• 28 اپریل, 2024

مکرم ضمیر احمد ندیم کی یاد میں

؎ چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے

مکرم ضمیر احمد ندیم صاحب کو مرحوم کہتے اور لکھتے سانس رکتی ہےاور کلیجہ منہ کوآتا ہے۔ 56سال کی عمر، خوب صحت مندوتوانا،باسکٹ بال کا بہترین کھلاڑی،اللہ کا پیارا اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

مربی سلسلہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔آپ موصی تھے۔ہر کام کونہایت محنت ہمت اور توجہ سے کرتے۔

آپ حضرت خلیفۃ المسیح کے خاص مطیع،اچھے کھلاڑی ،بہترین کارکن اوراچھے معالج تھے۔

آپ کاایک ہی بیٹا ہےجوکہ واقف زندگی مربی سلسلہ (شعبہ تاریخ) ہے۔ مرحوم کےساتھ پہلا رابطہ اس وقت ہوا جب وہ سکھر میں تعینات تھے، جماعتوں کے ساتھ رابطےدورے اور سخت ترین گرمی والے علاقے جیکب آباد میں رہنے والے احمدیوں کے ساتھ گہرا رابطہ، نومبائعین کے ساتھ تعلق۔خاکسار جب بھی سندھ جاتا تو آتے جاتے سکھر رکتا۔

بڑا حادثہ

ایک مرتبہ خاکسار سکھر پہنچا تو موصوف کہنے لگے کہ کنڈیارو جانا ہے۔میں نے کہا کہ میں نے بھی جانا ہے،طے پایا کہ کل اکھٹے جائیں گے چنانچہ اگلے دن ہم اکٹھے سکھر ویگن اڈے پر پہنچے،مجھے علم تھا کہ ضمیر صاحب بیٹھتے ہی سو جاتے ہیں اس لیے گنڈیریاں لے لیں۔ وہ تو ابھی ویگن چلی بھی نہ تھی کہ چوس لی گئیں۔پھر مونگ پھلی لی تو میں نے کہا کہ آپ نے سونا نہیں یہ کھائیں۔

ہماری دونوں کی سیٹ ڈرائیور کے پیچھے والی تھی،ایک آدمی آیا جس نے درانتی بغل میں دبائی ہوئی تھی شایدچارہ کاٹنے جارہا تھا وہ ضمیر صاحب کے سامنے پھٹے پر بیٹھ گیا۔اس قدرسواریاں ویگن میں بھر لی گئیں کہ سانس تک لینا مشکل ہو گیا۔آخر ویگن چلی اور خوب رفتار سے دوڑی،سواریاں اترتی اور سوار ہوتی رہیں منزل سے 5,6 کلومیٹر پہلے ’’ہلانی‘‘ گاؤں ہے۔ وہاں ویگن کا ٹائراڈ ٹوٹ گیااور گاڑی الٹ گئی مگر قلابازیوں کے بعد سیدھی ہو گئی۔

میں تو ضمیر صاحب کے ساتھ چپک گیا،شوروغل،دھواں،کوئی سمجھ نہ آئے کون بچا کون مرا،میں نے ہمت کر کے ضمیرصاحب کو باہر نکالاتو دیکھا کہ دائیں بازو کی جلد اوپر سے نیچے تک گہری کٹ گئی ہے۔اور کچھ نہ ملا تو میں نے فوراًبیگ سے اپنی دھوتی اور شلوار لے کر ان کےبازو پر باندھی،کہنے لگے کہ مجھے نظر نہیں آرہا،میں نے کہا کہ ہمت رکھیں گھبرائیں نہیں اور مجھے ڈاکٹربشیر صاحب (برادرم ڈاکٹر منور احمد بٹ صاحب فضلِ عمر) جن کی طرف ضمیر صاحب کو جانا تھا کا نمبر دیں، مکرم ضمیر صاحب نےنمبر بتایا اور میں نے ہاتھ پر لکھ لیا۔میں نے ضمیر صاحب کا بازو پکڑ کر سڑک پار کی اور ہلانی جانے والی سواری کا انتظار کرنے لگے۔اللہ نے فضل فرمایا اور ایک ٹرک آکر کھڑا ہواجس کو ہم نے ہلانی جانے کے لئے کہا تو وہ مان گیا۔اب ٹرک پر سوار ہونے کا مسئلہ تھا۔ضمیر صاحب چونکہ بھاری جسم کے مالک تھے اور بازو بھی سخت زخمی تھامیں نے ان کوازراہِ تفنن کہا کہ چل بھائی ماں کا جتنا دودھ پیا ہے آج ہمت کرکے اوپر چڑھ جاؤ۔میں کیا دیکھتا ہوں کہ جو بازو زخمی تھا اسی سے زور لگا کر اوپر چڑھ گئے ۔۔۔ واہ رے ہمت۔ہلانی پہنچ کر ڈاکٹر کا پتہ کیا اور ایک ڈاکٹر کے پاس پہنچے جس نے اپنی دکان کے باہر ہی چارپائی پر لٹا کر بغیر بیہوش کئے شیشے کے ٹکڑے نکالے ریت صاف کی اورٹانکے لگانے شروع کر دیئے اور تقریباً 15 سے 20 ٹانکے لگے،میں نے دیکھا کہ ضمیر صاحب نے ایک مرتبہ بھی بازو نہ ہلائی اور اف بھی نہ کی۔ میں نے ڈاکٹر بشیر صاحب آف کنڈیارو کو فون کیا اور صورتحال سے آگاہ کیا جس پر ڈاکٹر صاحب آگئے ۔ضمیر صاحب کے کپڑے خون سے لت پت تھے۔ڈاکٹر صاحب دیکھتے ہی کہنے لگے ’’نہیں، نہیں‘‘۔ میں نے پوچھا کیا ’’نہیں، نہیں؟‘‘ مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمارے گھر اتنی بڑی قمیض نہیں ہے جو مربی صاحب کو دی جاسکے۔

خیر کنڈیارو پہنچےجہاں ڈاکٹر صاحب نے ٹیٹنیس کا انجیکشن لگایا۔میں نے ضمیر صاحب سے پوچھا کہ کیا ارادہ ہے تو کہنے لگے کہ دوپہر کا کھانا کھا کر واپس چلتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے خوب آؤ بھگت کی اورپُرتکلف دعوت کی۔کھانے کے بعد میں مورو (نوشہرہ فیروز) کو روانہ ہو گیا اور ضمیر صاحب واپس پنو عاقل فوجی ہسپتال میں علاج کے لئے چلےگئے۔

آج بھی جب اس خطرناک جان لیوا حادثہ کے مناظر یاد آتے ہیں تو دل کانپ جاتا ہے۔ بس اللہ ہی محافظ ہے۔
جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔

بہترین کھلاڑی

باسکٹ بال کے بہترین کھلاڑی تھے رینجرز کی طرف سے بھی اعزازی ممبری ملی ہوتی تھی۔ بھرپور حصہ لیتے تھےمحض ایک عام کھلاڑی نہ تھے بلکہ اپنی مہارت و ہنر دوسروں کو بھی سکھاتے تھے۔ربوہ کے بیسیوں خدام کو باسکٹ بال سکھایا اور ان کی نگرانی کی اور اچھے کھلاڑی پیدا کئے۔

بہترین ورکر

میدان ِعمل میں ہر ایک سے رابطہ، ہر جماعت کا دورہ اور ہر فرد سے تعلق رکھتے،جب آپ کے پاس کوئی آتا تو اس کی خاطر مدارت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتے ۔پیار اور محبت کی فضا قائم رکھی۔ کبھی ناراض نہیں دیکھا۔ میرے ساتھ دو مرتبہ قادیان کے جلسے پر ڈیوٹی لگی،ہمیشہ بہت ہمت سے کام کرتے ،سخت سردی میں بھی بروقت حاضر ہوتے اور پوری چُستی سے اپنی ڈیوٹی انجام دیتے، سستی کا نام بھی ان کے ہاں نہ تھا۔ فَجَزَاھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَآءِ۔

جب سے ان کی ڈیوٹی دفترکارپرداز میں لگی،آئے گئے سے رابطہ، تدفین کے وقت حاضر ہونا، متوفی کےخاندان سے اظہارِ ہمدردی کرنا اور اگر ربوہ میں ہیں تو ان کے گھر جاکر ملنا ان کا مستقل عمل تھا۔

قبرستان کی صفائی ستھرائی اورنگرانی بھی کمال درجہ تھی۔ دن میں بعض اوقات تین تین، چار چار جنازے بھی آجاتے اور بعض اوقات رات گئے بھی تدفین کا عمل ہوتا تو یہ حاضر ہوتے۔ وفات یافتہ کی اطلاع اپنے موبائل سے بروقت دیتے، ان کی طرف سے اطلاعات کا سلسلہ بغیر روک جاری رہتا، جماعت پرہونے والے مظالم کی خبریں بھی شیئر کرتے، کوشش کرکے وفات یافتہ کی پرانی تصویریں بھی ڈھونڈکر شیئر کرتے۔

اچھے معالج

ہومیو پیتھی کی ادویات کے بارے میں خوب علم تھا اور میدانِ عمل میں تو لوگوں کی ہمدری میں ان کے علاج معالجے میں مصروف رہتے،گھر میں بڑی تعداد میں ادویات رکھی ہوتی تھیں۔

اچھے والد

اللہ تعالیٰ نے دو بچے عنایت فرمائے۔مکرم فضلِ عمر محمود احمد کاشف صاحب اوربیٹی عنیقہ صاحبہ دونوں کی خوب تربیت کی،ایک ہی بیٹا اور وہ بھی واقفِ زندگی مربی بنایا۔الحمدللہ

بیٹی کو بھی پڑھایا لکھایا،اچھی تربیت کی اور شادی کروائی اور اپنے فرائض سے سُبکدوش ہوئے۔

اچھے منتظم

جماعتی تنظیموں ،خدام اور پھر انصار کی عاملہ کے مستقل ممبران میں سے تھے۔کواٹرز صدر انجمن کے زعیم محلّہ بھی رہے،اپنے ٹینیور میں خوب کام کیا اورمجلس کی کارکردگی کو بہتر کیا۔ورزشی مقابلہ جات میں بھی پیش پیش ہوتے۔

خلاصہ کلام یہ کہ سب کے ہمدرد،غمگسار،محنتی وجود تھے،اپنے بھائیوں اور ان کے بچوں کا بھی خیال رکھتے۔اچھے خادم،اچھے ناصر،حاذق معالج،بہترین کھلاڑی،قابل منتظم اور قابلِ اعتماد دوست سے ہم محروم ہو گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ جماعت کو نعم البدل عطا فرماتا چلا جائے۔

؎ ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہو

؎ بلانے والا ہے سب سے پیارا
اُسی پہ اے دل توجان فدا کر

جنازہ

جنازے میں تقریباً دوہزار سے زائد افراد کی شرکت نے لوگوں کے ساتھ آپ کے اچھے تعلقات پر مہر ثبت کردی۔اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

خدا کے فضل سے موصی تھے،دارالفضل پرانے قبرستان میں آخری ایام گاہ میسر آئی۔اللہ غریقِ رحمت فرمائے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مؤرخہ 18جون2021ء کے خطبہ میں ان کا ذکر خیر فرمایااور جنازہ غائب پڑھایا۔

حضورانورنے فرمایا
اگلا ذکر ہے ندیم احمد ضمیر صاحب کاجن کی 56 سال کی عمر میں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ ان کو کینسر کی تکلیف تھی۔ ان کے پردادا رحیم بخش صاحب صحابی حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ سے1897ء میں ان کے خاندان میں احمدیت آئی اورجب ان کےپر دادا نے سنا کہ امام مہدی آگئے ہیں تو اپنے گاؤں شکار پور ماچھیاں جو ضلع گورداسپور میں ایک گاؤں تھا وہاں سے قادیان جلسہ کی شرکت کے لئے گئےاور بیعت کرلی پھر اپنے ایک عزیز کو بتایا،مہر ندیم صاحب کو،وہ بھی گئے،انہوں نے بھی بیعت کرلی اورپھر ان کی تبلیغ سے تقریباً پورا گاؤں ہی احمدی ہو گیا۔ اِنہوں نے (ضمیر صاحب) نے جامعہ پاس کرنے کے بعد اصلاح و ارشاد مقامی کے تحت کچھ عرصہ میدانِ عمل میں کام کیاپھر دفتر منصوبہ بندی کمیٹی میں ان کی تقرری ہوئی پھرنظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ کے تحت خدمت کی توفیق ملی، 2005ء سے وفات تک یہ معاون ناظروصیت شعبہ استقبالیہ تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک بیٹے اور بیٹی سے نوازا ہے ان کے بیٹے بھی مربی سلسلہ ہیں۔تعلقات بھی ان کو خوب بنانے آتے تھے،کھلاڑی بھی اچھے تھےباسکٹ بال کے ،اس وجہ سے تعلقات ہوتے تھے اور تعلق کو جماعت کے لئے استعمال بھی کرتے تھے اور فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔تہجدگزار تھے ،اللہ تعالیٰ پہ توکل بہت زیادہ تھا،مشکل وقت میں فوراً دو نفل پڑھنا اور فوراً خلیفہ وقت کو خط لکھنا ان کی عادت تھی،اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِن کی دعاؤں اور نوافل کو اللہ تعالیٰ قبول بھی فرماتا تھا۔

(صفدر نذیر گولیکی)

پچھلا پڑھیں

بیلجیئم میں تباہ کن سیلاب اور خدمتِ خلق

اگلا پڑھیں

مکرم و محترم راجہ خورشید احمد منیر