میری والدہ مکرمہ صاحبزادی امۃ الحئی کی وفات مئی 2018ء میں 70سال کی عمر میں ہوئی۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
امی نے اپنی بیماری کا بہت جرأت سے مقابلہ کیا ۔دسمبر2016ء میں امی کو جگر کے کینسر کی تکلیف لاحق ہوئی۔لندن میں ایک سال تک ان کا آپریشن اور دوائیوں سے علاج ہوتا رہا۔علاج کے دوران ان کی سوچ مثبت رہی اور اللہ پر کامل یقین تھا۔ ایک سال بعد ڈاکٹروں نے جواب دے دیا کہ مرض بڑھ گیا ہے اور مزید علاج نہیں ہے۔اس بات سے شروع میں امی کی طبیعت پر قدرتی ایک اثر ہوا۔لیکن اللہ کے احسانات کا ذکر نرس سے کیا کہ میں نے الحمد للہ بہت اچھی زندگی گزاری ہے اوراللہ تعالیٰ کا مجھ پر اتنا فضل ہوا ہے،لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر ہے تو میں اس پر راضی ہوں۔میں ساتھ بیٹھی سب کچھ سنتی رہی ، امی کی آواز میں کوئی کمزوری نہ تھی ۔
یہ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امی کو ایک بھرپور خوشحال زندگی دی۔لیکن جب میں ان کی زندگی کے بارے میں سوچتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں کہ کیسے اللہ نے ان کو ہمت و طاقت دی تھی کہ مشکل کام بھی خود آسانی سے کرلیتی تھیں۔امی کی وفات کے ایک سال بعد بھی میر اغم تازہ ہےلیکن جیسا کہ میں نے اپنی امی سے سیکھا کہ محض اللہ کے فضل اور دعاؤں سے اللہ ساری مشکل آسان کر ے تاکہ میں امی کو درد و غم کے بغیر یاد کروں۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ امی کی کون سی بات زیادہ یاد ہے تو میں جواب دوں گی کہ ان کی دعائیں۔مجھے بچپن سے یاد آتا ہے کہ کیسے امی رات کو تہجد کے لئے اٹھا کرتی تھیں اور پھر صبح اٹھ کر گھر کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد 11بجے دوبارہ نوافل شروع کر دیتیں۔بچپن میں مجھے دعاؤں کی طاقت کا زیادہ احساس نہ تھا اور مجھے سمجھ نہ آتی کہ امی کیوں اتنے دردسے کس چیز کے لئے دعائیں کرتی ہیں۔اب جب میں بڑی ہوئی ہوں تو احساس ہوا کہ زندگی میں ہر چیز کے لئے اللہ سے دعاؤں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور یہی ایک حربہ میری امی نے مجھے سکھایا۔آخری بیماری میں بھی جب میں امی کے پاس بیٹھتی تو امی مجھ سے کہتیں کہ ’’تم اپنے بچوں کے لئے بہت دعائیں کیا کرو۔‘‘
میرے بھائی داؤد نے دبئی میں کچھ عرصہ کام کیا اس نے امی سے وعدہ کیا کہ 3سال بعد انگلینڈ واپس آ جائے گا اور داؤد نے اپنا وعدہ پورا کیا۔کئی لوگوں نے اظہار کیا کہ میری امی کو داؤد کو دبئی میں مزید عرصہ کام کرنے کی اجازت دینی چاہئے تھی تاکہ اس کا مستقبل بہتر بن سکے۔مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ہمارے کسی رشتہ دار نے امی کے سامنے ذکر کیا تو امی کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے بیٹے کے لئے بہت دعائیں کی ہیں اللہ میری دعاؤں کو ضرور سنے گا اور انشاء اللہ میرے بیٹے کو انگلینڈ میں بہت رزق ملے گا۔امی کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے داؤد کو اللہ تعالیٰ نے انگلینڈ کی ایک بہترین لاء فرم میں پارٹنر بنا دیا ۔امی کو اپنے خدا پر ایسا کامل یقین تھا ۔
امی کی عادت تھی کہ جب دیکھتیں کہ کسی کو مشورہ کی ضرورت ہے یا کوئی کمزوری ہے تو امی اتنے پیار سے ان کو سمجھاتیں کہ ان کو کسی قسم کی خفت محسوس نہ ہونے دیتیں ۔امی کو جواں نسل اور خاص کر نوجوان لڑکیوں کی بہت فکر ہوتی تھی۔مجھے یاد ہے کئی بار مجھے بھی کہتیں کہ اس لڑکی کے رشتہ کے لئے دعا کرو۔یا یہ لڑکی پریشان ہے کیونکہ اس کے ابھی تک اولاد نہیں اور امی بہت درد سے یہ کہتیں جیسا کہ ان کے اپنے بچے ہوں ۔امی کو الحمدللہ کئی بار اعتکاف بیٹھنے کا موقع ملا اور اعتکاف کے بعد بڑی خوشی کا اظہار کرتیں کہ اس بار اتنی جواں بچیوں نے اعتکاف کیا اور میں نے ان کو دعائیں کرنے کا طریقہ سیکھایا اور کہتیں کہ اللہ کرے کہ ان کی دعائیں قبول ہوں اور اعتکاف کے بعد ان بچیوں سے رابطہ میں رہتیں اور ان کی خوشی پر بہت خوش ہو جاتیں۔
آجکل کئی جوان لڑکیاں اور ان کے والدین لڑکیوں کے رشتے کا اس وجہ سے انکار کر دیتے ہیں کہ لڑکا کسی دوسرے ملک میں رہتا ہے اور پھر بعض لڑکیاں والدین کے گھر واپس آ جاتی ہیں کہ ہمارا نباہ نہیں ہوا اور نئی جگہ ،ماحول میں رہنا مشکل لگتا ہے۔امی کی پرورش پاکستان میں ہوئی تھی آپ اپنے ماں باپ کی ا کیلی بیٹی تھیں اور قدرتی طور پر ماں باپ نے بہت پیار دیا،بہت لاڈلی تھیں۔امی بیت خوش قسمت تھیں کہ انہوں نے شادی سے پہلے اپنی نانی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم ؓکے ساتھ بہت وقت گزارا اور دعائیں لیں ۔
1971ء میں میری امی کا رشتہ میرے والد مکرم ڈاکٹر حامد اللہ خان کے ساتھ ہوا جو ان دنوں انگلینڈ میں کام کرتے تھے اور شادی 10دن کے اندر ہوئی۔ان دنوں آجکل کی طرح انٹرنیٹ،واٹس ایپ،فیس بک وغیرہ کی سہولتیں نہ تھیں۔اگر آپ نے ملک سے باہر فون پر بات کرنی ہوتی توآپریٹر کے ذریعہ 2 منٹ کی کال پہلے سے بک کروانی پڑتی تھی،امی شادی کے فوراً بعد ابو کے ساتھ انگلینڈ چلی گئیں اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔امی اپنے والدین کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھیں۔امی نےبطور ایک اچھی بیوی،اچھی بہو اور اچھی ماں کے اپنی ذمہ داری احسن رنگ میں اداکی۔امی شروع میں اکیلی تھیں اورایک نئےملک یوکے کے شہر yorkshire میں بہت جلد زندگی گزارنے لگیں۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتی کہ اپنے والدین سے بات نہ کر سکتیں اور نہ massage دے سکتیں کیونکہ یہ سہولتیں میسر نہ تھیں ۔میں ذاتی طور پر بھی کہہ سکتی ہوں کیونکہ میں بھی شادی کے بعد لندن سے پاکستان آئی تھی لیکن موجودہ سہولتوں کی وجہ سے دوری کا احساس نہ ہوتا تھا۔قدرتی طور پر میرے رشتہ کی بھی امی کو فکر رہتی تھی۔ وہ مجھے ہمیشہ یاد دلاتیں کہ ’’اپنی قسمت کے لئے خود دعا کرو۔‘‘
میں شادی سے پہلے طبیعت کی تیز اور جذباتی تھی امی کو یہ فکر رہتی کہ اپنے سسرال میں کیسے گزارا کروں گی۔مجھے یاد ہے کہ کئی بار جب میں جذباتی ہوتی تو مجھے نصیحتاً کہتیں بیٹا! اپنی ساس سے ایسا نہ کرنا۔یہ نصیحت مجھے اب تک یاد ہے۔ امی کی یہی تربیت تھی جس نے مجھے بہت سہارا دیا اور میں اپنے سسرال میں آسانی سے adjust ہو گئی اور الحمد للہ میں شادی کے بعد بہت خوش ہوں ۔میری ساس مرحومہ فخریہ انداز میں لوگوں کو بتلاتی تھیں کہ میں امۃ الحئی کو شاباش دیتی ہوں کہ اس نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی ہے۔ اس کی بیٹی انگلینڈ سے پاکستان آئی ہے اور سب میں ایسی گھل مل گئی ہے کہ بالکل بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ باہر سے آئی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ امی کی تربیت ہی ہے کہ محض اللہ کے فضل سے میں ربوہ کے ماحول میں ڈھل گئی ہوں۔میں جب امی کی زندگی پر نظر دوڑاتی ہوں تو میں فخریہ کہہ سکتی ہوں کہ الحمدللہ امی کو جب بھی لجنہ اماء اللہ میں کام کرنے کا موقع ملا تو بہت جذبہ سے کام کیا۔لجنہ کے کام کے ساتھ ساتھ4 بچوں کی تربیت پر پوری توجہ دیتیں ۔یارک شائر میں بہت بڑے گھر کو دلہن کی طرح رکھا اور گھر کی صفائی اورسجاوٹ کا امی کو بہت خیال ہوتا ۔ اس کے علاوہ امی بہترین cook بھی تھیں۔ امی کو اپنی صفائی اور لباس کا اتنا احساس تھا کہ اپنی آخری بیماری میں صبح ہوتے ہی کہتیں کہ مجھے تیار کر کے نیا لباس پہنا دو۔
دوسری عورتوں کی طرح امی کو بھی شاپنگ کا بہت شوق تھا اور گھر کے لئے سجاوٹ کی چیزیں خریدتیں اور جب ربوہ آتیں تو اپنے نئے کپڑے خریدتیں۔لیکن سب سے اہم چیز چندہ کی بر وقت ادائیگی تھی اور ہمیشہ اس کوشش میں ہوتیں کہ تحریک جدید اور وقف جدید کی پوری ادائیگی نئے سال کے اعلان کے ساتھ ہی کر دیں۔آج بھی ہر کام کرنے سے پہلے میں سوچتی ہوں کہ امی یہ کام کیسے کرتی تھیں۔امی کی آخری بیماری کے دوران میرا چھوٹا بیٹا عوید جو بہت چھوٹا تھا اور میری توجہ چاہتا تھا۔ امی اس کو بتانےکے لئے مجھے اپنے ساتھ لگا لیتیں اور مجھے پیار کرتیں اور کہتیں عوید یہ میری بیٹی ہے اس کو تنگ نہ کرو،کاش وہ آج زندہ ہوتیں ایک ماں کی حیثیت سے میری ذمہ داریاں مجھے سمجھاتیں۔ امی کی جدائی کا درد اور غم ضرور ہے لیکن ہم اللہ کی رضا پر راضی ہیں اور میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ ان شاء اللہ تعالیٰ مجھے میرے والد کو اور میرے بہن بھائیوں کو یہ غم برداشت کرنے کی توفیق دے گا اور میں تین پیارے بچوں کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں ان کی صحیح تربیت کر سکوں جیسا کہ میری امی نے ہماری تربیت اور پرورش کی ۔میں پھر اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اللہ نے ہمیں ایک مثالی ماں دی اور بعض اوقات خیال آتا ہے کہ میری امی جلدی چلی گئیں ۔لیکن اللہ کی تقدیر کے آگے ہم مجبور ہیں۔ان کی وفات کا وقت آیا اور اس پر میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میری امی نے ایک مثالی زندگی گزاری۔
(صاحبزادی عطیۃ اللطیف)