترجمہ : اے اللہ ! میں ابتلاء کی مشکل سے اور بدبختی کی پکڑ سے اور تقدیر شر اور دشمنوں کے اپنے خلاف خوش ہونے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
(خزینۃ الدعا صفحہ76-75)
امراض سینہ کا علاج
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوا کرتے تو ان دونوں سورتوں قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ کو پڑھ کر دم کیا کرتے تھے۔
(حقائق الفرقان صفحہ567)
حضرت اقدس مسیح موعو علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’مسیح موعودؑ کے متعلق ۔۔۔۔۔یہی لکھا ہے کہ مسیح کے دم سے کافر مریں گے یعنی وہ اپنی دعا کے ذریعہ سے تمام کام کرے گا۔ دعا میں خداتعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ سے ہو گا۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ نے سورۃ الناس کی تفسیر میں یہ ارشاد فرمایا ہے ۔
’’میں خیال کرتا ہوں کہ امراض سینہ مثلا سِل، کھانسی وغیرہ کے واسطے اس سورہ شریفہ میں ایک دعا ہے۔ کیوں کہ آج کل ڈاکٹروں نے یہ تحقیقات کی ہے کہ پھیپھڑے میں ایک باریک کیڑے ہوتے ہیں جن کو جرمز کہتے ہیں۔ جب وہ پیدا ہو جاتے ہیں تب پھیپھڑا زخمی ہو کر سِل کی بیماری اور کھانسی پیدا ہو جاتی ہے ۔ جن بھی ایک باریک اور مخفی شئے کو کہتے ہیں۔ اس سورۃ میں ان اشیاء کے شر سے پناہ چاہی گئی ہے جو سینہ کے اندر ایک خرابی پیدا کرتے ہیں۔ ناظرین اس کا تجربہ کریں۔ لیکن صرف جنتر منتر کی طرح ایک دعا کا پڑھنا اور پھونک دینا بے فائدہ ہے ، سچے دل کے ساتھ یہ سورۃ بطور دعا کے مریض اور اس کے معالج اور تیمار دار پڑھیں اور مریض کے حق میں دعا کریں تو اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے اور بخشنے والا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ ایسے بیماروں کو اس کلام پاک کے ذریعہ شفا حاصل ہو۔ واللہ أعلم بالصواب‘‘
(حقائق الفرقان جلد نمبر 4 صفحہ587)
آنکھ کے پانی سے یارو! کچھ کرو اس کا علاج
جن حالات سے اس وقت سب گزر رہے ہیں اس کا ایک علاج حضرت مسیح موعودؑ نے اس شعر میں فرمایا ہے۔
آنکھ کے پانی سے یارو! کچھ کرو اس کا علاج
آسماں اے غافلو ! اب آگ برسانے کو ہے
یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری، آہ وبکا کی جائے ۔ جب انسان خدا کے حضور جھکتا ہے روتا ہے۔ دعائیں کرتا ہے۔ اپنی عاجزی وبے کسی کا اظہار خشوع و خضوع و الی نماز وں اور دعاؤں کے ساتھ کرتا ہے تو خداتعالیٰ کا رحم جوش میں آجاتا ہے پھر وہ رحمت ہی رحمت نازل کرتا ہے۔ احباب کے ازدیاد ایمان کے لئے سیرت المہدی سے ایک روایت نقل کرتا ہوں۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’حضرت صاحب کے زمانہ میں اس عاجز نے نمازوں میں اور خصوصاً سجدوں میں لوگوں کو آج کل کی نسبت بہت زیادہ روتے سنا ہے، رونے کی آوازیں مسجد کے ہر گوشہ سے سنائی دیتی تھیں اور حضرت صاحب نے اپنی جماعت کے اس رونے کا فخر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ جس نماز سے پہلے حضرت صاحب کی کوئی خاص تقریر اور نصیحت ہو جاتی تھی اس نماز میں تو مسجد میں گویا ایک کہرام برپا ہو جاتا تھا یہاں تک کہ سنگدل سے سنگدل آدمی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔ ایک جگہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ دن میں کم از کم ایک دفعہ تو انسان خدا کے حضور رولیا کرے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ620 روایت نمبر 666)
رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث
اس ضمن میں ایک حدیث بھی درج کرتا ہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سات آدمی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو، اُس دن جبکہ اُس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہو گا اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا۔ اور اُن میں سے ایک شخص وہ ہے وَ رَجُل ذَکرَ اللّٰہ خَالِیاً فَفَاضَتْ عَیْنَاہ
یعنی وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور (اس کے خوف سے) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔
(ریاض الصالحین حدیث450)
اس طرح آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ’’وہ شخص جہنم میں نہیں جائےگا جو اللہ کے ڈر سے رویا۔‘‘
(ریاض الصالحین حدیث نمبر 449)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیا ہے جیسے سمندر میں ایک جوش ہوتا ہے۔‘‘
فرماتے ہیں۔
’’میں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔‘‘
(خزیتہ الدعا ادعیۃ المہدی ص15)
آج کل کے حالات میں جب کہ لوگ، فیملیز اور بچے زیادہ وقت گھروں میں گزار رہے ہیں تو زیادہ وقت دعاؤں میں،نمازوں میں،ذکرِ الہٰی،استغفار،درود شریف اور نوافل کی ادائیگی میں گزارنا چاہئے بلکہ چند لمحات علیحدگی میں بیٹھ کر بھی دعاؤں میں گزاریں۔ مجھے ایک اور روایت سیرت المہدی سے ملی ہے کہ ہر فرض نماز میں قنوت کریں۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں جب تک مولوی عبدالکریم صاحب ؓ مرحوم زندہ رہے وہ ہر فرض نماز میں قنوت پڑھتے تھے اورصبح اور مغرب اور عشاء میں جہر کے ساتھ قنوت ہوتا تھا۔ قنوت میں پہلے قرآنی دعائیں پھر بعض حدیث کی دعائیں معمول ہوا کرتی تھیں آخر میں درود پڑھ کر سجدہ میں چلے جاتے تھے جو دعائیں اکثر پڑھی جاتی تھیں ان کو بیان کردیتا ہوں:
- رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
(البقرہ :202)
- رَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدۡتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخۡزِنَا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّکَ لَا تُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ
(آل عمران:195)
- رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ
(الاعراف:24)
- رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا
(الفرقان:75)
- رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰٮنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ
(البقرہ:287)
- وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا
(الفرقان:66)
- رَبَّنَا افۡتَحۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ قَوۡمِنَا بِالۡحَقِّ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡفٰتِحِیۡنَ
(الاعراف:90)
- رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا فِتۡنَۃً لِّلۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ
(یونس :86)
- رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ
(آل عمران :09)
- رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ
(آل عمران:194)
- اَللّٰھُمَّ اَیِّدِالۡاِسۡلَامَ وَالۡمُسۡلِمِیۡنَ بِالۡاِمَامِ الۡحَکَمِ الۡعَادِلِ۔
- اَللّٰھُمَّ انۡصُرۡ مَنۡ نَصَرَ دِیۡنَ مُحَمَّدٍ وَاجۡعَلۡنَا مِنۡھُمۡ وَاُخۡذُلۡ مَنۡ خَذَلَ دِیۡنَ مُحَمَّدٍ وَلَا تَجۡعَلۡنَا مِنۡھُمۡ۔
نمازیں اور دعائیں اگر گریہ وزاری اورخشوع و خضوع سے ادا کی گئی ہیں تو وہ قبولیت کا درجہ پا تی ہیں۔ اس لئے خدا کے حضور جس قدر بھی ممکن ہو آنکھوں کا پانی پیش کر یں کیونکہ پانی سے روئیدگی ہوتی ہے ۔ اس دنیا کا نظام پانی کے ساتھ وابستہ ہے یعنی پانی سے ہی زندگی ہے ۔ اس لئے اس وقت آنکھ کے پانی کی ضرورت ہے۔ جس سے دائمی زندگی نصیب ہو گی۔
(سیرۃالمہدی جلد اول صفحہ805-804)
دوسروں کے لئے دعا
اس مضمون کا دوسرا حصہ حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں لکھتا ہوں ۔آپ فرماتے ہیں۔
’’سنو اور منہ نہ پھیرو اور خدا سے ڈرو اور اس کے حکموں کو نہ توڑو اور خدا کے لئے کھڑے ہو جاؤ اور سست مت بیٹھو اور کہا مانو۔ اور سرکشی نہ کرو اور خدا کو یاد کرو اور غفلت چھوڑ دو ۔ اور سب مل کر خدا کی رسی کو پکڑ لو، اور فرقہ فرقہ نہ بنو اور اپنے نفسوں کو پاک کرو، اور میلے کچیلے نہ رہو اور اپنے باطنوں کو پاک کرواور آلودگی سے بچو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور شرک نہ کرو اور صدقے دو اور بخیل نہ بنواور آسمان پر چڑھنے کی کوشش کرو اور زمین کی طرف نہ جھکو اور ضعیفوں پر رحم کرو ۔ تاکہ تم پر بھی آسمان میں رحم کیا جائے۔‘‘
جہاں آپ اپنے لئے دعائیں کر رہے ہیں۔ وہاں دوسروں کے لئے دعائیں کرنا خصوصیت کے ساتھ جو پریشان ہیں۔ بیمار ہیں۔ گھبراہٹ میں ہیں یا جو آپ کو دعا کے لئے کہہ رہے ہیں ان کو بھی بطور خاص اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کیونکہ اپنے بھائی کے لئے دعا اس کی غیر حاضری میں قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔ بلکہ اپنے بھائی کے لئے دعا آپ کے لئے بھی قبولیت دعا کا خاصہ رکھے گی۔
ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں۔
حضرت ابو درداء ؓ بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو مسلمان اپنے بھائی کے لئے اس کی غیر حاضری میں (پیٹھ کے پیچھے) دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے، تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو۔
حضرت ابو درداء سے ہی روایت کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ایک مسلمان بھائی کی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لئے اس کی غیر حاضری میں کی ہوئی دعا قبول ہوتی ہے اس کے سر ہانے ایک فرشتہ مقرر ہے وہ جب بھی اپنے بھائی کے لئے اس کی بھلائی اور خیر خواہی کے لئے دعا کرتا ہے تو اس پر مقرر فرشتہ کہتا ہے آمین یعنی اے اللہ! اس کی دعا قبول فرما اور تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو۔ آمین
(ریاض الصالحین حدیث 1495-1496)
پس اس مشکل وقت میں اپنے بھائیوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں یہ بھی قبولیت دعا کا موجب ہو گااور ہمارے پیارے امام سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے اپنے ہر خطبہ میں عوام الناس کے لئے بھی خصوصیت سے دعا کی تحریک کی ہے۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔
پس جہاں خدا تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی ہے وہاں حقوق العباد کی بھی ان دنوں میں کوشش کے ساتھ ادائیگی کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ بہت سارے لوگوں کو ہماری مدد کی ضرورت ہوگی۔ حتی الوسع جس قدر بھی ممکن ہو سکے مدد کریں۔ جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے۔ صدقہ دو اور بخیل نہ ہو، آنحضرت ﷺ نے تو فرمایا اَلصَّدَقَۃُ تَطْفیِٔ غَضَبَ الرَّبِّ خدا کے غضب کو دھیما کرتا ہے صدقہ دینا، بلکہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کردیتا ہے۔
ایک حدیث
آنحضرت ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مومن کی دنیا کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کی تکالیف میں اس کی تکلیف کو دور کرے گا۔ اور جو کسی تکلیف زدہ تنگدست کے لئے سہولت پیدا کرے اللہ تعالی اس کے لئے دنیا و آخرت میں آسانی پیدا فرمائے گا اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے اللہ تعالی اس کی دنیا و آخرت میں پردہ پوشی فرمائے گا اور اللہ بندہ کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے‘‘
(ہمارے پیارے نبی کی پیاری باتیں ص10 مصنفہ بنت محمود)
(سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)