قدیم سے سنت اللہ چلی آرہی ہے کہ جب دنیا ظَہَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْر (سورۃ الروم 42) کا مصداق ہو جاتی ہے اور علماء و عوام الناس دونوں ظلمت کی راہوں پر چل پڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایسے حالات کو دور کرنے کے لئے انبیاء کرام کو بھیجتا ہے جو لوگوں میں آکر ان کی اصلاح کرتے ہیں۔جب دنیا ظلمت و گمراہی میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے اپنے سب سے پیارے اور سب سے افضل نبی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بھیجا۔ آپ نے آکر گناہوں میں ڈوبی دنیا کو بخدا انسانوں میں تبدیل کرد یا اور یہ پیشگوئی فرمائی کہ جب آخری زمانہ میں دنیا دوبارہ گمراہی سے بھر جائے گی تو اللہ تعالیٰ مسیح موعود کو بھیجے گا اور ایمان جوثریا پر چلا گیا ہو گا وہ اسے وہاں سے واپس زمین پر لے کر آئیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے اس زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کو مسیح و مہدی بناکر بھیجا۔ آپؑ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے غلام صادق ہیں۔ آپؑ نے آکر دنیا میں دین اسلام کی تبلیغ اسی طریق پر کی جس طرح آپؑ کے آقا حضرت محمد ﷺ نے کی تھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:
ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ
(سورۃ الجمعۃ: 3،4)
ترجمہ: وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔ اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔
انبیاء کا ورثہ علم و عرفان ہے
حضرت ابو درداء ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء روپیہ پیسہ ورثہ میں نہیں چھوڑجاتے بلکہ ان کا ورثہ علم و عرفان ہے۔ جو شخص علم حاصل کرتا ہے وہ بڑا نصیبہ اور خیر کثیر حاصل کرتا ہے۔
(ترمذی کتاب العلم باب فی فضل فقہ)
تقسیمِ مال کی پیشگوئی
آنحضرت ﷺ نے آنے والے مسیح کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی کہ وہ مال لُٹائے گا لیکن کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔
(بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم)
اس مال سے مراد روحانی مال و خزائن ہیں۔ اس کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کو ئی ملے امیدوار
تائیداتِ الٰہیہ کا وعدہ
اللہ تعالیٰ نے الہاماً آپؑ کے کلام کی تائید و نصرت کا وعدہ فرمایا:
’’یا احمد فاضت الرحمۃ علٰی شفتیک۔ کلام اُفصحت من لّدن ربّ کریم۔‘‘
اے احمد! تیرے لبوں پر رحمت جاری ہے۔ تیرا کلام خدا کی طرف سے فصیح کیا گیا ہے۔
درکلام تو چیزے ست کہ شعررا ادران دخلےؔ نیست۔
تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں’’۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ105-106)
آپ ؑفرماتے ہیں: ’’میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہا تھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے‘‘
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3صفحہ403)
’’میں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا، اگر خدا تعالیٰ کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو۔بار ہا لکھتے لکھتے دیکھا ہے۔ ایک خدا کی روح ہے جو تیر رہی ہے قلم تھک جایا کرتی ہے مگر اندر جوش نہیں تھکتا۔ طبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 2صفحہ483)
خدمتِ اسلام کا جوش
آپؑ اپنے اپنی تحریرات کا مقصدخدمتِ اسلام کو قرار دیا ہے۔ جیسا کہ آپؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:۔
دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دینِ مصطفی
مجھ کو کر اے میرے سلطان کامیاب و کامگار
غیروں کا اعتراف
اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود ؑکو ’’سلطان القلم‘‘ کے خطاب سے نوازا اور آپؐ کے قلم کو ’’ذوالفقار علی‘‘ قرار دیا۔ چنانچہ آپؑ کے قلم سے کی گئی خدمت ِاسلام کا اعتراف غیروں نے بھی کیا: ۔
اہل حدیث کے مشہور لیڈر مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب بیان کرتے ہیں:
’’اس (براہین احمدیہ) کا مؤلف بھی اسلام کی مالی و جانی وقلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی جاتی ہے‘‘
(رسالہ اشاعۃ السنہ جلد7نمبر6صفحہ169)
صادق الاخبارریواڑی نے لکھا:
’’مرزا صاحب نے اپنی پر زور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب کے لئے ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیاہے۔ اور واقعی مرزا صاحب نے حق، حمایت اسلام کا کما حقہ ادا کر کے خدمت دین اسلام میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا‘‘۔
فرشتوں کا نزول
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نوّر اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:۔
’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے۔ اُن کے پڑھنے سے بھی ملائکۃ اللہ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحب کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے۔ یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ کیوں حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں اور جب پڑھو جب ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتا ہے……حضرت صاحب کی کتابیں بھی خاص فیضان رکھتی ہیں۔ ان کا پڑھنا بھی ملائکہ سے فیضان حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور ان کے ذریعہ سے نئے علوم کھلتے ہیں‘‘۔
(ملائکۃ اللہ)
زندگی کا سبب
حضرت اقدس مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:
’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ مسیح کے ہاتھ سے زندہ ہونے والے مر گئے جو شخص میرے ہاتھ سے جام پئے گا جو مجھے دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں مرے گا۔ وہ زندگی بخش باتیں جو میں کہتا ہوں اور وہ حکمت جو میرے منہ سے نکلتی ہے اگر کوئی اور بھی اس کی مانند کہہ سکتا ہے تو سمجھو کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں آیا‘‘۔
(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 104)
نجات کا راستہ
آپ ؑ فرماتے ہیں ’’وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو، تا کہ ہلاک نہ ہو جاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ‘‘۔
(نزول المسیح روحانی خزائن جلد18صفحہ403)
علم ایک طاقت ہے
آپ ؑ فرماتے ہیں ’’سب دوستوں کے واسطے ضروری ہے کہ ہماری کتب کم از کم ایک دفعہ ضرور پڑھ لیا کریں، کیونکہ علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شُجاعت پیدا ہوتی ہے‘‘
(ملفوظات جلد 4صفحہ361)
کتابوں میں احباب و اغیار کے لئے درد
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:۔
’’چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ مجھے پسند ہیں کیونکہ آدمی کھڑے کھڑے پڑھ سکتا اور نفع اٹھا لیتا ہے اور معلوم نہیں کہ کب کس پر اثر ہو جائے۔ مگر چھوٹے چھوٹے رسالوں کے سبب حضرت مسیح موعود ؑ کی کتابوں کی خریداری کم ہوگئی ہے۔ ان میں جو درد ہے وہ اوروں میں ملنا مشکل ہے‘‘۔
(خطبات نور صفحہ55)
ایک سطر کی اہمیت
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نوّرَ اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود ؑ خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے تھے اور محمد ﷺ کا بروز ہو کر آئے تھے۔ اس لئے آپ کے قلم سے نکلا ہو ایک ایک لفظ دنیا کی ساری کتابوں اور تحریروں سے بیش قیمت ہے اور اگر کبھی یہ سوال پیدا ہوا کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی تحریر کی ہوئی ایک سطر محفوظ رکھی جائے یا سلسلہ کے سارے مصنفین کی کتابیں؟ تو میں کہوں گا آپ کی ایک سطر کے مقابلہ میں یہ ساری کتابیں مٹی کا تیل ڈال کر جلا دینا گوارا کروں گا اس سطر کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنی انتہائی کوشش کروں گا۔ ہماری کتابیں کیا ہیں؟ حضرت مسیح موعود ؑنے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس کی تشریحیں ہیں اور تشریحیں کرنے والے اور بھی پیدا ہو سکتے ہیں مگر پھر نبی نہیں آسکتا‘‘۔
(خطبات شوریٰ جلد1صفحہ148)
مطالعہ کتب کا طریق
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب یا آپ کے ملفوظات کا کوئی حصہ پڑھ لیا کریں۔ ملفوظات سے اگر آپ شروع کریں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ ان میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں وہ عام فہم ہیں اور جن الفاظ میں انہیں اخبارات نے محفوظ کیا وہ بھی آسان اور عام فہم ہے۔ ان میں مختلف قسم کے سوالات وجوابات ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کئے گئے یا ان سوالات کا جواب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا ہے‘‘
(مشعلِ راہ جلد2صفحہ44)
فہمِ دین کا حصول
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:۔ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارتیں ذرا پڑھ کر تو دیکھیں کہ خدا کیا ہے؟ فرشتے کیا ہیں؟ آسمانی کتابیں کیا ہیں؟ اور انبیاء علیھم السلام کیا ہیں؟ مگر مخالفیں احمدیت نے جو تصوّرات پیش کئے ہیں وہ ان کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے جو قرآن کریم اور سنت نبوی سے اخذ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پاک زبان میں ہمارے سامنے پیش فرمائے ہیں‘‘
(خطبہ جمعہ 3؍مئی1985ء)
جدید سہولیات کا مطالعہ کتب کے لئے استعمال کریں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’آج خدا تعالیٰ نے ان کتابوں کو نشر کرنے کے اور اسلام کے مخالفین کے جواب دینے کے پہلے سے بڑھ کر ذرائع مہیا فرما دئیے ہیں جوتیز تر ہیں۔ کتابیں پہنچنے میں وقت لگتا تھا اب تو یہاں پیغام نشر ہوا اور وہاں پہنچ گیا۔ یہاں کتاب پرنٹ ہوئی اور دوسرے end سے نکال لی گئی۔ آج حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی کتب، قرآنِ کریم اور دوسرا اسلامی لٹریچر انٹرنیٹ کے ذریعہ، ٹی وی کے ذریعہ نشر ہونے کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے۔ جو تیزی میڈیا میں آج کل ہے آج سے چند دہائیاں پہلے ان کا تصور بھی نہیں تھا۔ پس یہ مواقع ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائے ہیں کہ اسلام کی تبلیغ اور دفاع میں ان کو کام میں لاؤ۔ ہماری کوشش اس میں یہ ہونی چاہئے کہ بجائے لغویات میں وقت گزارنے کے، ان سہولتوں سے غلط قسم کے فائدے اٹھانے کے ان سہولتوں کا صحیح فائدہ اٹھائیں، ان کو کام میں لائیں۔ اور اگر اُس گروہ کا ہم حصہ بن جائیں جو مسیح محمدی کے پیغام کو دنیا میں پہنچا رہا ہے تو ہم بھی اس گروہ میں شامل ہو سکتے ہیں، ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جن کی خدا تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ مورخہ 15اکتوبر 2010ء)
کرونا کی وباکے سبب جن ایام سے ہم گزر رہے ہیں یہ بہت دعاؤں اور اپنے اندر مثبت تبدیلی پیدا کرنے کے دن ہیں۔ ان ایّام کو جہاں ہم اصلاحِ نفس اور اپنے روحانی معیاروں کو بڑھانے کے لئے استعمال کریں۔ وہیں پر اپنے شب و روز کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اپنے علمی معیاروں کو بھی بڑھانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے زندگی بخش کلام کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭
(حسان محمود)