• 27 اپریل, 2024

واقفین زندگی کے ساتھ الہٰی تائیدات و نصرت

مندرجہ ذیل میں خاکسار ان روشن ستاروں کے بارے ایمان افروز واقعات پیش کرے گا جو اس آیت کریمہ کے اندر شمار ہوتے ہیں قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ(الانعام:163)

ترجمہ۔تو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مَرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں۔ “میں…یہی آرزو رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں زندگی وقف کرنے کے لئے اگر مر کے پھر زندہ ہوں اور پھر مروں اور زندہ ہوں تو ہر بار میرا شوق ایک لذت کے ساتھ بڑھتا ہی جاوے…اس وقف کےلئے اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جوش عطا فرمایا ہےکہ اگر مجھے یہ کہہ دیا جاوے کہ اس وقف میں کوئی ثواب اور فائدہ نہیں ہے بلکہ تکلیف اور دکھ ہوگا تب بھی میں اسلام کی خدمت سے رک نہیں سکتا۔”

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 370)

حضرت مولانا ابو العطاء فاضل
(خاِلد احمدیت، مبلغ بلاد عربیہ)

آپؓ فرماتے ہیں۔
1931ءسے1936ء تک مجھے بلاد عربیہ میں تبلیغ اسلام و احمدیت کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس عرصہ میں عیسائی پادریوں اور غیر احمدی علماء سے بھی متعدد مباحثے ہوتے رہے۔ دو ملاقاتوں کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک دفعہ نابلس شہر کے چند استاد ملنے کے لئے کبابیر میں آئے جہاں ہماری مسجد، ہمارا پریس، ہمارا رسالہ اور ہمارا دارالتبلیغ ہے۔ دار التبلیغ میں اس وقت چند احمدی بزرگ بھی موجود تھے جن میں شیخ علی القرق مرحوم بھی تھے۔ ان اساتذہ نے قہوہ وغیرہ پینے کے بعد کہا کہ آپ وفاتِ مسیح کے قائل ہیں؟ میں نے کہا کہ قرآن مجید میں حضرت مسیحؑ کی وفات کا ذکر ہے اس لئے ہم لوگ وفات مسیح کے قائل ہیں۔ اس نے کہا کہ اگر وہ فوت ہوگئے ہیں توان کی قبر کہاں ہے؟ میں نے کہا ان کی قبر سری نگر کشمیر میں ہے اس پر دوسرے استاد نے دخل دیتے ہوئے کہا کہ اتنی دور؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ابھی میں نے کوئی جواب نہ دیا تھا کہ ہمارے مرحوم بھائی علی القرق نے جھٹ فرمایا ھَلْ بِلاَدُالْکَشَامِیْرَۃِ اَبْعَدُ مِنَ السَّماءِ کہ کیا کشمیر کا علاقہ آسمان سے بھی دور ہے؟ اس پر وہ اساتذہ خاموش ہو گئے اور پوچھنے والے نے مجھے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے ان کو خوب سکھایا ہے۔ میں نے کہا کہ بات مجھے بھی سوجھی تھی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی سکھاتا ہے۔

ایک دوسری ملاقات میں جس کا ذکر مقصود ہے وہ حیفا فلسطین کے دارالتبلیغ میں ہوئی تھی۔ حیفا کے مشہور قدآورشیخ عبداللطیف العبوشی ایک دن اپنے چند شاگردوں سمیت اچانک دار لتبلیغ آگئے۔ میں اس وقت اکیلا ہی تھا۔ آتے ہی شیخ موصوف نے کہا جِئْتُ الْیَوْمَ لِاُلْقِمَکَ حَجَرًا کہ میں آج آپ کا منہ بند کرنے آیا ہوں۔ میں نے کہا تَفَضَّلْ وَ اجْلِسْ نَشْرَبُ الْقَھْوَۃَ اَوَّلاً ثُمَّ نَتَحَدَّثُ کہ آپ تشریف تو رکھیں پہلے قہوہ نوش فرمائیں پھر گفتگو ہو گی چنانچہ میں نے جھٹ پٹ سٹوو پر قہوہ بنا کر پیش کر دیا۔ اتنے میں جماعت کے بعض دوست بھی دارالتبلیغ میں آگئے۔ میں نے کہا کہ اب فرمایئے کیا سوال ہے؟ کہنے لگے کہ آپ وفاتِ مسیح کے قائل ہیں۔ بتائیں ان کی قبر کہاں ہے؟ میں سمجھ گیا کہ یہ محض مجادلہ کے لئے آئے ہیں تحقیق مقصود نہیں ہے اس لئے میں نے کہا جناب عالی! ہمیں ان کی قبر سے کیا سروکار ہے۔ کیا ہم نے اس قبر کی عبادت کرنی ہے؟ اس پر شیخ نے اپنے شاگردوں کی طرف معنی خیز نظر سے دیکھا اور مجھے کہا کہ نہیں ہمیں اس سوال کا جواب معین مطلوب ہے۔ میں نے کہا کہ جب قرآن مجید نے حضرت مسیح کی وفات کا ذکر فرمادیا ہے تو ہمارے لئے یہ کافی ہے۔ ہمیں وفات مسیح پر ایمان لانا چاہئے۔ قبر ان کی کہاں ہے اس کا علم ضروری نہیں۔ میں قرآن پاک سے وفات مسیح ثابت کر دیتا ہوں۔ اس پر شیخ صاحب اور تیز ہو گئے اور کہنے لگے کہ میں تو صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں قبر کی نشاندہی کریں ہم اور کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔ پھر شاگردوں سے کہنے لگے کہ کیا میں نے نہ کہا تھا کہ قادیانی مبلغ اس سوال کا جواب نہ دے سکے گا۔پھر اپنے طلباء سے پوچھا کہ تم نے الخلیل شہر دیکھا ہے وہاں نبیوں کی قبریں دیکھی ہیں؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا ۔ شیخ نے کہا کہ وہاں مسیحؑ کی قبر ہے؟ طلباء نے کہا کہ نہیں اس پر استاد نے کہا اِذًا ھُوَ حَیٌّ فِی السَّماءِ یُرْزَقُ کہ تب ماننا پڑے گا کہ مسیح آسمان پر زندہ ہیں۔ پھر شیخ نے مجھے کہا کہ آپ کو ضرور بتانا چاہئے کہ مسیح کی قبر کہاں ہے؟ ہم اور بات نہیں کریں گے۔ جب بات اس مرحلہ تک پہنچ گئی تو میں نے کہا۔ اگر چہ یہ ضروری سوال نہیں اور قرآن مجید کے اعلان وفات مسیح کے بعد ہم پر قبر کی نشاندہی کی ذمہ داری نہیں ہے لیکن آپ کی ضد کو توڑنے کے لئے میں کہتا ہوں اِنَّ قَبْرَ عِیْسٰی فِی جَنْبِ قَبْرِ نُوْح حضرت مسیحؑ کی قبر حضرت نوحؑ کی قبر کے پہلو میں ہے۔ اس پر شیخ بھی اور شاگرد بھی میرے منہ کی طرف دیکھنے لگ گئے اور پوچھنے لگ گئے اَیْنَ قَبْرُ نُوْحٍ کہ نوح کی قبر کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ مسیح کی قبر کے دائیں جانب۔ وہ اور حیران ہوئے۔ میں نے طلباء سے پوچھا کہ کیا الخلیل میں تم نے نوح کی قبر دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا اِنَّ قَبْرَ عِیْسٰی فِی جَنْبِ قَبْرِ نُوْح پھر نوح آسمان پر زندہ ہوں گے۔ اب اس الزامی جواب پر شیخ عبداللطیف العبوشی بھی ششدر رہ گئے آخر کہنے لگے کہ اچھا بھئ بتاؤ تو سہی کہ آپ کے عقیدہ کے مطابق مسیح کی قبر کہاں ہے؟ تب میں نے انہیں آیت قرآنی وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَىٰ رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (المومنون:51) کی تفسیر کرتے ہوئے بتایا کہ مسیح سری نگر میں دفن ہیں۔ اس پر وہ خاموش ہو کر چلے گئے۔

(واقفین زندگی کے ساتھ الہٰی تائیدات و نصرت کے ایمان افروز واقعات،مصنف ڈاکٹر افتخار ایاز ، صفحہ: 283۔285 )

حضرت قاضی محمد نذیر فاضل لائلپوری
(سابق ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ)

آپؓ فرماتے ہیں۔
ایک دفعہ میرا مباحثہ ختم نبوت کے موضوع پر اپنے گاؤں موضع کوردوال ضلع سیالکوٹ میں پیر نامی نادر شاہ صاحب سے جو سمبڑیال کے رہنے والے تھے۔ جب پیر صاحب بحث میں عاجز آگئے تو انہوں نے ایک مولوی کو کھڑا کردیا اور اسے کہا کہ تم یہ کہو کہ میں اسی طرح خدا کا نبی ہوں جس طرح مرزا صاحب نبی ہیں اور پیر صاحب نے کہا کہ اب اسے جھوٹا ثابت کرو۔ اس پر میں اٹھا اور مجمع کو مخاطب کر کے کہا دوستو! خدا کا شکر ہے کہ جو مسئلہ میرے اور پیر صاحب کے درمیان زیر بحث تھا وہ حل ہو گیا۔ بحث یہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپﷺ کی امت میں نبی آسکتا یا نہیں۔ پیر صاحب نے تسلیم کر لیا ہے کہ آسکتا ہے جو یہ دیکھئے پیر صاحب کا نبی جو سامنے کھڑا ہے۔ آپ یہ مان گئے ہیں کہ نبی آسکتا ہے ۔تبھی تو انہوں نے آپ سب لوگوں کے سامنے مولوی صاحب سے نبوت کا دعویٰ کرایا ہے۔ اب یہ چاہتے ہیں کہ میں اسے جھوٹا ثابت کروں مگر مجھے اسے جھوٹا ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے نہیں بھیجا بلکہ پیر صاحب نے ان سے دعویٰ کرایا ہے اور خود پیر صاحب بھی اسے دعویٰ میں جھوٹا جانتے ہیں اور یہ شخص خود بھی اپنے آپ کو اس دعویٰ میں جھوٹا سمجھتا ہے اور آپ سب لوگوں کے نزدیک بھی یہ جھوٹا ہے لہٰذا اس کو جھوٹا ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔

اس پر پیر صاحب نے کہا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ جس آیت قرآنیہ سے تم اسے جھوٹا ثابت کرو گے اسی آیت سے میں مرزا صاحب کو جھوٹا ثابت کردوں گا۔ اس پر میں نے کہا لیجئے پیر صاحب میں ایک آیت پیش کرتا ہوں جو پیر صاحب کے پیش کردہ جھوٹے نبی کو جھوٹا ثابت کردے گی اور حضرت مرزا صاحب بانئ سلسلہ احمدیہ یہ اس آیت کی رو سے سچے ثابت ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ بنی اسرائیل میں فرماتا ہے وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل : 16)کہ ہم اس وقت تک عذاب بھیجنے والے نہیں یہاں تک کہ ہم کوئی رسول مبعوث کر لیں۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول پہلے مبعوث ہوتا ہے اور عذاب اس کے بعد آتا ہے۔ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ سے پہلے امن و امان تھا۔ آپؑ کے دعاوی کے بعد پے درپے عذابوں کا سلسلہ شروع ہوا کہیں طاعون کی صورت میں،کہیں زلازل کی صورت میں مگر پیر صاحب کا یہ جھوٹا مدعی نبوت عذابوں کے اس سلسلہ کے بعد دعویٰ کر رہا ہے۔ لہٰذا یہ آیت پیر صاحب کے مدعی کو جھوٹا ثابت کرتی ہے اور حضرت مرزا صاحب کو اپنے دعویٰ میں سچا ثابت کر رہی ہے۔

میرے اس آیت کو پیش کرنے پر پیر صاحب مبہوت رہ گئے اور انہیں کوئی جواب نہ سوجھا۔ اس مجلس میں انہوں نے ایک غیر از جماعت دوست کو اپنی طرف سے ثالث بھی بنایا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پر اس گفتگو کا گہرا اثر ہوا اور وہ احمدیت میں داخل ہو گیا۔ فالحمد للّٰہ علی ذالک

(واقفین زندگی کے ساتھ الہٰی تائیدات و نصرت کے ایمان افروز واقعات،مصنف: ڈاکٹر افتخار ایاز ، صفحہ: 289۔290)

حضرت مفتی محمد صادق ؓ

ایک دفعہ انگلستان میں نہایت کامیابی اور عمدگی سے تبلیغ اسلام کے فرائض بجالانے کے بعد جب مفتی صاحب امریکہ تشریف لے گئے تو جہاز سے اُترتے ہی محکمہ امیگریشن کے افسروں سے واسطہ پڑا۔ انہوں نے مفتی صاحب سے پوچھا۔
افسر: آپ کا نام کیا ہے اور آپ کون ہیں؟
صادق :میرا نام محمد صادق ہے۔ میں مسلمان ہوں اور ہندوستان کا باشندہ ہوں۔
افسر:آپ کہاں سے آئے ہیں؟
صادق: میں پہلےہندوستان سے انگلستان آیا اور وہاں سے یہاں آیا ہوں۔
افسر: یہاں آپ کیوں آئے ہیں؟
صادق: تبلیغ اسلام کرنے کے لئے۔
افسر: آپ کو نسی الہامی کتاب کو ماننے والے ہیں؟
صادق: قرآن مجید کو جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوا۔
افسر: اس میں تو چار تک بیویاں کرنے کا حکم ہے۔
صادق:حکم نہیں، اجازت ہے۔
افسر: پھر آپ اس ہمارے ملک میں بھی لوگوں کو یہی تعلیم دیں گے کہ چار بیویاں کرو۔
صادق: تعلیم دینے کے لئے اور بہت سی باتیں ہیں جو4 بیویاں کرنے سے بھی بہت زیادہ ضروری اور اہم ہیں۔ مثلا ًیہ کہ ایک اکیلے اور واحد خدا کی پرستش کرو۔ کسی کو اس کا شریک، ساجھی اور ہمسر نہ بناؤ، کسی انسان کو خدا نہ سمجھو۔ رہ گئی 4 بیویوں والی بات تو ہمارے مذہب میں ایک شخص ایک بیوی کر کے بھی ایسا ہی سچا اور پکا مسلمان رہتا ہے جیسا 4 بیویاں کرنے پر۔ ہمارا مذہب ہر گز یہ بات نہیں کہتا کہ ضروری ہی 4 بیویاں کرو۔ بلکہ محض اس کی اجازت دیتا ہے کہ اگر حالات کا اقتضاء ہو تو4,3,2 بیویاں کر سکتے ہو۔ بشرطیکہ ان میں عدل و انصاف پورا قائم رکھو۔ 4 بیویاں کرنے کا مسئلہ نہیں ہے جس پر ایمان اور اسلام کی بنیاد ہو۔ اور جس کے بغیر آدمی مسلمان ہی نہ ہو سکتا ہو۔ تمام دنیا ئے اسلام میں لاکھوں ایسے انسان ہیں جو صرف ایک ہی بیوی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 2بیویاں کرنے والے نسبتاََ کم تعداد میں ہیں اور3 یا4 بیویاں کرنے والے تو بہت ہی کم ہیں۔ اگر یہ حکم اسلام میں ضروری ہوتا تو پھر ہر مسلمان کے لازماً 4بیویاں ہوتیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

افسر: خواہ کچھ بھی ہو۔ ہم آپ کو اپنے ملک میں رہنے کی اور تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ آپ فوراً واپس چلے جائیں۔
صادق: یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ میں واپس نہیں جاؤں گا۔ مجھے امریکہ میں تبلیغ کرنی اور لوگوں کو مسلمان بنانا ہے۔ پھر کس طرح واپس چلا جاؤں۔
افسر: اچھا اگر آپ واپس جانا نہیں چاہتے تو آپ کو نظر بند رہنا پڑےگا۔ ہم آپ کے متعلق افسران بالا کو رپورٹ کرتے ہیں وہاں سے جیسا حکم آئےگا اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔
صادق : مجھے یہ بات منظور ہے۔ مگر میں واپس نہیں جاؤں گا۔

اس گفتگو کے بعد ان لوگوں نے مفتی صاحب کو ایک مکان میں بند کردیا۔ جس سے باہر نکلنے کی ممانعت تھی۔ مگر چھت پر ٹہل سکتے تھے۔ اس کا دروازہ دن میں صرف دو مرتبہ کھلتا تھا۔ جبکہ کھانا کھلایا جاتا تھا۔اس مکان میں کچھ یورپین بھی نظر بند تھے۔ جو عموماً نو جوان تھے اور پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت تک کے لئے نظر بند کردیئے گئے تھے۔ جب تک حکام کی طرف سے ان کے متعلق کوئی فیصلہ ہو۔ یہ لوگ مفتی صاحب کا بڑا ادب کرتے تھے۔ اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ ان کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ بھی انہوں نے بنادی تھی۔اور برابر خدمت کرتے تھے۔موقعہ سے فائدہ اٹھا کر مفتی صاحب نے ان نوجوانوں کو تبلیغ کرنی شروع کر دی۔ جس کا نتیجہ الحمد للہ بڑا اچھا نکلا یعنی ایک ایک دو دوکرکے پندرہ آدمی مسلمان ہو گئے۔

جب محکمہ کے افسر کو اس بات کا پتہ لگا تو وہ بڑا گھبرایا اور سوچنے لگا کہ یہ تو بڑا خطرناک آدمی ہے۔ اس طرح تو یہ آہستہ آہستہ سارے نظر بند نوجوانوں کو مسلمان کر لے گا۔ اور جب شہر کے پادری صاحبان کو اس کا علم ہو گا تو وہ سخت ناراض ہوں گے۔ اور شہر کی ساری پبلک کو میرے خلاف کر دیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ میں آئندہ انتخاب میں کامیاب نہیں ہو سکوں گا۔ اس نے خیال کیا کہ اب خیر اسی میں ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے اس شخص کو یہاں سے نکالنا چاہئے۔ورنہ بدنامی بھی ہوگی اور نقصان بھی۔
اس پر اس نے فوراً افسران اعلیٰ کو تاردیئے کہ جس قدر جلد سے جلد ممکن ہو اس شخص کو جو ہندوستان سے آیا ہے اندرونِ ملک میں داخل ہونے کا فیصلہ کر دیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حکام نے یہی فیصلہ کیا کہ مسٹر صادق کے داخلہ امریکہ میں کوئی ہرج نہیں۔ انہیں چھوڑ دیا جائے۔

افسر متعلقہ نے اس حکم کی تعمیل میں ایک منٹ کی بھی دیر نہ لگائی۔ مفتی صاحب کو فوراً رہا کردیا۔خدا تعالیٰ کی حکمتیں اور طاقتیں عجیب ہیں۔

(لطائف صادق، مرتبہ،شیخ محمد اسمعیل پانی پتی، صفحہ: 39۔41)

مکرم مولانا عطاءاللہ کلیم

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ہر خادم میدان جہاد میں ایسے متعدد واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے جو ایک طرف اسلام اور احمدیت کی صداقت اور تائیدِخداواندی کا ثبوت ہوتے ہیں، ذیل میں ایک واقعہ جو آپ کے ساتھ ہوا پیش کیا جاتا ہے۔مولانا صاحب فرماتے ہیں۔

ایک واقعہ جو ہر احمدی کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث ہے وہ 1973ء کا ہے۔جماعتِ احمدیہ گھانا کا مرکز آغاز مشن سے ہی سالٹ پانڈ کا قصبہ تھا جو اَکرا دارالحکومت سے 73 میل کے فاصلہ پر ہے۔ وہاں ایک دن ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ رسیور اٹھانے پر معلوم ہوا کہ ٹیلیفون OSU CASTLE اَکرا سے ہے جو ہیڈ آف دی سٹیٹ یعنی صدرِ مملکت کا دفتر ہے پیغام یہ تھا کہ صدر مملکت نے خاکسار عطاء اللہ کلیم امیر جماعت ہائے احمدیہ گھانا کو دوسرے دن 10 بجے صبح اپنے دفتر میں بلایا ہے۔ جمہوریہ گھانا کے صدرِ مملکت کی طرف سے بلاوا آنے پر فکر دامن گیری ہوئی کہ کہیں کسی اور ہسپتال کے متعلق شکایت نہ کر دی گئی ہو یا جماعت کے خلاف کسی نے صدر مملکت کے کان نہ بھر دئیے ہوں۔بہرحال مختلف خیالات آکر پریشانی کا باعث بنے ۔تا ہم مومن کا کام چونکہ ہر مشکل مرحلہ پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا اور اسی سے ردِّبلا اور نصرت و تائید کے لئے فریاد کرنا ہے اس لئے حتی المقدور دعا کی گئی۔

دوسرے دنOSU CASTLE پہنچا تو تمام متعلقہ افسران وغیرہ انتظار میں تھے اور خاکسار درجہ بدرجہ مراحل سے گزرتا ہوا صدر مملکت کے پرسنل سیکرٹری کے پاس جو ایک لیفٹیننٹ کرنل تھے پہنچا ۔ تمام افسران بڑے تپاک سے ملتے اور خوش آمدید کہتے رہے۔پرسنل سیکریٹری صاحب خاکسار کو صدر مملکت کے ملاقات کے کمرہ میں لے گئے اور وہاں بٹھا کر فو را چلے گئے۔

اب کمرہ میں صدر مملکت اور خاکسار کے علاوہ کو ئی نہیں تھا ۔ صدر مملکت بھی نہایت عزت سے پیش آئے اور گفتگو کا آغاز اس طرح کیا کہ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ میرے خلاف کچھ سازشیں اور ریشہ دوانیاں ہو رہی ہیں آپ میرے لئے دعا کریں اور جماعت ِ احمدیہ کے سپریم ہیڈ یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعا لیٰ بنصرہ العزیز امام جماعتِ احمدیہ کو بھی لکھیں کہ وہ میرے لئے دعا فرمائیں ۔

خاکسار نے ان کے لئے دعا کا وعدہ کیا اورحضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی خدمت میں پہلے تار کے ذ ریعہ اور پھر تفصیلی خط میں دعا کی در خواست کی۔

چنانچہ حضور انور کی طرف سے جواب ملا کہ دعا کی گئی ہے۔ما ہ ڈیڑھ ماہ کے بعد حکومت کی ایک فیکٹری کے افتتاح کی رسم ادائیگی کے لئے صدر مملکت H.E.COL. I.K.ACHEAM PONG سالٹ پا نڈ تشریف لائے اور معززین قصبہ کی ان سے ملا قات ہوئی تو خاکسار نے صدر مملکت کو بتایا کہ ان کا مفوضہ کام کر دیا گیا تھا ۔ خدا کا شکر ہے کہ اس وقت تک ان کی جملہ پریشانیاں دور ہو چکی تھیں ۔اس کے بعدحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بابرکت دعاؤں کے نتیجہ میں اس صدر مملکت نے 1978ء تک یعنی 5،6 سال بڑی شان و شوکت سے حکومت کی اور جولائی 1978ء میں بعض وجوہ کی بناء پر خود استعفیٰ دے کر حکو مت سے الگ ہوگئے ۔

یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے اپنے قائم کردہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کو کس قدر عزت عطا فرمائی ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے خادموں کے ایک خادم کو گھانا جیسے اہم ملک کے صدر مملکت خود بلا کر درخواست کرتے ہیں کہ ان کے لئے دعا کی جائے۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک ۔

(واقفین زندگی کے ساتھ الہیٰ تائیدات و نصرت کے ایمان افروز واقعات، مصنف: ڈاکٹر افتخار ایاز ، صفحہ: 408۔409)

محترم نسیم احمد باجوہ

آپ بتاتے ہیں۔
ایک واقعہ برمنگھم میں ہوا۔ 1992تا2001ء کے عرصہ میں خاکسار برمنگھم میں بطور ریجنل مشنری مڈلینڈ متعین تھا۔ اس دوران ایک دفعہ معلوم ہوا کہ ہمارے احمدی بھائی ڈاکٹر سرفراز علی ہسپتال میں داخل ہیں اور مختلف عوارض کے ساتھ ساتھ اس وقت انہیں ہچکی کی تکلیف ہے جو مسلسل کئی روز سے چل رہی تھی اور ڈاکٹروں کے ہر قسم کے علاج کے باوجود قطعاً کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ ایک روز نماز عصر کے بعد خاکسار نے مکرم ملک نثار احمد صاحب سیکرٹری ضیافت برمنگھم جو نماز کے لئے آئے ہوئے تھے انہیں ساتھ لیا اور ہم عیادت کے لئے ہسپتال چلے گئے مکرم ڈاکٹر سرفراز علی صاحب بستر پر سر اوپر کرکے لیٹے ہوئے تھے اور ان کی اہلیہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ مکرم ڈاکٹر صاحب مسلسل ہچکی بھی لے رہے تھے اور ساتھ ہی ان کے پیٹ میں شدید درد تھا۔ ان کی اہلیہ انہیں پیٹ پر مل کر یا دبا کر آرام دلانے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن کوئی آرام نہیں آرہا تھا جب ہم پہنچے تو مکرم ڈاکٹر صاحب نے اپنی بیوی کو کہا کہ آپ ذرا چھوڑدیں اور مربی کو پیٹ پر ہاتھ رکھ کر دعا کرنے کے لئے کہا تو خاکسار نے سب کو کہا کہ آئیں ہم سب مل کر دعا کریں خاکسار کو چند سال پہلے والا متین صاحب کا واقعہ بھی یاد تھا۔ 20,15 منٹ کے بعد دوران دعا ہم نے سنا کہ مکرم ڈاکٹر صاحب کی ہچکی اور کراہنے کی آواز بند ہو گئی ہے اور وہ خراٹے لے رہے ہیں مسلسل ہچکی کی وجہ سے کئی روز سے چونکہ وہ پوری طرح سو نہیں سکے تھے اس لئے جونہی انہیں ہچکی سے آرام ملا وہ بے اختیار ہو کر سو گئے اور اتنی گہری نیند میں چلے گئے کہ خراٹے لینے لگے۔ ہم نے دعا ختم کی، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور خاموشی سے واپس آگئے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو جماعت احمدیہ کے افراد کو خلافت سے وابستہ ہونے کے نتیجہ میں ملتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ خلافت کے ذریعہ ہی مومنوں کے دین کو مضبوطی حاصل ہوتی ہے۔ خوف کو امن میں بدلا جاتا ہے۔ پس ہمیں ہر وقت دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کے ساتھ ایسے رنگ میں وابستہ رہنے کی توفیق دے کہ جو اس کا حق ہے۔ آمین۔

2001ء سے 27 اگست 2007ء تک خاکسار بریڈ فورڈ میں بطور ریجنل مشنری نارتھ ایسٹ انگلینڈ متعین تھا۔ اس دوران بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کے بہت سے جلوے دکھائے ہیں خاکسار نے کئی سال قبل ایک خواب میں دیکھا کہ حج بیت اللہ کر رہا ہوں۔ اس وقت سے دل میں خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کوئی سامان فرمادے چنانچہ 2004ء میں غیبی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کا انتظام فرمادیا۔ خاکسار نے حضور انور کی خدمت میں اجازت اور دعا کے لئے درخواست کی ۔حضور نے دعاؤں کے ساتھ اجازت عطا فرمادی۔ اس سفر کے دوران بہت سے معجزے ہوئے لیکن یہاں صرف دو واقعات عرض کرتا ہوں۔ پہلا واقعہ تحریر ہے کہ ان دنوں خاکسار دائیں گھٹنے کے درد میں مبتلا تھا اور یہ درد تقریباً 6 ماہ سے چل رہی تھی اور یہ اس قدر شدید درد تھی کہ خاکسار مسلسل روزانہ کئی ماہ سے دوائی کھار رہا تھا اور اگر کسی روز غلطی سے دوائی رہ جاتی تو اگلے روز خاکسار کرسی پر بیٹھ کر ہی نماز پڑھتا تھا اور کسی اور دوست کو نماز پڑھانے کے لئے درخواست کرتا۔ اسی حالت میں خاکسار حج کے لئے روانہ ہو گیا اور ساتھ یہ ڈر تھا کہ پتہ نہیں اس تکلیف کے ساتھ صحیح طور پر حج کر بھی سکوں گا یا نہیں۔ لیکن خدا کا بہت بڑا احسان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حج کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچنے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد اس تکلیف سے نجات دے دی۔ دوائی بھی چھوڑ دی۔الحمد للہ تین سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے آج تک کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔

ایک اور واقعہ یہ ہوا کی اس حج کے اخراجات ایک احمدی دوست نے برداشت کئے تھے۔ روانگی سے چند روز قبل انہوں نے ایک مسئلہ کے متعلق خاکسار کو دعا کے لئے کہا اور جب کہہ رہے تھے وہ اتنی تکلیف میں تھے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ خاکسار کو ان کی تکلیف کا بشدّت احساس تھا چنانچہ خاکسار اس سفر کےدوران مسلسل ان کے لئے دعا کرتا رہا کتابوں میں پڑھا ہواتھا کہ خانہ کعبہ کو پہلی نظر دیکھنے کے وقت جو دعا کی جائے وہ قبول ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جب پہلی دفعہ خانہ کعبہ کے سامنے دعا کے لئے کھڑا ہوا تو علاوہ اور دعاؤں کے اس دوست کے اس مسئلہ کے لئے بھی دعاشروع کی۔ دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے خدا !یوں تو تُو جس وقت چاہے ان کے اس مسئلہ کو حل کر سکتا لیکن اگر یہ مسئلہ حج کے دنوں میں حل ہو جائے تو مجھے بھی ایک نشان ملے گا اور دوست کو بھی ایک نیا ایمان حاصل ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانی کو بھی قبول فرمایا ہے۔ چنانچہ حج کرنے کے بعد جب خاکسار لاہور پہنچا تو اس دوست کا ٹیلیفون آیا اور انہوں نے انتہائی مسرت اور جذبات تشکر کے ساتھ خاکسار کو اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ نہایت اہم اور پیچیدہ مسئلہ عین منشا کے مطابق حل ہو گیا ہے اور ماشاء اللہ وہ بہت خوش اور مطمئن تھے۔ الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ۔

(واقفین زندگی کے ساتھ الہٰی تائیدات و نصرت کے ایمان افروز واقعات، مصنف: ڈاکٹر افتخاراحمد ایاز ، صفحہ:745۔747)

(ہارون احمدعطاء۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کی ڈاک

اگلا پڑھیں

نصیحت آموز واقعات