• 28 اپریل, 2024

پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام ۔پاکستانی احمدی نوبیل لاریئٹ

گورنمنٹ کالج کافی ہاؤس اور دیگر جگہوں پر میرے ساتھیوں میں ایک ہی نابغہ تھا اور وہ عبدالسلام تھا۔ سلام ، جھنگ کے ایک سکول ٹیچر چوہدری محمد حسین اور فیض اللہ چک نزد بٹالہ کی ہاجرہ کا بیٹا تھا۔ محمد حسین جاٹ تھے مگر ہاجرہ صاحبہ ککے زئی تھیں۔ میں جانتا ہوں کہ پرانے وقتوں سے فیض اللہ چک ککے زئیوں کا گاؤں تھا میری نانی بھی وہیں کی تھیں ۔

سلام 1926ء میں پیدا ہوا اور گورنمنٹ ہائی سکول اور گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج جھنگ، گورنمنٹ کالج لاہور، سینٹ جان کالج کیمبرج میں تعلیم پائی۔ ہر امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرنا اس کی عادت تھی۔ 1940ء میں وہ پنجاب یونیورسٹی کے میٹرک کے امتحان میں اول آیا اور 2سا ل بعد 1942ء میںایف ایس سی کے امتحان میں بھی۔ 1942ء میں گور نمنٹ کالج میں حساب اے اور بی اور انگریزی آنرز میں داخل ہوا ۔ 1944ء میں وہ گریجوایٹ ہوا تو تمام ممکنہ اعزازات اس کو حاصل تھے۔ اس نے حساب میں 300 میں سے 300 نمبر حاصل کئے تھے۔ اور انگریزی آنرز میں 150 میں سے ایک 121 ۔ وہ یونیورسٹی بھر میں اول تھا اور اس نے بی اے کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے تھے۔ 1946ء میں اس نے حساب میں ایم اے کیا اور 600 میں سے 573نمبر حاصل کئے اور اول رہا۔

ستمبر 1946ء میں وہ پنجاب دیہی ویلفیئر فنڈ کے وظیفہ پر حساب پڑھنے کے لئے سینٹ جان کالج میں انڈر گریجوایٹ کے طو رپر داخل ہوا۔ ہندوستان میں اس کا ریکارڈ شاندار تھا تو کیمبرج میں اس کا ریکارڈ حیران کن رہا۔اس نے 1947ء کے حصہ اول اور 1948ء کے حصہ دوم میں اول پوزیشن حاصل کی اور پھر حساب چھوڑ کر فزکس کی طرف متوجہ ہوا۔ کیونکہ اس معیار پر پہنچ کر فزکس کے بغیر حساب سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس نے بے مثال کام کیا ۔ یعنی فزکس کے حصہ اول اور حصہ دوم دونوں کا یکجا امتحان 1949ء میں یعنی ایک سال میں دیا اور اول رہا اور اپنے اساتذہ کو حیران کر دیا۔ پی ایچ ڈی کے لئے اس کے وظیفہ میں دو سال کی توسیع کی گئی حالانکہ تین سال کی توسیع ہونا چاہئے تھی۔ وہ پاکستان آیا۔ امۃ الحفیظ سے شادی کی اور کیمبرج واپس چلا گیا تاکہ نظریاتی طبیعات میں اپنا پی ایچ ڈی کا کام جاری رکھ سکے۔ 1951ء کا سال اس کے لئے اپنی محنت کی فصل کاٹنے کا سال تھا۔ اس نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کر لیا ۔ لیکن یونیورسٹی کے قواعد کے مطابق ضروری تھا کہ ہر امیدوار کم از کم تعلیمی میعادوں تک یونیورسٹی میں حاضر ہوتا رہاہو۔( اور سلام کا قیام تو کہیں کم تھا ) اس لئے سلام کا م مکمل کر لینے کے باوجود اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل نہ کر سکا۔ سلام کو سمتھ پرائز دیا گیا اور اسے کالج کا فیلو بھی منتخب کر لیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ اسے پرنسٹن یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانس سٹڈیز کا فیلو بنایا گیا۔

اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے انتظار میں سلام لاہور واپس آ گیا اور گورنمنٹ کالج لاہور پنجاب یونیورسٹی میں حساب کا پروفیسر اور صدر شعبہ بنا دیا گیا۔ 1952ء میں سلام واپس کیمبرج گیا اور زبانی امتحان کے بعد پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

1945ء کے فزکس میں نوبیل انعام یافتہ پروفیسر ولف گانگ کی پالی ، انڈین سائنس سوسائٹی کی دعوت پر بمبئی آئے۔ انہوں نے سلام کو تار دیا کہ اگر ممکن ہو تو وہ بمبئی جا کر ان سے ملے۔ سلام جو اپنے مضمون کے کسی اہم آدمی سے ملنے کے لئے خواہش رکھتا تھا فوراً بمبئی پہنچا۔ (اس زمانے میں ابھی ویزوں کا چکر نہیں تھا) واپس آتے ہی سلام کی جواب طلبی ہو گئی کہ وہ بغیر پیشگی اجازت کے بمبئی کیوں گیا تھا۔ سلام کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ یورپ کے ماحول میں کام کرنے کا عادی تھا۔ جہاں آنے جانے کی پوری آزادی میسر تھی۔ اسے پاکستانی نوکر شاہی کا تجربہ نہیں تھا اور یہاں کام کرتے ہوئے اسے تین مہینے ہی تو ہوئے تھے۔

پرنسپل نے ایسی مین میخ نکالی کہ سلام کو شبہ ہونے لگا کہ کہیں اسے نوکری سے برخواست ہی نہ کر دیا جائے۔ اس موقع پر ڈی پی آئی پروفیسر ایس ایم شریف آڑے آئے اور سفر کے اس عرصہ کو رخصت بلاتنخواہ شمار کر لیا گیا۔

جب سلام سینٹ جان کالج کا فیلو منتخب ہوا تھا تو اس نے یہ شرط لگائی تھی کہ اسے لاہور میں پڑھانے کی اجازت دی جائے گی اور وہ صرف لمبی تعطیلات کے زمانہ میں سینٹ جان میں آیا کرے گا۔ سینٹ جان والے اسے لینے کے اتنے مشتاق تھے کہ انہوں نے اس کی یہ شرائط مان لی تھیں۔ اس سے سلام کی گورنمنٹ کالج سے محبت کا بھی ا ندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اس کی خاطر سینٹ جان کالج کی فیلو شپ کو بھی تج دینے کو تیار تھا۔ اب اس کالج میں اس کی اہانت اور ناقدری کی جا رہی تھی۔ اب اسے اپنے مستقبل کی خاطر کسی اور طرف دیکھنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔

قسمت کی با ت دیکھئے کہ اسی سال یعنی 1953ء کے وسط میں سینٹ جان کالج میں لیکچررشپ کی جگہ خالی ہوئی ۔ نکولس کیمر کو یونیورسٹی آف ایڈنبرا نے طبعی فلسفہ کی نایٹ پروفیسر شپ کی پیشکش کی۔ وہ سینٹ جان کالج میں سلام کے استاد رہ چکے تھے۔ اور ٹرینیٹی کالج کے فیلو تھے۔ اپنی جگہ پر کرنے کے لئے وہ سلام کو بلانا چاہتے تھے۔ انہیں اس بات کا اتنا خیال تھا کہ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر میاں افضل حسین کو لکھا کہ وہ سلام کو ان کی جگہ آنے پر آماد ہ کریں ۔و ائس چانسلر میاں افضل حسین کیمبرج سے واپس آنے کے بعد کے زمانہ یعنی 1946ء سے ہی سلام کے مداح تھے۔ میاں صاحب نے سلام کی پیدائش سے بھی کہیں پہلے کرائسٹ کالج میں طبعی سائنس میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔سلام میاں صاحب کا بہت مداح تھا۔ جب اس نے ان سے رہنمائی چاہی تو انہوں نے اسے کیمبرج جانے اور لیکچرر شپ قبول کرنے کا مشورہ دیا۔سلام کو گورنمنٹ کالج او رپاکستان سے بے پناہ تعلق تھا ۔ اس لئے وہ اپنی مادر علمی سے رابطہ منقطع کرنا نہیں چاہتا تھا۔ آخر ایس ایم شریف درمیان میں آئے اور ایسا حل پیش کیا جو سلام کے لئے قابل قبول تھا۔انہیں سینٹ جان کالج میں غیر معینہ مدت کے لئے ڈیپوٹیشن پر بھیجا گیا اور انہیں اس دوران 18روپے ماہانہ ڈیپوٹیشن الاؤنس دیا گیا۔ 1954ء کی پہلی جنوری کو سلام نے اپنی لیکچرر شپ کا چارج سنبھال لیا۔ اس طرح میرا ان سے روزانہ کا رابطہ ٹوٹ گیا مگر یہ انقطاع مستقل انقطاع نہیں تھا ۔سلام سینٹ جان کالج میں تین سال ٹھہرا اور یکم جنوری 1957ء کو امپیریل کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پروفیسر شپ پر فائز ہوا۔ اس وقت سلام کی عمر 31 سال تھی۔ اور وہ برٹش کامن ویلتھ کا سب سے کم عمر پروفیسر تھا۔ اس پروفیسر شپ سے سلام 1993ء میں عدم صحت کی بناء پر ریٹائر ہوا۔

گورنمنٹ کالج سے جانے سے لے کر وفات تک سلام نے حیرت انگیز ترقیات حاصل کیں۔ سینٹ جان کالج میں سلام نے بین الاقوامی معیار کے رسائل میں اپنے تحقیقاتی مضامین شائع کروائے۔ 1955ء میں اقوام متحدہ کے ایٹم برائے امن جنیوا کے ادارہ کے پہلے سائنٹیفک سیکرٹری کے طور پر ان کے مضامین نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ امپیریل کالج میں ان کی تدریس اور تحقیق نے دنیا بھر کے چنیدہ سائنسدانوں کی توجہ حاصل کی۔ 1961ء سے 1974ء تک وہ صدر پاکستان کے سائنسی مشیر رہے۔ 1964ء میں انہوں نے ٹریسٹے اٹلی انٹرنیشنل سنٹر فارتھیور یٹیکل فزکس قائم کیا اور 1964ء سے 1994ء تک اس کے ڈائریکٹر اور 1994ء سے 1996ء تک اس کے صدر رہے۔ وہ 1983ء سے 1996ء تک تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز کے صدر رہے۔ انہیں 1979ء میں فزکس کا نوبیل پرائز ملا۔ 1957ء میں انہیں یہ انعام ملتے ملتے رہ گیا تھا۔ نوبیل پرائز ملنے کی اطلاع پاتے ہی انڈیا کی حکومت اور سائنسی اداروں نے انہیں اپنے ملک کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ حکومت پاکستان کو اس بات کا خیال تک نہ تھا تاآنکہ پاکستان کے ہائی کمشنر نے انہیں انڈیا کی دعوت کا بتایا تب جا کر پاکستان کی حکومت نے انہیں اپنے ملک کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ سلام نے انڈیا جانے سے پہلے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔

دسمبر 1979ء میں جب وہ لاہور پشاور اسلام آباد پہنچے تو ان کی پذیرائی کے لئے صدر اور گورنرز کے ملٹری سیکرٹری جیسے کم مرتبہ لوگ بھیجے گئے۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی کانوو کیشن اس لئے یونیورسٹی میں منعقد نہ کی جا سکی کہ اسلامی جمعیت نے گڑ بڑ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس لئے اس کانووکیشن کا مقام نیشنل اسمبلی ہال کو بنایا گیا۔ لاہور میں ان کا لیکچر جو نیو کیمپس میں ہونا تھا اس کے لئے یونیورسٹی سینٹ ہال میں منتقل کر دیا گیا کیونکہ ایک روز پہلے چند مخالف گروہوں نے مظاہرہ کیا تھا اور سلام کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی نے انہیں کوئی ڈگری دینے سے انکار کر دیا تھا ۔ گورنمنٹ کالج نے انہیں اپنے ہاں مدعو تک نہ کیا۔

ایک سال بعد جب سلام انڈیا گئے تو پانچ یونیورسٹیوں نے انہیں ڈگریاں دیں ۔ 1952ء کو گورونانک دیو یونیورسٹی نے انہیں کانووکیشن سے خطاب کرنے کی دعوت دی جہاں سلام نے ٹھیٹھ پنجابی میں خطاب کیا۔ سلام کی درخواست پر ان کے جھنگ او رلاہور کے چار اساتذہ کو امر تسر بلایا گیا۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے انہیں اپنے گھر بلایا اور ان کے لئے اپنے ہاتھ سے کافی بنائی اور سارا وقت ان کے چرنوں میں بیٹھی رہیں ۔ کہا کہ وہ عظیم مہمانوں کی اس طرح پذیر ائی کیا کرتی ہیں ۔بعد میں جب سلام لاطینی امریکہ کے دورہ پر گئے تو برازیل سمیت ان ملکوں کے سربراہان ان کے استقبال کے لئے آتے رہے۔

1986ء میں یونیسکو کے سربراہ کی جگہ خالی ہوئی۔ اس عہدہ کے لئے نامزدگی متعلقہ اُمیدوار کے وطن کی حکومتیں کرتی تھیں۔پوری توقع تھی کہ سلام منتخب ہو جائیں گے مگر حکومت پاکستان نے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خان کو نامزد کر دیا۔ جنہیں صرف ایک ووٹ ملا۔ برطانیہ اوراٹلی دونوں ملکوں نے سلام سے کہا کہ اگر وہ ان کی شہریت قبول کر لیں تو وہ انہیں نامزد کرنے کو تیار ہیں ۔مگر سلام کو یہ گوارا نہ ہوا۔ مجلس انتخاب کی ایک فرانسیسی رکن کو جب حکومت پاکستان کے نامزد فرد کو ووٹ دینے کو کہا گیا تو اس نے جواب دیا کہ کوئی جرنیل میری لاش پر سے گزر کر ہی یونیسکو کی سربراہی کر سکتا ہے۔

سلام 21نومبر 1996ء کو آکسفورڈ کے مقام پر اعزازات سے لدا پھندا اس دنیا سے رخصت ہوا۔ ان کے بھائی نے جو لاہور میں مقیم تھے حکومت پاکستان سے استفسار کیا کہ کیا حکومت سلام صاحب کے جنازہ کو سرکاری پروٹوکول دے گی؟ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ 25نومبر 1996ء کو دن کے گیارہ بجے انہیں ربوہ میں ان کی ماں کے قدموں میں دفن کر دیا گیا۔

(تحریر: پروفیسر کے کے عزیز)

(ترجمہ: ڈاکٹر پرو یز پروازی)

(ہفت روزہ لاہور 12جولائی 2008ء)

پچھلا پڑھیں

اگر خدا کی رؤیت چاہتے ہو تو صبح اور عصر کی نماز کی خوب پابندی کرو

اگلا پڑھیں

’’دیکھو میرے دوستو! اخبار شائع ہوگیا‘‘