خلفاء کی تحریکات
بابت ماحولیاتی آلودگی کےدفاع کے لئے شجرکاری اور پیدل چلنا
حضور انور نے 4؍ستمبر 2021ء کو مجلس خدام الاحمدىہ ساؤتھ ىوکے کے اىسےطلباء جن کى عمر 16 سے 19 سال ہے، سے آن لائن ملاقات فرمائى۔ اس کلاس مىں اىک خادم نے سوال کىا کہ اسلام climate change کے بارے مىں کىا راہنمائى کرتا ہے اور ىہ کہ اس مسئلہ کو کس طرح حل کرنا چاہىے۔
حضور انور نے فرماىا کہ اللہ تعالىٰ فرماتا ہے کہ ہر چىز کى زىادتى برى ہے۔ اگر ہم قانون قدرت کے مطابق نہىں چل رہے تو اس کا لازمى نتىجہ ىہى ہوگا کہ ہم اپنے مستقبل کو خراب کر رہے ہوں گے۔ اور ہم اپنے آپ کو اپنى نسلوں کو تباہ کرنے والے ہوں گے۔
حضور انور نے مزىد فرماىا کہ ہاں (ماحولىاتى) آلودگى ہے کىونکہ ممالک مىں مسابقت کى دوڑ لگى ہوئى ہے جىسے چائنا، انڈىا اور امرىکہ کے درمىان۔ ىوں ہر ملک کا اپنا ذاتى مفاد ہے۔ وہ اپنى آئندہ نسلوں کے بارے مىں نہىں سوچ رہے۔ اس لىے وہ اس حوالہ سے پلان نہىں کررہے کہ کسى بھى ملک کو کتنا اىندھن جلانے کى اجازت ہونى چاہىے اور اس کو کىسے کنٹرول کىا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہمىں ممالک کى حوصلہ افزائى کرنى چاہىے اور انہىں مجبور کرنا چاہىے کہ وہ زىادہ سےزىادہ درخت لگائىں تاکہ ماحولىاتى آلودگى کو کم سے کم کىا جا سکے اور ىہ ہمىں climate change کو بھى کم کرنے مىں مدد دے گى۔
(الفضل انٹرنىشنل 21 ستمبر 2021ء)
مؤرخہ 12 ستمبر 2021ء کو برطانىہ کے دو رىجنز کى ناصرات سے آن لائن ملاقات فرمائى۔
اىک ناصرہ نے سوال کىا کہ احمدى مسلمانوں کے لىے ىہ کس قدر اہم ہے کہ وہ ماحولىاتى تبدىلى کے خلاف لڑىں۔
حضور انور نے فرماىا کہ ىہ بہت اہم ہے۔ آپ کو تھوڑے فاصلوں کے لىے گاڑى کا استعمال نہىں کرنا چاہىے۔ پىدل چلىں ىا سائىکل استعما ل کرىں۔ سائىکل چلانا آپ کى صحت کے لىے بھى اچھا ہے۔ ہر احمدى مسلمان کو ىہ ٹارگٹ بنانا چاہىے کہ وہ ہر سال دو درخت لگائے۔ اس طرح آپ ماحولىاتى تبدىلى سے لڑ سکتے ہىں۔ اگر ىہاں ممکن نہ ہوتو وہ جو دوسرے ممالک مىں سفر کرتے ہىں تو وہ وہاں درخت لگا سکتے ہىں۔ اس طرح ہم ماحولىاتى تبدىلى کو کنٹرول کرنے مىں مدد کر سکتے ہىں۔
(الفضل انٹرنىشنل 12اکتوبر 2021ء)
حضور انور اور گزشتہ خلفائے احمدىت اس سے قبل بھى اس حوالہ سے متعدد تحرىکات فرما چکے ہىں، چند اىک ہدىہ قارئىن ہىں:
صفائى، شجرکارى اور سبزىاں اگانے کى تحرىک
ربوہ شہر کى صفائى اور شجر کارى کى طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرماىا:
’’شہر کى صفائى کى طرف توجہ کرو اور درخت اورپھول اور سبزىاں لگاؤ۔ جن لوگوں نے گھروں مىں درخت لگائے ہوئے ہىں۔ انہىں دىکھ کر دل بہت خوش ہوتا ہے۔ گلى مىں سے گزرىں تو لہلہاتے درخت نہاىت بھلے معلوم ہوتے ہىں۔ لىکن اصل مىں ىہ کام مىونسپل کمىٹى اور لوکل انجمن کا ہے۔ اگر سارے مل کر کوشش کرىں تو وہ شہر کو دلہن بنا سکتے ہىں۔ … اب بھى جب مىں تصور کرتا ہوں تو ىورپ کا نظارہ مىرى آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ہر گھر مىں دروازوں کے آگے چھجے بنے ہوئے ہىں اور ان پر بکسوں مىں بھرى ہوئى مٹى پڑى ہے اور اس مىں پھول لگے ہوئے ہىں۔ جس گلى مىں سے گزروپھول ہى پھول نظر آتے ہىں اور سارا شہر اىک گلدستہ کى طرح معلوم ہوتا ہے۔ ربوہ بھى اسى طرح بناىا جاسکتا ہے۔ بڑى محنت کى ضرورت نہىں تھوڑى سى توجہ کى ضرورت ہے۔ اس سے بىوى بچوں کو باغبانى کا فن بھى آتا ہے۔ صحت بھى اچھى ہوجاتى ہے اور کچھ آمد کى صورت بھى پىدا ہو جاتى ہے۔ مثلاً گھروں مىں خربوزے۔ ککڑى اور دوسرى چىزىں لگا دى جائىں تو خوبصورتى کى خوبصورتى نظر آئے گى۔ صحت بھى اچھى رہے گى اور کھانے کو ترکارى بھى مل جائے گى جو ىہاں نصىب نہىں۔ مىرى سمجھ مىں ىہ بات نہىں آتى کہ ىورپ کا ڈاکٹر بھى کہتا ہے کہ سبزىاں کھاؤ مگر پاکستان مىں سبزىاں نہىں ملتىں۔ اگر لوگ گھروں مىں سبزىاں لگانے لگ جائىں اور سبزىاں کھانے کى عادت ڈالىں تو اس سے ان کى صحت مىں بھى ترقى ہو گى اور پھر جو شخص گھروں مىں سبزىاں لگائے گا اور اسے سبزىاں کھانے کى عادت ہوگى۔ وہ دکاندار سے بھى اصرار کرے گا کہ سبزىاں لاؤ اور دکاندار آگے زمىنداروں سے اصرار کرے گا کہ تم سبزىاں لگاؤ۔ اس طرح ملک مىں سبزىاں کاشت کرنے کا رواج عام ہو جائے گا‘‘۔
(الفضل 14 دسمبر 1955ء)
حضرت مصلح موعودؓ جب علاج کے سلسلہ مىں ىورپ کے دورہ پر تھے تو زىورچ سے مئى 1955ء مىں ناظر صاحب اعلىٰ صدر انجمن احمدىہ ربوہ کو حسب ذىل مکتوب لکھا جس مىں تاکىد فرمائى کہ اہل ربوہ کى صحت کے لئے زىادہ سے زىادہ درخت لگوائے جائىں۔ حضورؓ نے فرماىا:
’’ربوہ مىں لوگوں کى صحت کے لئے زىادہ سے زىادہ درخت لگانے نہاىت ضرورى ہىں اور درخت بغىر پانى کے نہىں لگ سکتے۔ آپ فورى طور پر صدر انجمن مىں ىہ معاملہ رکھ کر پاس کرائىں کہ پہلے ٹىوب وىل کودرست کراىا جائے۔ بلکہ بہتر ہو کہ بجلى کا انجن اس کى جگہ فورى لگ جائے تاکہ پانى باافراط مہىا ہوسکے اور پہلے لگے ہوئے درخت سوکھ نہ جائىں اس کے علاوہ مزىد ٹىوب وىل بھى جلدى لگائے جانے ضرورى ہىں۔ اس بارہ مىں کسى واقف سے مشورہ کرکے فورى اپنى رپورٹ بھجوائىں کہ کس کس جگہ ٹىوب وىل لگ سکىں گے جن سے تمام ربوہ کى سڑکوں پر پودوں کے لئے پانى آسانى سے دىا جاسکے۔ ضرورى ہے موجودہ درختوں سے بھى دس پندرہ گنے بلکہ زىادہ درخت لگائے جائىں بجلى سے اب کام بہت آسان ہو گىا ہے۔‘‘
(تارىخ احمدىت جلد17 صفحہ527)
شجرکارى کى تحرىک
اسى طرح حضرت خلىفة المسىح الثالث ؒ نے بھى اہل ربوہ کو خصوصاً اطفال کو درختوں کى حفاظت کى ذمہ دارى دىتے ہوئےفرماىا کہ
’’ہمىں ربوہ مىں 20۔15 ہزار درخت لگانے چاہئىں جس سے شہر کى شکل بدل جائے گى۔ ان درختوں کى حفاظت کى ذمہ دارى اطفال پر ہوگى۔ نىز آپ نے درختوں کو کاٹنے کى سختى سے ممانعت فرمائى۔ آپ نے فرماىا مىرے دل مىں ىہ شدىد خواہش ہے کہ ہمارا ربوہ اىک باغ بن جانا چاہئے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 24 نومبر 1972ء۔ الفضل 24 جنورى 1973ء)
ہر گھر مىں تىن پھلدار پودے لگائىں
حضرت خلىفة المسىح الرابع ؒ فرماتے ہىں:
’’ربوہ مىں اىک مہم چلائىں کہ ہر گھر مىں خواہ وہ چھوٹا ہى ہو پھل والے کم ازکم تىن پودے ضرور لگائىں۔ امرود، کىنو اور اىک کوئى اور پھل والا پودا۔ اس سے وہ غرىب طبقہ جو خرىد کر پھل کھانے کى طاقت نہىں رکھتا وہ اپنے گھر مىں تىار شدہ پودوں سے پھل حاصل کرکے کسى حد تک اس کمى کو پورا کرسکے گا۔‘‘
(روزنامہ الفضل 19 مارچ 1996ء)
قادىان اور ربوہ کے لئے خصوصى تحرىک
قادىان اور ربوہ سمىت تمام احمدى آبادى کو خصوصىت سے صفائى کى طرف متوجہ کرتے ہوئے حضور نے خطبہ جمعہ 23؍اپرىل 2004ء مىں فرماىا:
ربوہ مىں، جہاں تقرىباً 98 فىصد احمدى آبادى ہے، اىک صاف ستھرا ماحول نظر آنا چاہئے۔ اب مَاشَآءَ اللّٰہُ تزئىن ربوہ کمىٹى کى طرف سے کافى کوشش کى گئى ہے۔ ربوہ کو سرسبز بناىا جائے اور بنا بھى رہے ہىں۔ کافى پودے، درخت گھاس وغىرہ سڑکوں کے کنارے لگائے گئے ہىں اور نظر بھى آتے ہىں۔ اکثر آنے والے ذکر کرتے ہىں اور کافى تعرىف کرتے ہىں۔ کافى سبزہ ربوہ مىں نظر آتا ہے۔ لىکن اگر شہر کے لوگوں مىں ىہ حس پىدا نہ ہوئى کہ ہم نے نہ صرف ان پودوں کى حفاظت کرنى ہے بلکہ اردگرد کے ماحول کو بھى صاف رکھنا ہے تو پھر اىک طرف تو سبزہ نظر آرہا ہوگا اور دوسرى طرف کوڑے کے ڈھىروں سے بدبو کے بھبھاکے اٹھ رہے ہوں گے۔ اس لئے اہل ربوہ خاص توجہ دىتے ہوئے اپنے گھروں کے سامنے نالىوں کى صفائى کا بھى اہتمام کرىں اور گھروں کے ماحول مىں بھى کوڑا کرکٹ سے جگہ کو صاف کرنے کا بھى انتظام کرىں۔ تاکہ کبھى کسى راہ چلنے والے کو اس طرح نہ چلنا پڑے کہ گند سے بچنے کے لئے سنبھال سنبھال کر قدم رکھ رہا ہو اور ناک پر رومال ہو کہ بو آرہى ہے۔ اب اگر جلسے نہىں ہوتے تو ىہ مطلب نہىں کہ ربوہ صاف نہ ہو بلکہ جس طرح حضرت خلىفۃ المسىح الثالثؒ نے فرماىا تھا کہ دلہن کى طرح سجا کے رکھو۔ ىہ سجاوٹ اب مستقل رہنى چاہئے۔ مشاورت کے دنوں مىں ربوہ کى بعض سڑکوں کو سجاىا گىا تھا۔ تزئىن ربوہ والوں نے اس کى تصوىرىں بھىجى ہىں، بہت خوبصورت سجاىا گىا لىکن ربوہ کا اب ہر چوک اس طرح سجنا چاہئے تاکہ احساس ہو کہ ہاں ربوہ مىں صفائى اور خوبصورتى کى طرف توجہ دى گئى ہے اور ہر گھر کے سامنے صفائى کا اىک اعلىٰ معىار نظر آنا چاہئے اور ىہ کام صرف تزئىن کمىٹى نہىں کرسکتى بلکہ ہر شہرى کو اس طرف توجہ دىنى ہوگى۔
اسى طرح قادىان مىں بھى احمدى گھروں کے اندر اور باہر صفائى کا خاص خىال رکھىں۔ اىک واضح فرق نظر آنا چاہئے۔ گزرنے والے کو پتہ چلے کہ اب وہ احمدى محلے ىا احمدى گھر کے سامنے سے گزر رہا ہے۔ اس وقت تو مجھے پتہ نہىں کہ کىا معىار ہے، 91ء مىں جب مىں گىا ہوں تو اس وقت شاىد اس لئے کہ لوگوں کا رش زىادہ تھا، کافى مہمان بھى آئے ہوئے تھے لگتا تھا کہ ضرورت ہے اس طرف توجہ دى جائے اور مىرے خىال مىں اب بھى ضرورت ہوگى۔ اس طرف خاص توجہ دىں اور صفائى کا خىال رکھىں اور جہاں بھى نئى عمارات بن رہى ہىں اور تنگ محلوں سے نکل کر جہاں بھى احمدى کھلى جگہوں پر اپنے گھر بنا رہے ہىں وہاں صاف ستھرا بھى رکھىں اور سبزے بھى لگائىں، درخت پودے گھاس وغىرہ لگنا چاہئے اور ىہ صرف قادىان ہى کے لئے نہىں ہے بلکہ اور جماعتى عمارات ہىں ان مىں خدام الاحمدىہ کو خاص طور پر توجہ دىنى چاہئے کہ وہ وقار عمل کرکے ان جماعتى عمارات کے ماحول کو بھى صاف رکھىں اور وہاں پھول پودے لگانے کا بھى انتظام کرىں اور صرف قادىان مىں نہىں بلکہ دنىا مىں ہرجگہ جہاں بھى جماعتى عمارات ہىں ان کے اردگرد خاص طور پر صفائى اور سبزہ اس طرح نظر آئے کہ ان کى اپنى اىک انفرادىت نظر آتى ہو۔ پہلے مىں تىسرى دنىا کى مثالىں دے چکا ہوں صرف ىہ حال وہاں کا نہىں بلکہ ىہاں ىورپ مىں بھى مىں نے دىکھا ہے، جن گھروں مىں بھى گىا ہوں پہلے کبھى ىا اب، کہ جو بھى چھوٹے چھوٹے آگے پىچھے صحن ہوتے ہىں ان کى کىارىوں مىں ىا گھاس ہوتا ہے ىا گند پڑا ہوتا ہے۔ کوئى توجہ ىہاں بھى اکثر گھروں مىں نہىں ہورہى، چھوٹے چھوٹے صحن ہىں کىارىاں ہىں، چھوٹے سے گھاس کے لان ہىں اگر ذرا سى محنت کرىں اور ہفتے مىں اىک دن بھى دىں تو اپنے گھروں کے ماحول کو خوبصورت کرسکتے ہىں۔ جس سے ہمساىوں کے ماحول پہ بھى خوشگوار اثر ہوگا اور آپ کے ماحول مىں بھى خوشگوار اثر ہوگا اور پھر آپ کو لوگ کہىں گے کہ ہاں ىہ لوگ ذرا منفرد طبىعت کے لوگ ہىں، عام جو اىشىنز (Asians) کے خلاف اىک خىال اور تصور گندگى کا پاىا جاتا ہے وہ دور ہوگا۔ مقامى لوگوں مىں کچھ نہ کچھ پھر بھى شوق ہے وہ اپنے پودوں کى طرف توجہ دىتے ہىں جبکہ ہمارے گھر کا ماحول ان لوگوں سے زىادہ صاف ستھرا اور خوشگوار نظر آنا چاہئے اور ىہاں تو موسم بھى اىسا ہے کہ ذرا سى محنت سے کافى خوبصورتى پىدا کى جاسکتى ہے۔
(الفضل 20 جولائى 2004ء)
ربوہ کے بچوں کو حضور انور کا پہلا پىغام
حضور انور اىدہ اللہ تعالىٰ نے شجرکارى سے متعلق ربوہ کے بچوں کے نام اپنے اىک خصوصى پىغام مىں 7 جون 2003ء کو فرماىا:
’’حضرت مصلح موعودؓ کى خواہش تھى کہ مىں نے روىا مىں دىکھا تھا۔ ربوہ کى زمىن کے متعلق کہ باقى جگہ تو ىہى لگتى ہے لىکن ىہاں سبزہ نہىں ہے، Greenery نہىں ہے وہ امىد ہے ان شاء اللہ ہو جائے گى۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس خواہش کا اظہار کىا تھا اور اللہ تعالىٰ کے فضل سے اس بارے مىں ربوہ کے لوگ بہت کوشش کررہے ہىں، خاص طور پر اطفال اور خدام نے بہت کوشش کى ہے انہوں نے وقارعمل کرکے، ربوہ کو آباد کرنے کى کوشش کى ہے۔ لوگ آکے حىران ہوتے ہىں۔ آپ جىسى چھوٹى عمر کے بچوں نے وقارعمل کرکے وہاں پودے لگائے ہىں اور ان کو سنبھالا ہے۔ تو اب مىرى بچوں سے ىہى درخواست ہے ىہى مىں کہوں گا ىہى نصىحت ہے کہ جو پودے آپ نے لگائے ہىں ان کى حفاظت کرىں اور مزىد پودے لگائىں۔ درخت لگائىں پھولوں کى کىارىاں بنائىں اور ربوہ کو اس طرح سرسبز اور Green Lush (شاداب) کردىں جس طرح حضرت مصلح موعودؓ کى خواہش تھى۔ ىہ چھوٹى چھوٹى باتىں ہىں ان پر عمل کرىں اىک تو ىہ کہ ربوہ کے ماحول کو سرسبز کرىں گے تو ماحول پر اىک خوشگوار اثر ہوگا۔ عمومى طور پر لوگوں کى توجہ ہوگى اور اىک نمونہ نظر آئے گا کہ ىہاں کے بچے اور بڑے محنت سے اس شہر کو آباد کررہے ہىں۔ جبکہ پاکستان مىں باقى جگہوں پہ جب تک حکومت مدد نہ کرے کوئى اتنا سبزہ نہىں کرسکتا۔ بلکہ باوجود مدد کے بھى نہىں کرسکتا‘‘۔
(الفضل 10 جون 2003ء)
(ذیشان محمود۔مبلغ سلسلہ سیرالیون)