گفتگو، بات چیت کی ایک قسم ہے جو دویا زائد افرادکے درمیان ہوتی ہے۔ گفتگو انسانی افکار،خیالات اور اعتقادات کو دوسروں تک پہنچانے کا آسان اور اہم ترین ذریعہ ہے ۔ گفتگو کے دوران دو فریقین کے درمیان باتوں کا تبادلہ برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے ۔جس میں کسی کو دوسرے پرفوقیت یا برتری نہیں ہوتی بلکہ وہ باہم ایک خوشگوار ماحول میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں ۔یعنی وہ کسی خطیب یا مقرر کے طور پر گفتگو میں شامل نہیں ہوتے بلکہ ہر شخص دوسرے کے خیالات سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ گفتگو کا فن ہر زمانے میں تعلقاتِ عامہ کا اہم جزو رہا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک شخص ارسطو کے پاس آیا اور کافی دیر خاموش بیٹھا رہا ۔ ارسطو نے اس سے کہا کہ تُو میرے ساتھ کچھ گفتگو کر تاکہ میں تجھے جان سکوں ۔اسی حقیقت کو ایک فارسی شعر میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ؎
تا مرد نہ گُفتہ باشد
عیب و ہُنرش نَہفتہ باشد
یعنی جب تک انسان گفتگو نہیں کرتا اُس کے عیب اور خوبیاں چُھپی رہتی ہیں گویا گفتگو کسی بھی انسان کے تعارف کا بہت بڑا ذریعہ ہے جس سے اُس کے کردار اور حسن اخلاق کو شناخت کرنے میں مدد ملتی ہے ۔یہ حسن اخلاق یا حسن گفتار ہی ہے جو انسان کو لوگوں میں ہر دلعزیز اور مقبول بنا دیتی ہے اور وہ میدانِ عمل میں کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے جبکہ ایک بداخلاق اور بد تہذیب انسان دوسروں کی نگاہ میں حقیر اور ذلیل ہوجاتا ہے ۔ پس گفتگو کرتے وقت فریقین کو اپنی زبان پر کنٹرول رکھنا چاہئے تاکہ ان کی گفتگو سے باہمی اخوت و محبت میں اضافہ ہو اور گفتگو کے اختتام پر آپسی تعلق اور میل جول بڑھے ۔اچھی زبان کے استعمال سے انسان کسی کے دل میں جگہ بنالیتا ہے اور ناپسندیدہ گفتگو اُسے کسی کے دل سے نکال بھی سکتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے مقدر میں مسلسل محنت رکھ دی ہے جو محنت کرتا ہے وہ بالآخر کامیاب ہوتا ہے اور اُسے بلندیاں عطا ہوتی ہیں۔پس ان بلندیوں کی طرف محو پرواز ہونے کے لئے اپنی زبان کو سدھارنا اور اُس کو حسن کلام کے زیور سے آراستہ کرنا از حد ضروری ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے۔ترجمہ: یقیناً مومن کامیاب ہوگئے ۔ وہ جو اپنی نمازوں میں عاجزی کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں ۔(المومنون:4-2) انسان کی زبان سے نکلنے والی مختلف بولیوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا نشان قرار دیا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا۔ وَمِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَ اَلْوَانِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ (الرّوم:23) ترجمہ: اور اس کے نشانات میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کے اختلاف بھی۔ یقینا اس میں عالموں کے لئے بہت سے نشانات ہیں۔
اگرچہ ہر انسان کا لہجہ، تلفظ اور طرزِ گفتگو دوسرے سے مختلف ہے۔ اُن کے رنگ اور بولیاں مختلف ہیں لیکن ان کی گفتگو کے اعضاء ایک جیسے ہیں۔ اُن کے منہ اور زبان کی ساخت ایک جیسی ہے جبکہ اُن کے دماغ کی ساخت میں بھی کوئی فرق نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اچھی گفتگو کا طریق بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ:84) اور لوگوں سے نیک بات کہا کرو۔ قرآن شریف کے ایک اور مقام پر اچھے کلمے اور اچھی گفتگو کو ایک مثال کے ذریعہ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
ترجمہ: کیا تونے غور نہیں کیا کہ کس طرح اللہ نے مثال بیان کی ہے ایک کلمہ ٔ طیّبہ کی ایک شجرۂ طیّبہ سے۔ اس کی جڑ مضبوطی سے پیوستہ ہے اور اس کی چوٹی آسمان میں ہے۔ وہ ہر گھڑی اپنے ربّ کے حکم سے اپنا پھل دیتا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ (ابراھیم:26-25)
پنجابی کا ایک مقولہ ہے : ’’زبان شیریں ملک گیری‘‘ یعنی اگر زبان میٹھی ہوتو انسان حکومت کر سکتا ہے۔ سندھی زبان کی ایک کہاوت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ زبان ہے تو چھوٹی سی مگر بگڑے تو وہ بِس (زہر) کی گانٹھ بن جاتی ہے۔ انگریزی میں مثل مشہور ہے Think before you speak یعنی پہلے سوچیں پھر بولیں۔ زبان اگرچہ ایک چھوٹی سی اور خفیف وزن چیز ہے مگر اس کو قابو میں رکھنے کا فن ہر کوئی نہیں جانتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو انسان اپنی زبان کو قابو میں رکھنے کا فن جان لیتاہے وہ ہر جگہ عزت پاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے۔ اچھی بات کہنا خاموشی سے بہتر ہے اور خاموش رہنا بری بات کہنے سے بہتر ہے۔
(شعب الایمان جلد 4صفحہ 256۔حدیث نمبر 4993)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’تقویٰ تمام جوارح انسانی اور عقائد، زبان، اخلاق وغیرہ سے متعلق ہے نازک ترین معاملہ زبان سے ہے ۔بسا اوقات تقویٰ کو دُور کرکے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہوجاتا ہے کہ مَیں نے یُوں کہا اورایسا کہا، حالانکہ وہ بات بُری ہوتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 280)
انسانی کردار کی تعمیر میں اس کی گفتگو بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔اسی کے ذریعہ معاملات کو خوش اسلوبی سے حل بھی کیا جاسکتا ہے اور بگاڑا بھی جاسکتا ہے ۔ اگر انسان اپنی زبان کو کنڑول کرنے کا ملکہ حاصل کرلے اور اپنی گفتگو کو اچھے پیرائے میں بیان کرنا سیکھ لے تو وہ بہت سی الجھنوں اور پریشانیوں سے بچ سکتا ہے ۔ گفتگو کے دوران اچھے الفاظ کاچناؤ جہاں انسان کے مقام ومرتبہ کو بلند کرتے ہیں وہیں غیر مناسب الفاظ کے استعمال سے اس کی عزت گھٹ جاتی ہے۔ عربی زبان کا ایک مشہور محاورہ ہے۔ اَلْلِسَانُ مَرْکُوْبٌ ذَلُوْل۔ زبان سدھائی ہوئی سواری ہے یعنی اسے درست کرنا اپنے اختیار میں ہے ۔پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی گئی اس نعمت سے صحیح رنگ میں فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے اپنی زبان کو ہمیشہ کنٹرول میں رکھا جائے ۔ ہمارے کسی لفظ سے کسی کی دل آزاری نہ ہو،کسی کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے،ہماری گفتگو خوشامد اور خود ستائی سے ہٹ کر ہمیشہ کلمہ خیر پر مشتمل ہو کیونکہ ہماری زبان سے جو لفظ ادا ہوتے ہیں اُنہیں لکھنے اور شمار کرنے والے بہت مستعد ہیں۔ مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ (قٓ:19) وہ کوئی بات نہیں کہتا مگر اس کے پاس ہی (اس کا) ہمہ وقت مستعد نگران ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کون سا مسلمان بہتر ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ۔
(صحیح مسلم۔ کتاب الایمانبَاب بَیَانِ تَفَاضُلِ الْاِسْلَامِ وَ أَیُّ أُمُورِہِ أَفْضَلُ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں چوتھی شرط یہ بیان فرمائی ہے کہ ’’چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔‘‘
(اشتہار تکمیل تبلیغ 12؍جنوری 1889ء)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر آن ہماری مدد اور رہنمائی فرمائے۔ آمین
(ظہیر احمد طاہر۔جرمنی)