• 5 مئی, 2025

روکوپُر (سیرالیون) میں نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت

روکوپُر (سیرالیون) میں نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت
خدمت کی توفیق پانے والے مرحومین کا ذکر خیر

حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ نے 1970ء میں مغربی افریقہ کے ممالک نائیجیریا، غانا، آئیوری کوسٹ، لائیبریا، گیمبیا اور سیرالیون کا دورہ فرمایا۔اس تاریخ ساز دورہ میں حضورؒ نے ان مشنوں کےحالات کا ازخود جائزہ لیا اور ان کی تعلیمی اور طبی ضروریات کا بنفس نفیس مطالعہ کر کے خدمت ِخلق کے منصوبہ پر مشتمل ایک عظیم الشان جامع سکیم مرتب فرمائی جس کاذکر حضورؒ نے یوں فرمایا:
’’گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑی شدت سے یہ میرے دل میں ڈالا کہ تم کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ ان ممالک میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا۔‘‘

(الفضل 20جون 1970ء)

اس سکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حضورؒ نے نصرت جہاں ریزروفنڈ کا اجراء فرمایا۔ چنانچہ افریقہ کے دورہ سے لندن تشریف لانے پر مسجد بیت الفضل لندن میں خطبہ جمعہ کے دوران اس سکیم کا اعلان فرمایا اور جماعت کو ان کی ذمہ داریوں اور دعا کی طرف توجہ دلائی۔

حضور نے فرمایا :
’’مجھے فکر نہیں کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا منشاہےکہ خرچ کیا جائے تو ضرور دے گا ۔یہ رقم ملے گی، مجھے کوئی فکر نہیں۔ مزید برآں مجھے کام کرنے کے لئے فوری طور پر تیس ڈاکٹروں کی ضرورت ہے اور اساتذہ اس کے علاوہ ہیں۔ یہ بھی مجھے فکر نہیں کہ رضا کا ر واقف ملیں گے یا نہیں ملیں گے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا منشا ہے کہ یہاں کام کیا جائے۔ جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی ہونی چاہئے وہ یہ کہ محض خدا کے حضور مالی قربانی پیش کردینا کوئی چیز نہیں جب تک وہ مقبول نہ ہو۔ اس واسطے آپ بھی دعاکریں اور میں بھی دعا کروں گاکہ یہ سعی مشکور ہو۔ خداتعالیٰ اس حقیر سی قربانی کو قبول فرمائے۔‘‘

(الفضل 15اپریل 1972ء)

پھر آپ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ نائیجریا، غانا، سیرالیون اور گیمبیا میں پانچ سات سال کے اندر اندرچار چار ہسپتال یا کلینک بنادیں گے اور اتنے ہی ہائر سیکنڈری سکول کھول دیں گے۔

(الفضل 17ستمبر 1975ء)

خداتعالیٰ کے مامور کی اس پیاری جماعت کے امام نے ایک لاکھ پاؤنڈکا مطالبہ کیامگردنیا بھر کے احمدیوں نے دو لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم اپنے پیارے امام کے قدموں میں ڈال دی کیونکہ اس جماعت نے قربانی کے میدان میں ایک ہی سبق سیکھا ہے جویہ ہے:

’’جان و مال و آبرو حاضر ہیں تری راہ میں‘‘

خدا کے فضل سے ڈاکٹرز اور ٹیچرزکی ایک خاص تعد اد نے اپنے امام کی آواز پر لبیک کہا اور میدان جہاد میں کودنے کےلئے تیار ہوگئے ۔

چنانچہ دو سال کے اندر اندرخداتعالیٰ کے فضل سے مغربی افریقہ کے ممالک نائیجریا ،غانا،سیرالیون اور گیمبیا میں 14ہسپتال اور9ہائرسیکنڈری سکولز قائم ہوگئے۔ یہ کامیابی ایسی تھی کہ اپنوں اور بیگانوں سب نے اس پر حیرت کا اظہار کیا ۔

اس تحریک کا ایک مبارک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی عملی زندگی کی ابتداء گھانا میں اس تحریک کے تحت وقف کر کے خدمات ِدین سرانجام دینے سے ہی ہوئی ۔

آغاز سے اب تک اندازاً 250 ڈاکٹر اور 400اساتذہ وقف کر کے افریقہ کے مختلف ممالک میں طبی و تعلیمی خدمات سر انجام دے چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

روکوپُرسیرالیون ملک کا وہ بابرکت حصہ ہے جہاں سب سے پہلے احمدیت کا پودا مجاہد ِاحمدیت مولانا الحاج نذیر احمد علی صاحب کے ذریعہ لگا اور پھر یہاں سے اسلام احمدیت کا پیغام ملک کے چاروں کونوں تک پہنچا۔اس مضمون میں روکوپُر میں خدمت کرنے والے ابتدائی ٹیچرز و ڈاکٹرز کا ذکر خیر کرنا مقصود ہے۔

مکرم انور احمد گھمن صاحب

آپ 25فروری 1946ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام مکرم چوہدری فیض احمد صاحب گھمن تھا۔ آپ نے 1963ء میں ایگریکلچرل یونیورسٹی لائلپور سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ 1967ء میں آپ نے ایگریکلچرل یونیورسٹی لائلپور سے بی ایس سی آنرز کا امتحان پاس کیا۔پھر آپ نے 1969ء میں ایم ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ اسکے بعد آپ نےمنڈی بہاؤالدین گجرات میں زراعت کے انسپکٹر کے طور پر کام کیا۔ بعدازاں کچھ عرصہ ایک فرم میں بطور سیلز آفیسر کام کیا۔

آپ نصرت جہاں سکیم کے تحت وقف کر کےسیرالیون گئے۔جو درخواست آپ نے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی خدمت میں بغرض قبول وقف لکھی، اس میں آپ لکھتے ہیں :
’’میں عاجز انسان ہوں، میرے اخلاص کو نہ ٹھکرائیں اور میری درخواست قبول فرمائیں اور مجھے بطور ایک ادنیٰ خادم جانتے ہوئے خدمت کا موقع دیں اور افریقہ یا کسی دوسرے ملک میں ایک ادنی ٰاستاد کسی سکول یا کالج میں بھجوادیں ۔میں جانے کا خرچ بھی خود برداشت کروں گا۔‘‘

اس خط سے آپ کی للّٰہی وقف کی روح اور اخلاص جھلکتا ہے جسکا آپ نے کما حقہ حق ادا کیا ۔آپکو مجلس نصرت جہاں کے تحت روکو پُر کے مقام پر قائم ہو نیوالے پہلے احمدیہ سیکنڈری سکول کے پرنسپل کے طور پر فروری 1972ء تا ستمبر1981ء دس سال خدمت کی توفیق ملی۔ آپ نے وہاں پوری جانفشانی، محبت اور اخلاص کے ساتھ بے لوث خدمت کی توفیق پائی۔ سکول کے لئے زمین حاصل کرنا، اسے ہموار کرنا اور عمارت تعمیر کرنے کا ابتدائی کام ان کے زمانہ میں انجام پایا۔ روکوپُر کی مقامی احمدیہ مسجد کی تعمیر میں بھی آپ کو مالی معاونت کی توفیق ملی۔ 6ستمبر 1975ء کو آپ کی شادی مکرمہ امة الودود صاحبہ سے ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپکو چار بیٹیوں اور ایک بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ محترمہ نے بھی اپنے خاوند کے شانہ بشانہ روکوپر سکول میں خدمت کی توفیق پائی۔

محترم گھمن صاحب نےایک لمبی بیماری کے بعد 22اگست 2016ء کو لاہور میں 70سال کی عمر میں وفات پائی۔ مؤرخہ 23اگست کو بعد نماز ظہر بیت المبارک ربوہ میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین کے بعد مکرم نصیر احمد چوہدری صاحب زعیم اعلیٰ مجلس انصاراللہ مقامی ربوہ نے دعاکروائی۔

مکرم مبشر احمد پال صاحب

آپ 10اگست 1939ء کو سیالکوٹ میں پید اہوئے۔ آپکے والد کا نام محمد دین احمد تھا ۔ابتدائی تعلیم حا صل کرنے کے بعد آپ نے 1964ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا ۔پھر 1970ء میں سنٹرل ٹرینگ کالج لاہور سے بی ایڈ کا امتحان پاس کیا ۔آپ کو خدام الاحمدیہ کی سطح پر ناظم اطفال شہر سیالکوٹ خدمت کی توفیق ملی اورآپکے دور میں مجلس اطفال الاحمدیہ نے تین دفعہ عَلم انعامی بھی حاصل کیا۔سیرالیون جانے سے قبل آپ نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ستارہ، قمر، ہلال اور بدر کے نام سے کتابچے بھی لکھے۔

10مئی 1973ء کونصرت جہاں سکیم کے تحت حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے حکم پر سیرالیون گئے۔ آپ نے احمدیہ سیکنڈری سکول و مسجد روکوپُر کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا۔ کئی وقار عمل کئے۔ غرض مالی و جسمانی ہر طرح سے معاونت کی۔ آپ نے بطور استاد پھر قائم مقام پرنسپل احمدیہ سیکنڈری سکول روکوپُرو پرنسپل احمدیہ مسلم ایگریکلچرل سیکنڈری سکول کبالہ اور مشنری انچارج کے فرائض بھی ادا کئے۔ آپ نے اپنی ذاتی کوشش و دلچسپی سے کبالہ میں ایگری کلچرل ریسرچ انسٹیٹوٹ بھی قائم کیا۔ دوران وقف آپ کی والدہ محترمہ پاکستان میں وفات پاگئیں آپ نے پردیس میں اپنے وقف کو بخوبی نبھاتے ہوئے اس صدمہ کو برداشت کیا۔

سیرالیون سے 1987ء میں واپس آنے کے بعد دسمبر1987ء میں آپکی شادی مکرم شیخ محمد رمضان صاحب امیر جماعت ڈیرہ غازی خان کی صاحبزادی سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپکو ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی نعمت سے نواز۔

آپکی وفات27مارچ 2016ء کو بوجہ ہیپاٹائیٹس ہوئی۔ مرحوم کی تربیت میں انکی نانی مرحومہ کا ہاتھ تھا جو رفیق حضرت مسیح موعودؑ حضرت بابو روشن دین صاحبؓ کی بیٹی تھیں ۔ آپکی اہلیہ بھی رفیق حضرت مسیح موعودؑ حضرت شیخ اللہ بخش صاحبؓ آف بنوں کی پوتی ہیں۔ آپ نیک، انتہائی ہمدرد، انسان دوست اور مشفق انسان تھے۔ آپ بہت مہربان اور عہدیداروں کی بہت عزت کرتے تھے۔ ہر ایک کی مدد کو تیار رہتے۔ پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ بہت سے شاگردوں کی سکول فیس، یونیفارم، سٹیشنری اور خوراک کےلئے ذاتی طور پر مالی معاونت کرتے ۔آخری لمحات میں بیماری کی شدت کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

مکرم ڈاکٹر سردار محمد حسن صاحب

آپ ڈاکٹرایس ایم حسن کے نام سے جانے جاتے تھے ۔ آپکے والد کا نام مکرم سردار نور احمد صاحب تھا ۔آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد محترم کے ذریعہ آئی جو خلافتِ ثانیہ کے دور میں بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئے۔ آپکی شادی 1964ء میں محترمہ سعیدہ حسن صاحبہ بنت مکرم چوہدری محمد شریف ڈار صاحب آف لائل پور سے ہوگئی۔ آپ نے 1969ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہورسے MBBS کا امتحان پاس کیا ۔ابتداء سے ہی آپ کی نیت تھی کہ اگر میں MBBS میں پاس ہوگیا تو اسی روز حضورانورؒ کو وقف کے لئے لکھ دونگا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

آپ مجلس نصرت جہاںکےتحت جون1971ء تا دسمبر 1975ء تقریباً ساڑھے چار سال روکوپُر سیرالیون میں خدمت کی توفیق پاتےرہے۔ آپ سیرالیون بھجوائے جانے والے تیسرے ڈاکٹر تھے۔احمدیہ ہسپتال روکوپُر کی ابتداء آپ نے کی۔ آپ نے ابتداء میں ایک خستہ حال عمارت میں ایک میڈیکل باکس سے کام شروع کیا۔ خدا تعالیٰ نے آپکے ہاتھ میں غیر معمولی شفاء رکھ دی تھی جس کی وجہ سے حکومتی وزراء اور غیر از جماعت لوگ دور دراز سے آپ سے علاج کروانےآتے اور اللہ کے فضل سے شفاء بھی پاتے۔خاکسار نے وہاں اپنے قیام کے دوران دیکھاکہ اس وقت کے صدر مملکت Dr. Siaka P.Stevew کی اہلیہ Madam Rebecca Stevew بھی اس ہسپتال سے علاج کے لئے باوجود اسکے کہ محترمہ کو Firstlady ہونے کے ناطے تمام سرکاری سہولتیں میسر تھیں، تشریف لائیں۔ تھوڑے ہی عرصہ میں آپکوایک بڑا ہسپتال بنانے کی توفیق مل گئی۔ آپ نے ہسپتال کی تعمیر کے سلسلے میں خود وقار عمل بھی کئے۔ راتوں کو جاگ کر نگرانی بھی کی۔ غرض بہت محنت اور لگن سے ہسپتال کو پایہ ٔتکمیل تک پہنچایا۔ یکم مئی 1974ء کو اس ہسپتال کا افتتاح ہوا۔ہسپتال کے احاطہ میں ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ کے فرش پر Tiles لگانے کے کام میں ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ محترمہ نے بھی حصہ لیا ۔

مکرم ڈاکٹر محمد حسن صاحب نہ صرف ڈاکٹر تھے بلکہ ایک روحانی طبیب بھی تھے ۔آپ دعا گو، تقو یٰ شعاراور فرشتہ سیرت انسان تھے اور روکوپُر کے لوگ اس وجہ سے آپ کی بہت عزت اور احترام کرتے ۔لوگوں کو آپ پر اس حد تک یقین تھا اور اللہ نے آپکے ہاتھ میں اتنی غیر معمولی شفاء رکھی ہے کہ جس مریض کو آپ کہیں اور ریفر کرتے، لوگ بجائے انہیں علاج کی غرض سے کسی اور بڑے ہسپتال لیجانے کے مایوسی سے مریض کے کفن دفن کا انتظام کرنے لگ جاتے کہ شایداب اسکا کوئی علاج نہیں۔ روزنامہ الفضل کے صد سالہ جشن تشکر نمبر 1989ء میں آپکے متعلق یہ خبر چھپی:
’’سیرالیون میں ایک احمدیہ ہسپتال ’’روکوپُر‘‘ ضلع کامبیا (Kambia) میں ڈاکٹر ایس ایم حسن صاحب نے شروع فرمایا جن کے اخلاص اور نیکی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انکے ہاتھ میں غیر معمولی شفاء رکھ دی کہ وہ بطور ایک فرشتہ کے مشہور ہوگئے۔‘‘

دسمبر 1975ء میں پاکستان آنے کے بعد آپ نے چند ماہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھایا۔ کچھ عرصہ ضلع قصور کے ایک ہسپتال میں کام کیا۔1978ء میں مستقل لاہور منتقل ہوگئے اور MCPS اور DA کا امتحان پاس کیا۔ پہلے میو ہسپتال، سروسز ہسپتال اور آخر میں لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں طویل عرصہ تک ملازمت کی اور Senior Anesthesiest کی پوسٹ سے ریٹائرمنٹ لی ۔دسمبر 2001ء میں بعمر 63 برس آپ مولائے حقیقی سے جاملے۔

آپ کا جنازہ ربوہ لایا گیا ۔اور 24دسمبر 2001ءکو مسجد مبارک ربوہ میں نماز ظہر کے بعد محترم راجہ نصیر احمد صاحب سابق ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ نے آپکی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد حضرت مرزا عبدالحق صاحب سابق امیر جماعت سرگودھا نے دعا کرائی۔آپ نے اپنی یادگار میں اپنی بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی ۔

آپ نہایت مخلص ،ایماندار شخص تھے ۔نمازو روزہ کے پابند اور نظام وصیت میں شامل تھے۔ آپ کو خلافت احمدیہ سے اس قدر محبت تھی کہ اپنے بچوں کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھےکہ بیٹا خلافت بہت بڑی نعمت ہے۔ اور بچوں کو خلیفۂ وقت کو خطوط لکھنے کی تاکید کرتے ۔

آپ اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے:
’’بیٹا آج تم جس مقام پر ہو یہ احمدیت کی وجہ سے ہے اور جو برکتیں تم لوٹ رہے ہو یہ اس وقف کی ہیں جو چند سال سیرالیون میں گزارے ہیں۔‘‘

آپکی اہلیہ نے بھی ہر طرح سے آپ کا ساتھ دیا اور خدمت کاحق ادا کیا۔ آپ بہت مہمان نواز اور خدمتگار خاتون تھیں ۔

مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب

آپ کے والد کا نام مکرم سید محمد شریف صاحب تھا۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے 1945ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے MBBS کا امتحان پاس کیا۔ گزٹیڈ آفیسر کے طور پر گورنمنٹ سروس کا آغاز کیا۔1948ء تا 1952ء مختلف ڈسپنسریوں کے انچارج کے طور پر خدمت کی۔1953ء میں آپ نے سول سرجن ڈسٹرکٹ میڈیکل آفیسر جیکب آباد کے طور پرکام کیا ۔1956ء میں آپ یو کے گئے اور Royal Institute of E.N.T سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے 1957ء میں پاکستان واپس آئے۔ 1958ء میں آپ نے Hygiene Institute Lahore سے D.P.H کی ڈگری حاصل کی اور یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور میڈل کے حقدار قرار پائے۔1963ء تا 1964ء سینئر اسسٹنٹ ڈائیریکٹر آف ہیلتھ خیرپور ریجن کے طورپرکام کیا۔ 1967ء اور 1968ء میں کوئٹہ ریجن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر آف ہیلتھ کے طور پر کام کیا۔ 1969ء میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرلاہور کے طورپر کام کیا۔ 1970ء میں سول سرجن کراچی کے طور پر خدمات بجا لائے۔

11فروری 1971ء کو اسکورے غانا پہنچے اور مؤرخہ یکم مارچ 1971ء کو کام شروع کیا۔ آپ نے اسکورے غانا میں مشن کے قیام کے لئے بہت کوششیں کیں۔ زمین کی خریداری، رجسٹریشن، نقشہ جات کی تیاری، تعمیر کے تمام مراحل میں انتہائی محنت اور لگن سے کام کیا۔

آپ نے علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ تبلیغی و دینی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیا ۔بہت سے لوگ آپ کے ذریعہ اسلام احمدیت میں داخل ہوئے۔آپ نےاپنے گھر کو نماز سنٹر بنایا ہوا تھاجہاں نماز با جماعت کا اہتمام ہوتا۔نمازوں کے بعد درس و تدریس کا انتظام ہوتاجس میں نمازسادہ وباترجمہ بچوں اور بڑوں کو سکھائی جاتی نیز ترجمةالقرآن کلاس کا باقاعدگی سے اہتمام ہوتا۔

آپ خلافت سے عشق و وفا اور اطاعت گذاری میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔خلیفۂ وقت کی اطاعت کا شاندار نمونہ جو آپ نے دکھایااسکے متعلق مکرم محمد اسماعیل منیر صاحب سابقہ و پہلے سیکرٹری مجلس نصرت جہاں کچھ یوں بیان کرتے ہیں :
’’محترم ڈاکٹر سید غلام مجتبیٰ صاحب کو پاکستان میں سندھ کے محکمہ صحت کے سیکرٹری بننے کی آفر ہو چکی تھی کہ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی آواز ان کے کان میں پڑی کہ ارض بلال میں احمدی ڈاکٹروں کی ضرورت ہے چنانچہ وہ فوراً وقف کر کے میدان عمل میں پہنچ گئے۔ جب غانا میں اپنی منزل مقصود ’’اسکورے‘‘ نامی گاؤں پہنچے تو حیران رہ گئے کہ چھوٹا سا گاؤں جس میں بجلی ہےنہ پانی ہے، سڑک بھی کوئی نہیں، فوراً حضورؒ کی خدمت میں خط بھیجا کہ اس گاؤں میں تو میرے لئے کوئی کام نہ ہوگا اور مریض کیسے آئیں گے ۔اس لئے فوری طور پر مناسب مقام اور جگہ کی تلاش کی جائے جس پر حضورؒ متفکر ہوئے اور فرمایا کہ دعا کے بعد جواب دیں گے۔ ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایک دن نماز عصر کے بعد حضورؒ نے اس عاجز کو یاد فرمایا اور حاضر ہونے پر فرمایا کہ ڈکٹر صاحب کو تار دے دو کہ ’’اسکورے کو نہیں چھوڑنا‘‘ اللہ تعالیٰ اسی میں بہت برکت ڈالے گا ۔ڈاکٹر صاحب تار ملنے پر اسکورے میں ہی دھونی رماکر بیٹھ گئے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت کا نزول ہونا شروع ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے حکومت نے احمدیہ ہسپتال کی خاطر اس گاؤں کو بجلی اور پانی سپلائی کردیا اور چند ماہ میں پکی سڑک بن گئی جس پر سرکاری بسیں اس گاؤں کو ملک کے اہم شہر کماسی سے ملاتی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ہسپتال کی مستقل بنیادیں کھدوانی شروع کروائیں تو عیسائی حاسدوں نے روڑے اٹکانے شروع کردیئے اور وزیر صحت کے ذریعہ کام بند کر کے ڈاکٹر صاحب کو ملک بدر کر نےکا حکم جاری کروادیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے خداداد ذہانت سے دفاع کیا تو صدر مملکت غانا نے سارے حالات سن کر حکم دیا کہ ڈاکٹر صاحب تو یہاں ہی غانا میں رہیں گے، اگر وزیر صحت جانا چاہیں تو انہیں اجازت ہے۔ بس پھر کیا تھا ہسپتال کی نئی عمارت چند ماہ میں تیار ہوگئی اور پاکستان کے سفیر S.A Moid بھی افتتاح میں شامل ہوئے اور بہت خوش ہوئے کہ ایک پاکستانی ڈاکٹر کو افریقن بھائیوں کی شاندار خدمت کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اب یہی ہسپتال مغربی افریقہ میں نصرت جہاں آگے بڑھو پروگرام کے تحت بہت بڑا ہسپتال ہے جس میں یکصد سے زائد بستر (Bed) ہیں اور VIP وارڈ بھی الگ ہے۔‘‘

آپ نے اسکورے گھانا میں ہسپتال، اسکول اور مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں انتھک کوشش اور محنت کی ۔خلافت کے فدائی تھے اور ہر امر میں خلیفۂ وقت سے رہنمائی حاصل کرتے اور دعا کی درخواست کرتے۔

خلیفۂ وقت سے عشق و وفا کا تعلق اس بات سے بھی جھلکتا ہے کہ جب حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ نے کراچی تشریف لیجانا تھا تو آپ نےاپنا گھر حضورؒ کی رہائش کے لئے پیش کیا۔ آپ ستمبر 1978ء میں سیرالیون پہنچےاور آپکی تعیناتی احمدیہ مسلم نصرت جہاں کلینک روکوپُر ہوئی۔

مکرم ڈاکٹر عمر الدین سدھو صاحب

آپ 8دسمبر 1908ء کو لدھیانہ انڈیا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام مکرم حاجی بورے خان سدھو صاحب تھا۔ آپ 1934ء میں بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئے ۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے 1949ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے MBBS کیا۔

آپ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک نہایت ہی مخلص اور بے لوث خدمت کرنے والے خادم تھے۔ آپ نے 1968ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی زندگی خدمت سلسلہ کے لئے وقف کردی اور 1969ء تا 1981ء تک مسلسل 12سال مجلس نصرت جہاں کے تحت مغربی افریقہ کے ممالک نائیجریا،سیرالیون اور گیمبیا میں جماعت کے ہسپتالوں میں نہایت شاندار اور قابل قدر طبی خدمات سرانجام دیں ۔پاکستان واپس آکر آپ کو سلسلہ کی مختلف نوعیت کی خدمات سرانجام دینے کی تو فیق ملی۔ آپ 8 جولائی 1990ء کو 82سال کی عمر میں حرکت ِقلب بند ہوجانے کی وجہ سے اپنے مولائے حقیقی سے جاملے ۔آپ ایک نہایت ہی مخلص ،دعا گو ،تہجد گزار بزرگ تھے اور آپ کا دل ہمدردی ٔ خلائق سے لبریز تھا۔آپ نےافریقہ میں جماعت کے طبی ادارہ جات کی ترقی اور کامیابی کے لئے نہایت ہی محنت، توجہ اور انتھک مساعی سے خدمات سر انجام دیں ۔

ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب

آپ نےاوائل جنوری 1976ء میں نصرت جہاں کلینک جورو کا چارج لیا۔ آپ ہسپتال میں تلاوت ِقرآن کریم اور دعا کے بعد علاج کا آغاز کرتے۔ آپ نے دورانِ وقف قرآن کریم کے تین پارے حفظ کئے اور ماہ رمضان میں نماز تراویح میں انکی قراءت کرتے۔ آپ بہت دعا گو انسان تھے۔ آپ کو دعا پر کامل یقین تھا جس کا اظہار آپکی تقریروتحریر سے عیاں ہے۔ آپ اپنے ایک مکتوب بنام حضور اقدس میں لکھتے ہیں ’’جسطرح حضور کی دعا نے مجھے گھانا میں زندہ کیا تھا ویسے ہی اب بھی دعا فرما دیجیئے کہ میری کھانسی اور ضیق النفس چلا جاوے ڈیڑھ ماہ سے یہ تکلیف ہے‘‘ آپ مریضوں کو بھی دعا کے فائدے بتاتے اور انکی توجہ دعا کی طرف مبذول کرواتے کہ اصل شفا دینے والی ہستی خدا کی ہے۔آپ کسی بھی آپریشن سے قبل خود بھی دعا کرتےاور دربار خلافت میں بھی دعا کیلئے لکھتے ایک دفعہ ایک عورت کا ہرنیا کا آپریشن تھا، آپ نے حضوراقدس کی خدمت میں دعا کیلئے لکھا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ اس آپریشن کو ہر لحاظ سے کامیاب کرے جس سے ہسپتال کی نیک نامی بھی ہوگی اور دیگر مریضوں کی توجہ اس ہسپتال کی طرف ہوگی۔ آپ کو علاج معالجہ کیساتھ ساتھ تبلیغ دین کا بھی بہت شوق تھا۔ آپ قریبی جماعتی سنٹرز میں اکثر نماز جمعہ بھی پڑھاتے اور وہاں لوگ آپ سے علاج بھی کرواتے۔آپکے بیٹے ڈاکٹر سردار حمید احمد صاحب نائیجریا اور سردار رفیق احمد صاحب لائیبریا میں خدمت کی تو فیق پاچکے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان مرحومین کو غریق ِرحمت کرے اور انکی اولادوں کو انکی قائم کردہ نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

(مرسلہ: مبارک احمد طاہر)

پچھلا پڑھیں

آج کی دعا

اگلا پڑھیں

رپورٹ بابت ریجنل اجتماع لجنہ ریجن امبور