• 29 اپریل, 2024

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24۔ اپریل 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یو کے

خلاصہ خطبہ جمعہ

روزہ کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں تقوی ٰ کی وضاحت اور اس کے حصول کے طریق

اصل ایمان اور تقویٰ کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے گئے عہد، اس کی امانتوں کے حق اور اسی طرح مخلوق کے عہد بھی باریکی سے ادا کرو اور اس کی امانتوں کی بھی ایک فکر کے ساتھ ادائیگی کرو

آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے اور آگ کے درمیان ستر خریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے

اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہے کہ نوع انسان کی خدمت کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفا داری دکھلائے اور اس کی راہ میں جان تک دینے کو تیار ہو

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ24۔اپریل 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اے انٹرنیشنل پر براہ راست نشر کیا گیا۔ حضور انور نےسورۃ البقرہ کی آیات 184 تا 186 کی تلاوت کی اور ترجمہ کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل سے یہاں رمضان شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے ہماری روحانی ترقی کے لئے رکھے ہیں۔ قرآن کریم کی جو پہلی آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں یہی فرمایا کہ روزے تم پر اس لئے فرض کئے گئے ہیں تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتیٰ الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات پر اُس کی شکرگزاری کی جائے۔ اصل ایمان اور تقویٰ کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئے گئے عہد پورے کرو اور اسی طرح اس کی امانتوں کے حق بھی ادا کرو اور باریکی میں جا کر ادا کرو۔ اسی طرح مخلوق کے عہد بھی باریکی سے ادا کرو اور اس کی امانتوں کی بھی ایک فکر کے ساتھ ادائیگی کرو تب کہا جا سکتا ہے کہ تقویٰ ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ اس لئے آیا ہے، روزے رکھنے کی طرف اس لئے تمہاری توجہ دلائی گئی ہے کہ سال کے گیارہ مہینے میں جو کوتاہیاں کمیاں ان حقوق کے ادا کرنے میں ہو گئی ہیں اُنہیں اس مہینے میں خالصتاً اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خاطر جائز چیزوں کو بھی چھوڑتے ہوئے ، بھوک پیاس برداشت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں پہلے سے بڑھ کر توجہ دیتے ہوئے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف خاص طور پر توجہ دیتے ہوئے پورا کرو ان کمیوں کو اور جب یہ کرو گے تو اس کا نام تقویٰ ہے اور یہی رمضان کا اور روزوں کا مقصد ہے ۔ پھر یہ تبدیلی عارضی نہیں ہو گی بلکہ ایک مستقل تبدیلی ہو گی۔ پھر حقوق اللہ اور عبادتوں کے حق ادا کرنے کی طرف بھی مستقل توجہ رہے گی۔

آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اس کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے اور آگ کے درمیان ستر خریف کا فاصلہ پیدا کر دیتا ہے۔ یعنی جو ستر سالوں کے برابر ہے تو یہ ہیں روزے کی برکات ، یہ ہے وہ تقویٰ جو روزہ پیدا کرتا ہے۔ روزہ صرف تیس دن کے لئے تقویٰ پیدا نہیں کرتا بلکہ حقیقی روزہ ستر سال تک اپنا اثر رکھتا ہے اور اس حساب سے اگر ہم دیکھیں تو روزے کی فرضیت ہونے کے بعد ایک انسان پہ ایک بالغ مسلمان پہ جب روزہ فرض ہوتا ہے اس کے بعد جو روزے سے حقیقی فیض اُٹھانے والا ہے اور اُس کی روح کو سمجھ کر روزے رکھنے والا ہے وہ تمام عمر کے لئے ہی ان برکات سے فیض پاتا رہے گا جو روزے میں اللہ تعالیٰ نے رکھی ہیں اورتقویٰ کی راہوں کو تلاش کرتا رہے گا جو روزے کا مقصد ہے ۔ اگر ہم تصور کریں کہ ایسے روزے دار ہمارے معاشرے میں پیدا ہو جائیں تو وہ کس قدر خوبصورت معاشرہ ہو گا جہاں اللہ تعالیٰ کے حق بھی ادا کئے جا رہے ہوں گیا ور بندوں کے حق بھی ادا کئے جا رہے ہوں گے اور یہی وہ حسین معاشرہ ہے جو ہر مؤمن قائم کرنے کی خواہش رکھتا ہے بلکہ ہر انسان اس معاشرے کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔

حضور انور نے فرمایا:آج کل جو وباء پھیلی ہوئی ہے وائرس کی اس نے حکومتی قانون کے تحت اکثر لوگوں کو گھروں میں بند کر دیا ہے اور یہاں ایک اچھی بات اس لحاظ سے بھی پیدا ہو رہی ہے کہ خدام الاحمدیہ والنٹیئرز کے تحت جہاں جہاں مدد کی ضرورت ہے لوگوں کوجنس پہنچانے کے لئے یا دوسری سہولیات پہنچانے کے لئے، دوائیاں پہنچانے کے لئے وہ کر رہے ہیں۔ تو یہ جو حق ادا کئے جا رہے ہیں یہ ایک ایسا نمونہ پیش کر رہے ہیں جس سے اپنے تو فائدہ اُٹھا ہی رہے ہیں غیر بھی فائدہ اُٹھا کر متاثر ہو رہے ہیں ۔ بہرحال اس کے علاوہ روحانی فائدے کیا ہیں ،لوگ لکھتے ہیں کہ اس وجہ سے ہمارے گھر کا ایک نیا ماحول بن گیا ہے کہ ہم گھروں میں بیٹھ گئے ہیں،نمازیں باجماعت ادا ہوتی ہیں،نمازوں کے بعدمختصر درس و تدریس بھی ہوتا ہے، خطبہ اکٹھے بیٹھ کر سنتے ہیں اور بعض دوسرے پروگرام ایم۔ٹی۔اے پر دیکھتے ہیں۔ اگر یہ لاک ڈاؤن مزید لمبا ہوتا ہے اور پورے رمضان تک حاوی رہتا ہے تو پھراس رمضان میں باجماعت نمازیں اور درس و تدریس کو مزید توجہ سے ادا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ بچوں کو چھوٹے چھوٹے مسائل بھی سکھائیں اور بتائیں اس طرح اپنا علم بھی بڑھائیں اور بچوں کا علم بھی بڑھائیں اور دُعاؤں کی طرف توجہ دے کر خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے رحم مانگیں اپنے لئے بھی اور دُنیا کے لئے بھی۔ پس یہ دن جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے رہا ہے اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔

حضور انور نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقویٰ کی وضاحت مختلف انداز میں مختلف مواقع پر کی ہے۔ پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ آپ کی باتوں کو سن کر اس پر عمل کریں، اس عہد کو پورا کریں جو ہم نے آپ سے کیا ہے۔ ایک مجلس میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ تقویٰ کیا ہے آپؑ فرماتے ہیں۔ تقویٰ یہ ہے کہ باریک درباریک پلیدگی سے بچے اور اس کے حصول کا یہ طریق ہے کہ انسان ایسی کامل تدبیر کرے کہ گناہ کے کنارے تک نہ پہنچے اور پھر نِری تدبیرہی کو کافی نہ سمجھے بلکہ ایسی دُعا کرے جواس کا حق ہے کہ گداز ہو جاوے۔ بیٹھ کر، سجدہ میں،رکوع میں، قیام میں اور تہجد میں غرض ہر حالت اور ہر وقت اسی فکر و دُعا میں لگا رہے کہ اللہ تعالیٰ گناہ اور معصیت کی خباثت سے نجات بخشے۔

فرمایا کہ اس میں شک نہیں ہے کہ انسان بعض اوقات تدبیر سے فائدہ اٹھا تا ہے لیکن تدبیر پر کلّی بھروسہ کر نا سخت نادانی اور جہالت ہے جب تک تدبیر کے ساتھ دُعا نہ ہو کچھ نہیں اور دُعا کے ساتھ تدبیر نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں۔ اسی کے واسطے کہا ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ فرمایا کہ اس میں کس قدر ہدایت تدبیر کو عمل میں لانے کے واسطے کی گئی ہے تدبیر میں بھی خدا کو نہ چھوڑے دوسری طرف فرمایا ہے۔ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔ پس اگر انسان پورے تقویٰ کا طالب ہے تو تد بیر کرے اور دُعا کرے دونوں کا جو بجالانے کا حق ہے بجالائے تو ا یسی حالت میں خدا اس پر رحم کرے گا لیکن اگر ایک کرکے اور دوسری کو چھوڑے گا تو محروم رہے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تقوی اللہ ہر ایک عمل کی جڑ ہے ۔ تقویٰ سے زینت اعمال پیداہوتی ہے، تقویٰ ہی ہے جو اعمال کی خوبصورتی پیدا کرتا ہے اور اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے اور اسی کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔ تقویٰ حقیقت میں اپنے کامل درجہ پر ایک موت ہے کیونکہ جب نفس کی سارے پہلوؤں سے مخالفت کرے گا تو نفس مر جاوے گا۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا۔ فرمایا کہ نفس ظاہری لذات کا دلدادہ ہوتا ہے پنہانی لذات سے یہ بالکل بے خبر ہے ۔ اسے خبردار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اول ظاہری لذات پر ایک موت وارد ہو اور پھر نفس کو پنہانی لذّات کا علم ہو۔ فرمایا کہ اس وقت الہٰی لذّات جو کہ جنتی زندگی کا نمونہ ہیں شروع ہوں گی۔ پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ نفس پر موت وارد کرنے اور حصولِ تقویٰ کے لئے وہ اول مشق کریں جیسے بچے خوشخطی سیکھتے ہیں تو اول اول ٹیڑھے حروف لکھتے ہیں لیکن آخر کار مشق کرتے کرتے خود ہی صاف اور سیدھے حروف لکھنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ان کو بھی مشق کرنی چاہئے۔ جب اللہ تعالیٰ ان کی محنت کو دیکھے گا تو خود اُن پر رحم کرے گا۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں باہم نزاعیں بھی ہو جاتی ہیں، آپس میں جھگڑے ہیں، رنجشیں ہیں، دُوریاں ہیں اور معمولی نزاع سے پھر ایک دوسرے کی عزت پر حملہ کرنے لگتا ہے اور اپنے بھائی سے لڑتا ہے۔ یہ بہت ہی نامناسب حرکت ہے، یہ نہیں ہونا چاہئے۔ فرمایا کہ بعض آدمی ذرا ذرا سی بات پر دوسرے کی ذلت کا اقرار کئے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ان باتوں سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ خدا تعالیٰ کا نام ستّار ہے پھر یہ کیوں اپنے بھائی پر رحم نہیں کرتا اور عفو اور پردہ پوشی سے کام نہیں لیتا۔ چاہئے کہ اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے اور اس کی عزت و آبرو پر حملہ نہ کرے۔ فرمایا دیکھا جاتا ہے کہ جب ایک ادنیٰ سی بات پر بحث شروع ہوتی ہے تو ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کی فکر میں ہوتا ہے کہ کس طرح میں دوسرے کو نیچا دکھاؤں۔ کسی طرح مَیں فاتح ہو جاؤں۔ ایسے موقعوں پر جوش نفس سے بچنا چاہئے اور رفع فساد کے لئے ادنیٰ ادنیٰ باتوں میں دیدہ دانستہ خود ذلت اختیار کر لینی چاہئے۔ فرمایا کہ یہ بڑی رعونت کی جڑ اور بیماری ہے کہ دوسرے کی خطا پکڑ کر اشتہار دے دیا جاوے۔ غرض یہ سب اُمور تقویٰ میں داخل ہیں اور اندرونی بیرونی اُمور میں تقویٰ سے کام لینے والا فرشتوں میں داخل کیا جاتا ہے ۔ تقویٰ حاصل کرو کیونکہ تقویٰ کے بعد ہی خدا تعالیٰ کی برکتیں آتی ہیں۔ متقی دُنیا کی بلاؤں سے بچایا جاتا ہے۔ خدا اُن کا پردہ پوش ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ یاد رکھو بیعت کا زبانی اقرار کچھ شئے نہیں ہے اللہ تعالیٰ تزکیہ نفس چاہتا ہے۔ اس لئے اپنے نفسوں میں تبدیلی پیدا کرو اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ حاصل کرو ۔ پس یاد رکھو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھائیوں کو دُکھ دینا ٹھیک نہیں ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ جمیع اخلاق کے متمم ہیں اور اس وقت خدا تعالیٰ نے آخری نمونہ آپ کے اخلاق کا قائم کیا ہے۔ پس دوسروں پر عیب نہ لگاؤ کیونکہ بعض اوقات انسان دوسرے پر عیب لگا کر خود اس میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اگر وہ عیب اس میں نہیں ہے اور پھر تم نے الزام لگایا ہے تو خود اُس میں گرفتار ہو جاؤ گے لیکن اگر وہ عیب سچ مچ اُس میں ہے جس پر تم الزام لگا رہے ہو تو اس کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہے اور اگر نہیں ہے اور تم کہہ رہے ہو تو وہ پھر تمہارے اُوپر وہ اُلٹ پڑ سکتا ہے۔ پھر فرمایا بہت سے آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر معاً ناپاک الزام لگا دیتے ہیں ان باتوں سے پرہیز کرو۔ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤ اور اپنے بھائیوں سے ہمدردی کرو۔ ہمسایوں سے نیک سلوک کرو۔ اپنی بیویوں سے عمدہ معاشرت کرو اور سب سے پہلے شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں یاد رکھو نیکی اتنی نہیں کہ ایک شخص کہے کہ مَیں نیک ہوں اس لئے کہ مَیں نے کسی کا مال نہیں لیا ،نقب زنی نہیں کی، چوری نہیں کرتا ،بدنظری اور زنا نہیں کرتا، ایسی نیکی عارف کے نزدیک ہنسی کے قابل ہے کیونکہ اگر وہ ان بدیوں کا ارتکاب کرے اور چوری اور ڈاکہ زنی کرے تو وہ سزا پائے گا۔ پس یہ کوئی نیکی نہیں جو عارف کی نگاہ میں قابل قدر ہو بلکہ اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہے کہ نوع انسان کی خدمت کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفاداری دکھلائے اور اس کی راہ میں جان تک دے دینے کو تیار ہو ۔ یہ خوب یاد رکھو کہ نِرا بدی سے پرہیز کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں جب تک اس کے ساتھ نیکیاں نہ کرے۔ حضور انور نے فرمایا: پس یہ وہ معیار ِتقویٰ اور یہ ہے وہ دین کو جاننے سمجھنے اور عمل کرنے کا معیار جسے ہمیں حاصل کرنے کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی اور جس کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے ۔

حضور انور نے فرمایا: یہی تقویٰ ہے جو پھر اگلی آیات میں بیان کردہ جو روزے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں اس کی چھوٹ کی ۔ اگر ایسی بیماری ہے جس میں روزہ برداشت کرنا مشکل ہے ، جس میں ڈاکٹر نے کہا ہے کہ روزہ نہیں رکھنا تو پھر فدیہ دے دو لیکن بہانے تلاش کر کے فدیے کا جواز پیدا نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے پھر آگے مزید وضاحت فرما دی کہ مریض ہو یا سفر پر ہو تو روزہ نہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ تنگی نہیں چاہتا اور جب بیماری دُور ہو جائے تو پھر چھوڑے ہوئے روزے پورے کرو۔ سفر کے دوران جو روزے چھوٹ گئے اُنہیں پورا کرو چاہے فدیہ دے بھی دیا ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آ گیا اور مَیں اس کا منتظر تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور وہ بوجہ بیماری کے روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے۔ فرمایا : اس دُنیا میں بہت لوگ بہانہ جُو ہیں ،بہانے کرتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جس طرح اہل دُنیا کو دھوکہ دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں۔ مگر خدا اس کی نیت اور ارادے کو جانتا ہے۔

حضور انور نے فرمایا:آجکل وائرس کی بیماری کی وجہ سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ گلا خشک ہو جائے گا زیادہ امکان بڑھ جائے گا بیماری کا روزہ رکھیں یا نہ رکھیں۔ مَیں کوئی عمومی فتویٰ یا فیصلہ نہیں دیتا اس بارے میں ۔مَیں یہی عموماً لکھتا ہوں کہ تم لوگ اپنی حالت دیکھ کر خود فیصلہ کرو اور پاک دل ہو کر تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنے دل سے فتویٰ لو۔ اپنی اپنی حالتیں اور طبیعتیں دیکھ کر ہر کوئی فیصلہ کرے اپنے ضمیر سے فتویٰ لے اور اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتے ہوئے روزہ رکھنے کے لئے دُعا کریں اور دُعائیں بھی ان دنوں میں بہت زیادہ کریں کہ اللہ تعالیٰ اس وباء کو دُنیا سے جلد ختم کرے دُنیا پر رحم فرمائے۔

حضور انور نے فرمایا: یہ بھی یاد رکھیں جو آج کل دُنیا کے حالات ہو رہے ہیں جب ایسی کسی وباء کی وجہ سے معاشی حالات بھی انتہائی خراب ہو چکے ہیں دُنیا کے۔ جب ایسے معاشی حالات آتے ہیں جیسے آج کل ہیں تو پھر جنگوں کے امکان بھی بڑھ جاتے ہیں اور پھر دُنیا دار حکومتیں اپنے مفادات کے حل تلاش کرنے کے لئے دُنیاوی حیلوں سے اس کے حل تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ توجہ بٹانے کے لئے اپنی عوام کی اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو پھر مزید مشکلات میں ان کو ڈالنے والی ہو۔ پھر مزید تباہی میں یہ لوگ چلے جاتے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں کو بھی عقل دے کہ وہ بھی عقل سے کام لیں اور کوئی ایسا قدم نہ اُٹھائیں جس سے دُنیا میں مزید فساد پیدا ہو اور مزید تباہی آئے دُنیا میں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دُعاؤں کی توفیق دے اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی توفیق دے اور دنیاوی بڑی حکومتوں کو عقل سے اپنی پالیسیاں بنانے اور آئندہ کے لائحہ عمل بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 26 ۔اپریل2020ء

اگلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر11، 27۔اپریل 2020ء