• 29 اپریل, 2024

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1938ء

ریویو آف ریلیجنزاور جماعتی اخبارات و رسائل کے مطالعہ کی عادت اپنانے اور ان سے محبت پیدا کرنے کے حوالے سے زریں نصائح

سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی کا بصیرت افروز خطاب فرمودہ 27 دسمبر 1938ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان کا پہلا حصہ

تشہّد، تعوّذاور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
آج سب سے پہلے میں دوستوں کو سلسلہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے بعض اخبارات اور رسائل کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے شائع ہونے والے اخبارات میں سے سب سے مقدم ’’الفضل‘‘ ہے مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہماری جماعت اخبارات اور لٹریچر کی اشاعت کی طرف اتنی متوجہ نہیں جتنا متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اتنی وسیع جماعت میں جو سارے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے اور جس کی سینکڑوں انجمنیں ہیں صرف دو ہزار کے قریب’’الفضل‘‘کی خریداری ہے حالانکہ اتنی وسیع جماعت میں’’الفضل‘‘ کی اشاعت کم از کم پانچ سات ہزار ہونی چاہئے۔ ایک علمی اور مذہبی جماعت میں ’’الفضل‘‘ کی اس قدر کم خریداری بہت ہی افسوسناک ہے یورپ میں لوگوں کو اخبارات پڑھنے کی اتنی عادت ہوتی ہے کہ ایک آدمی دو دو تین تین اخبارات ضرور خریدتا ہے حتیّٰ کہ غریب مزدور کے ہاتھ میں بھی ایک دو اخبار تو ضرور ہوں گے مگر ہمارے آدمی اس وقت تک اخبار خریدنے کیلئے تیار نہیں ہوتے جب تک اس کا ہر مضمون ان کی دلچسپی کا موجب نہ ہو اور اگر کوئی خریدتا بھی ہے تو وہ پڑھ کر کہہ دیتا ہے کہ ایک دو مضمون ہی اچھے ہیں باقی اخبار میں تو کوئی کام کی بات ہی نہیں گویا ان کے نزدیک اخبار شروع سے لیکر آخر تک ان کی مرضی کے مطابق ہونا چاہئے۔ حالانکہ ولایت میں مَیں نے دیکھا ہے، لوگ اخبار خریدیں گے اور اس میں سے کوئی ایک خبر اپنے مذاق کی پڑھ لیں گے، مثلاً فلاں جگہ گھوڑ دَوڑ ہے‘ لوگوں کو اتنے بجے پہنچ جانا چاہئے اور پھریہ خبر پڑھتے ہی اخبار پھینک دیں گے۔ اسی طرح جاتے جاتے ریل میں یا ٹرام میں ہر شخص اخبار خریدے گا اور پھر گھوڑ دَوڑ یا کرکٹ کے میچ کی خبر پڑھ کر یا گھوڑ دَوڑ اور کرکٹ کے میچ کے نتیجہ پر نظر ڈال کر اخبار چھوڑ دیں گے۔ یہی عورتوں کا حال ہے ۔وہ بھی اخبار خریدتی ہیں اور سوسائٹی میں گَپ شَپ کیلئے کسی پارٹی کی خبر ہوئی تو وہ پڑھ لیتی ہیں یا کوئی شادی کی خبر ہوئی تو وہ دیکھ لیتی ہیں اسی طرح موت کی خبر پڑھ لیتی ہیں اور باقی اخبار کو دیکھتی بھی نہیں۔ اس کے مقابلہ میں جو سیاسی آدمی ہیں وہ صرف سیاسی خبریں پڑھتے ہیں اور باقی اخبار چھوڑ دیتے ہیں اور اگر کوئی ایسا شخص ہو جسے اور کوئی ضروری کام نہ ہو تو وہ مضمون پڑھنے لگ جاتا ہے لیکن ہمارے لوگ اس بات کے عادی ہیں کہ ایک آنہ میں سے جب تک وہ پانچ پیسے کی خبریں نہ نکال لیں ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔

ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہمارے ہاں ایک جاہل شخص ہوا کرتا تھا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ اس کے بہت پیچھے پڑے رہتے تھے کہ تو نمازیں پڑھا کر اور آپ چاہتے تھے کہ اسے کچھ نہ کچھ دین کی واقفیت ہو جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک بہت پرانا خادم تھا اس کا وہ بھتیجا تھا۔ ایک دفعہ وہ بازار سے آٹھ آنے کا گھی لایا جو بِلّا کھا گیا اسے پتا لگا تو اس پر جنون سوار ہو گیا اور وہ لٹھ لیکر بِلّے کے پیچھے پیچھے بھاگا یہاں تک کہ اس لٹھ سے اس نے بِلّے کو مارا اور چُھری سے اُس کاپیٹ چاک کر کے اس کی انتڑیوں سے گھی نچوڑ کر رکھ لیا۔ کسی نے پوچھا کہ سناؤ گھی مل گیا وہ کہنے لگا۔ آدھ سیر کی بجائے دس چھٹانک گھی نکلا ہے۔ ہمارے یہ دوست بھی اخبارات سے دس چھٹانک گھی ہی نکالنا چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ایک آنہ خرچ کر کے انہیں پانچ پیسے کی خبریں مل جایا کریں۔ حالانکہ اگر کسی کو علم کی ایک بات بھی اخبار سے مل جاتی ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس کی قیمت اسے وصول ہو گئی بلکہ ایک بات کیا اگر کام کی اسے ایک سطر بھی مل جاتی ہے تو اسے سمجھنا چاہئے کہ ایک آنہ کی اس کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا ہے۔

پھر ریویو آف ریلیجنز وہ رسالہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ اس کے دس ہزار خریدار ہوں۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک دفعہ بھی اب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکے۔ ہمارے جلسہ سالانہ پر ہی بیس ہزار آدمی آ جاتے ہیں اور اگر سب دوست اس کی خریداری کی طرف توجہ کریں تو دس ہزار خریدار ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت کو ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ میں سمجھتا ہوں اگر غیراحمدیوں میں اس رسالہ کی کثرت سے اشاعت کی جائے تو دس ہزار خریدار یقیناً میسر آسکتا ہے کیونکہ اس رسالہ میں ایسے علمی مضامین شائع ہوتے ہیں جو عام طور پر دوسرے رسالوں کو میسر نہیں آتے۔

انگریزی دان طبقہ کیلئے تو یہ ضروری ہے کہ وہ اس رسالہ کو کثرت سے خریدے لیکن وہ دوست جو انگریزی نہیں جانتے وہ بھی اگر شادی بیاہ کے موقع پر ریویو آف ریلیجنزکی امداد کے لئے کچھ دے دیا کریں تو ان پر کچھ زیادہ بار نہیں ہو سکتا۔ لوگ شادیوں کے موقع پر صدقہ و خیرات کیا کرتے ہیں اور جو لوگ صدقہ و خیرات نہیں کرتے وہ بھی میراثیوں اور ڈوموں میں جب وہ مبارکباد دینے کیلئے آتے ہیں تو کئی روپے تقسیم کر دیتے ہیں۔

ایسے موقعوں پر اگر بجائے میراثیوں اور ڈوموں کو روپیہ دینے کے تین چارانگریزوں یاعلم دوست غیر احمدیوں کے نام سال یا چھ چھ ماہ کیلئے رسالہ جاری کرا دیا جائے تو جتنے عرصہ تک رسالہ جاری رہے گا اتنا عرصہ تک وہ ثواب حاصل کرتے رہیں گے۔ اگر کسی کو زیادہ توفیق نہ ہو تو وہ تین ماہ کیلئے ہی رسالہ جاری کرا دے۔ اگر اس کے تین چار روپوں سے تین چار مہینے مسلسل اسلام کی تعلیم لوگوں کے کانوں تک پہنچتی رہے تو وہ خود ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ روپیہ خرچ کرنا اس کیلئے کیسا مفید اور بابرکت ہوگا۔ ڈوموں اور میراثیوں کی مدد کرنا تو اخلاقاً اور شرعاً کوئی پسندیدہ بات نہیں کیونکہ ایسا شخص اپنے روپے سے گانے اور ناچنے کو قائم رکھتا ہے لیکن ایسے رسالہ کی مدد کرنا جو ممالکِ غیر میں تبلیغِ اسلام کا کام دے رہا ہو بہت بڑے ثواب کی بات ہے کیونکہ اس طرح خداتعالیٰ کے دین کو مدد ملتی ہے۔

اسی طرح ’’البشرٰی‘‘ ایک نہایت ہی اہم رسالہ ہے اور وہ اس علاقہ سے نکلتا ہے جس کے ہم پر اس قدر عظیم الشان احسانات ہیں کہ اگر ہماری کھال اُدھیڑ کر بھی اس کے کپڑے بنا دیئے جائیں تب بھی ان کے احسانات کا بدلہ ہم نہیں اتار سکتے۔ یہ عربوں کی قربانی ہی تھی کہ جس نے ہمیں اسلام سے روشناس کرایا۔ پس اگر ہم عرب کے لوگوں تک احمدیت پہنچا دیں تو یہ ہمارا اُن پر کوئی احسان نہیں ہو گا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم اپنی تمام جائدادیں عربوں کیلئے وقف کر دیں اور اپنے اموال ان کی خاطر قربان کر دیں تب بھی ان کا احسان نہیں اُتر سکتا کیونکہ انہوں نے روحانی انعام سے ہمیں مالا مال کیا اور ہم جو کچھ دیں گے وہ جسمانی ہو گا لیکن اب خدا نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم ان کو اسی طرح روحانی انعامات سے بہرہ یاب کریں جس طرح انہوں نے ہمیں روحانی انعامات دیئے۔ ان کے باپ دادوں نے ہم کو اسلام دیا تھا اب ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں احمدیت سکھائیں اور اس طرح اس احسان کا بدلہ دیں جو انہوں نے اسلام کی اشاعت کی صورت میں ہم پر کیا۔

پس خدا نے ہمیں احمدیت دے کر وہ ذریعہ عطا فرمایا ہے جو کسی اور قوم کو حاصل نہیں اور ہمارا فرض ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان میں اشاعتِ احمدیت پر زور دیں اور کم ازکم اس رسالہ کی اشاعت کو بکثرت بڑھائیں جو عرب ممالک میں احمدیت کی آواز پہنچانے کیلئے ہماری جماعت کی طرف سے شائع کیا جاتا ہے۔

(الفضل 16 نومبر 1960ء)

(انوارالعلوم جلد15 ص230-227)

پچھلا پڑھیں

مصنوعی ذہانت سے کاروبار کامیاب بنائیں

اگلا پڑھیں

امراض قلب اور دیگر بیماریوں کی مجرب ادویات