قرآن کریم خدائے رحمان کی عطا کردہ وہ عظیم الشان کتاب ہے جو اللہ کی خاص رحمت کے تحت ہمیں عطا ہوئی۔ یہ کتا ب ایک طرف توہمیں شرعی احکام اورگزشتہ انبیاء اور قوموں کے واقعات بتاتی ہے۔تو دوسری طرف آئندہ کی پیش خبریاں اور تمام موجودہ اور آئندہ علوم کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کلام کی تاثیرات ہمیشہ زندہ رہیں گی کیو نکہ یہ خالق کائنات اور رب العالمین کا کلام ہے۔ اور اسی نے اس کلام کی ہر طرح کی حفاظت کا ذمہ بھی لے رکھا ہے۔ اور اس کی معنوی حفاظت کےلئے ہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا جو اس کی تعلیمات کو تازہ کرتے رہیں گے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب قرآن مجید سےمحبت کرتے ہیں۔ ہمیں بچپن سے قرآن مجید کو ناظرے سے پڑھنا اور اس کا ظاہری ادب اور عزت کرنا بھی سکھا یا جاتا ہے جو کہ یقینا ًبہت ضروری ہے۔ بہت سے مسلمانوں نے سال ہا سال قرآن مجید کو خوبصورت غلافوں میں بند کرکے اونچی الماریوں میں رکھ کر اپنی دانست میں اس کی بہت عزت کی۔ کچھ نے یہ سمجھا کہ قرآن کو سمجھنا سمجھانا صرف علماءکا کام ہے۔ اورایک طبقے نے قرآن کو صرف برکت اور ثواب حاصل کرنے کےلئے استعمال کیا۔ اور اس کی بعض سورتوں کو بعض خاص مواقع پر پڑھنے کےلئے مخصوص کرلیا۔ یا اس کی آیتوں کو تعویذ بنا لیا مگرافسوس کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کا جس میں بد قسمتی سے کسی حد تک ہم احمدی بھی شامل ہیں قرآن کریم سے ایک ذاتی تعلق نہ بن سکا۔ ہم میں سے بہت سوں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اللہ نے اس کتاب میں بندے کے نام کیا کیا پیغامات بھیجے ہیں۔ کیا کیا احکامات جاری کئے ہیں۔ اور ہم کس طرح اس کی تلاوت کا حق ادا کرسکتے ہیں۔
قرآن کریم حضور ﷺ پر نازل ہوا اور سب سے زیادہ آپؑ ہی اس کو سمجھنے والے تھے۔ اور اس کلام کی اصل شان تب ظاہر ہوتی تھی جب خود خدا کا رسول اس کی تلاوت کرکے سناتا تھا۔ یہاں تک کہ عرش کے خدا کو بھی آپ کی تلاوت پر پیار آتا تھا۔ کیونکہ آپ ایک عجیب جذب، سوزوگداز اور عشق ومحبت کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر، غور کرتے ہوئے اس پاک کلام کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ آپ کی تلاوت کی شان وعظمت ہی تھی جو قرآن شریف میں یوں بیان ہوئی اَلَّذِیۡنَ اٰتَیۡنٰہُمُ الۡکِتٰبَ یَتۡلُوۡنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ؕ اُولٰٓئِکَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ (البقرہ: 122)
یعنی جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جیسے تلاوت کا حق ہےیہی لوگ ہیں جو اس کتاب پر سچا ایمان رکھتے ہیں۔
قرآن شریف کی حقیقی عزت اس کی تلاوت کا حق ادا کرنا ہے۔ صرف رسمی طور پر تلاوت کرنا نہیں۔ اور یہی اس کے نزول کا مقصد ہے۔تلاوت کا حق ادا کرنے کے کچھ تقاضے ہیں۔ اور اس کے لئے پہلا قدم قرآن کریم کو صحیح تلفظ اور روانی کے ساتھ پڑھنا سیکھنا، پھر ترجمہ کے ذریعہ اس کے مطالب پر غور کرنا، سمجھنا اور پھر تفسیر کا مطالعہ ہے۔ اسی طرح اس کو زیادہ سے زیادہ حفظ کرنا اور سب سے بڑھ کر اس کے حکموں کے مطابق اپنی زندگی گزارنا ہے۔ پڑھنے کے دوران بات سمجھ نہ آئے تو کسی استاد سے مدد لینا ضروری ہے۔ با لکل اسی طرح جس طرح دنیا کے باقی علوم کےلئے ہمیں استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن سیکھنے کےلئے عمر کی کوئی قید نہیں صرف جذبہ اور شوق کی ضرورت ہے۔ بغیر سوچے سمجھے تلاوت کرنے سے ہم وہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے جو اس عظیم الشان کتاب کے نزول کا مقصد ہے۔ اپنے نزول کے مقصد کے بارے میں خود قرآن فرماتا ہے کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ (ص: 30) یعنی یہ عظیم الشان کتاب، جسے ہم نے تیری طرف نازل کیا، مبارک ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور تاکہ عقل والے نصیحت پکڑیں۔
اسی بات کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام یوں بیان فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 285)
کچھ لوگ قرآن شریف پر یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ ایک مشکل کتاب ہے جو ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آتی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ (القمر: 18) اور یقینا ہم نے اس قرآن کو نصیحت کے لئے آسان بنایا ہے۔ پس ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔
چونکہ قرآن کا نزول اور حضور ﷺ کی بعثت کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ یعنی تمام انسانوں کے لئے ہوئی ہے اس لئے یہ ضروری تھا کہ قرآن کریم کی بنیادی تعلیمات عام فہم اور آسان ہوں تاکہ ہر قابلیت کا انسان ان کو سمجھ سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارہ میں فرماتے ہیں: ’’یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ اگر علم قرآن خاص بندوں سے مخصوص کیا گیا ہے تو دوسروں سے نافرمانی کی حالت میں کیوں کر مواخذہ ہوگا۔ کیونکہ قرآن کریم کی وہ تعلیم جو مدار ایمان ہے وہ عام فہم ہے اس کو ایک کافر بھی سمجھ سکتا ہے اور ایسی نہیں ہے کہ کسی پڑھنے والے سے مخفی رہ سکے۔ وہ اگر عام فہم نہ ہوتی تو کارخانہ تبلیغ ناقص رہ جاتا‘‘
(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد7 صفحہ53)
یہ تو عام قرآنی تعلیم کی بات تھی جو ہر ایک کو سمجھ آسکتی ہےاور یہ ہر زمانے میں عام رہی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے دقائق و معارف کے نازل ہونے کے بارے میں اللہ کا کیا دستور رہا ہے. سورة الحجر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآئِنُہٗ ۫ وَمَا نُنَزِّلُہٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ (الحجر: 22) ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں مگر ہم اسے ایک معلوم اندازے کے مطابق نازل کرتے رہتے ہیں۔
یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس ہر شے کے خزانے موجود ہیں اور وہ زمانے کی ضرورت اور حکمت کے مطابق ان کو اتارتا ہے۔ جیسے تمام معدنیات، تیل، ذرائع رسل ورسائل وغیرہ اللہ کی دی ہوئی عقل سے انسان نے اپنے اپنے وقت پر دریافت کئے۔ اسی طرح قرآنی حقائق و معارف بھی زمانے کی ضرورت کے مطابق کھلتے ہیں۔ حضور ﷺ پر قرآ ن نازل ہوا اور ہدایت کی تعلیم مکمل ہو گئی۔ مگر اس وقت کے لوگوں کو سائنسی ترقی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی باتیں سمجھ نہیں آسکتی تھیں جن کو ہم آج پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت قرآن کا پیغام بھی کم لوگوں تک پہنچا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام آخری زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے ذریعے کرنا مقدر کر رکھا تھا۔ اور آنے والے مسیح کی یہ فضیلت بیان ہوئی کہ وہ قرآنی فہم اور معارف لٹا ئے گا۔ اور آپ نے بار بار یہ اعلان فرمایا:
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امید وار
آج ہم وہ خوش قسمت ہیں جو ان خزانوں کے وارث ہیں۔ یہ خزانے حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء کی تفاسیر قرآن، اور دیگر کتب اور خطبات کی صورت میں موجود ہیں۔ نیز آج کے زمانے کی ضرورت کے مطابق حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ترجمۃ القران کلاسز جن میں آپ نے لفظی ترجمہ کے ساتھ آیا ت کی مختصر تشریح بھی بیان فرمائی ہے۔ جنہوں نے ان کلاسوں سے استفادہ کیا ان کو قرآن کریم سے غیر معمولی عشق اور محبت پیدا ہوئی۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو آپ میں سے ہر ایک کرسکتا ہے۔ اور ضرور کرنا چاہئے۔
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنی اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ ہدایت کے راستے تلاش کرنا چاہتا ہے۔ وہ نیک نیت ہوکر، پاک دل ہو کر اس کو پڑھے اور اپنی عقل کے مطابق اس پر غور کرے۔ اپنی زندگی کو اس کے حکموں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ کوشش تو بہر حال شرط ہے وہ تو کرنی پڑتی ہے۔ دنیاوی چیزوں کےلئے بھی کوشش کرنی پڑتی ہے اس کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘
(خطبہ جمعہ 24ستمبر 2004)
اگر ہم قرآن کریم کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں کرتے تو ہمیں قرآن مجید کی اس آیت کو یاد رکھنا چاہئے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ مِنۡ لَّدُنَّا ذِکۡرًا ﴿ۖۚ۱۰۰﴾ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡہُ فَاِنَّہٗ یَحۡمِلُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وِزۡرًا ﴿۱۰۱﴾
(طہ: 100-101)
اور یقینا ہم نے تجھے اپنی جناب سے ذکر عطا کیا ہے۔ اور جس نے اس سے اعراض کیا وہ یقینا قیامت والے دن بوجھ اٹھائے گا۔
قرآن کریم سے اعراض اس کے پڑھنے اور سیکھنے میں کوتاہی اور اس کے احکام پر عمل نہ کرنا ہے۔ اس کا اعراض قوموں کو دنیا میں ہی جہنم میں دھکیل دے گا اور قیامت کو وہ ان نافرمانیوں کے بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے۔
قرآن کریم میں دلچسپی نہ لینے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاید ہم میں سے بہت سوں نے اس کا ذاتی تجربہ ہی نہیں کیا۔ جس طرح دنیا کی باقی چیزوں کا ہم ذاتی طور پر تجربہ نہ کریں صرف دوسروں کے بتانے سے ان کا فائدہ اور لطف نہیں اٹھا سکتے۔ یہی حال کلام اللہ کا بھی ہے۔ جب انسان اس کو محبت کے ساتھ سیکھنے کی نیت سے پڑھنا شروع کرتا ہے تو رفتہ رفتہ اس کی تاثیرات کو محسوس کرتا ہے۔ قرآن کریم کی ایک زبردست تاثیر یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا عشق پیدا کرنے کی بے انتہا قوت ہے۔ اس میں ایک ایسی کشش ہےجو انسانی فطرت کو خدا کی طرف کھینچتی ہے اور اسے روشنی، سکون اور اطمینان کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان کو روز مرہ زندگی میں اپنے بہت سے سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں۔ اس کی ذات کے خلا پر ہوجاتے ہیں۔ ڈیپریشن اور اداسی دور ہوجاتی ہے۔ اور بہت سے معاملات میں انسان کی سوچ واضح ہو جاتی ہے۔ بس ہمارا کام اخلاص اور صبر کے ساتھ کوشش کرنا ہے۔ اس کےنتائج ہمیں خود بخود میں نظر آنے لگ جائیں گے۔ کبھی اطمینان قلب کی صورت میں، کبھی قبولیت دعا کی صورت میں، اور کبھی مشکلات کے حل کی صورت میں۔
قرآن کریم ابتدا میں ہی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ کتاب متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓ اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اس کتاب کے مطالعہ سے انسانی فطرت کو وہ ابتدائی دھکا لگتا ہے جو اسے عشق کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے۔ اور خواہ کسی درجے کا متقی ہو اس کی راہنمائی کےلئے اس کتاب میں پاک اور مصفیٰ الٰہی تعلیم موجود ہےجس سے متقی کے دل کو یہ تسکین حاصل ہوتی ہے کہ وہ صرف اپنی عقل سے کام نہیں لے رہا بلکہ اسے خداتعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت حاصل ہے۔ جس کی مدد سے وہ ہر قدم یقین اور اطمینان سے اٹھا سکتا ہے اور شک و شبہ کی زندگی سے پاک ہو جاتا ہے۔‘‘ پھر ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ کی مزید تفسیر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم میں ایسی قوت ہے کہ جب اس کے کسی ایک حکم پر انسان عمل کرے تو اسے مزید نیکیوں کی توفیق ملتی ہے اور اس کے خیالات میں جلا پیدا ہوتی ہے اور اس کا فکر اور اس کا حوصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ باریک در باریک تقویٰ کی راہیں اس پر کھولی جاتی ہیں۔ گویا وہ ایک لامتناہی نیکی اور تقویٰ کی نہ ختم ہونے والی راہوں پر چل پڑتا ہے اور اس کی ترقیات کی کوئی انتہا مقر ر نہیں کی جاسکتی‘‘
(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ92-93)
فصیح وبلیغ عربی زبان میں نازل ہونے والا یہ کلام اپنے مضامین کی وسعت وگہرائی، باریک در باریک چھپے ہوئے حقائق و دقائق، اختصار اور فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے ایسا بے مثل ہے کہ آج تک قرآنی چیلنج کے باوجود کوئی اس جیسی چھوٹی سے چھوٹی سورت یا آیت لانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔
یہ وہی پاک کلام ہے جسے مشہور قادرالکلام عرب شاعر لبید نے سنا تو اس کی عظمت کے آگے گھٹنے ٹیک دینے پر ایسا مجبور ہوا کہ شعر کہنے چھوڑ دیئے۔ چنانچہ جب اسے تازہ کلام سنانے کو کہا گیا تو کہنے لگا کہ میں نے جب سے سورت البقرہ اور اٰل عمران پڑھی ہیں۔ میں نے شعر کہنے چھوڑ دیئے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کا قبول اسلام بھی قرآنی تائید کا اعجاز تھا۔ وہ رسول اللہ کو نقصان پہنچانےکا پختہ ارادہ کرکے گھر سے نکلے۔ مگر راستے میں اپنی بہن کے ہاں سورة طہ کی ابتدائی آیات پڑھتے ہی کہہ اٹھے کہ یہ کتنا خوبصورت عزت والا کلام ہے اور اسلام قبول کرلیا۔ اور ساری عمر اسی قرآن کی پیروی اور عشق میں گزار دی۔
کوئی سوچ سکتا ہے کہ ابوجہل ہدایت کیوں نہ پاسکا۔ در اصل قرآن کریم سمجھنے اور اس سے ہدایت پانے کےلئے تقویٰ بنیادی شرط ہے۔ اور کم از کم تقویٰ یہ ہے کہ حقیقت یا سچائی کو دیکھ کر تسلیم کر لیا جائے۔ یعنی جو لوگ صداقت کو ماننے کےلئے تیار ہوں قرآن کریم ان کو ہدایت دیتا ہے۔ پھر قرآن سے ہدایت پانے کےلئے تکبر کو توڑنا اور عاجزی اور خاکساری کو اختیار کرنا ضروری ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’دینی علم اور پاک معارف کے سمجھنے اور حاصل کرنے کےلئے پہلے سچی پاکیزگی کا حاصل کرلینا اور ناپاکی کی راہوں کا چھوڑ دینا از بس ضروری ہے۔ اسی واسطے اللہ تعا لیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ لَا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ (الواقعہ: 80) یعنی خدا کی پاک کتاب کے اسرار کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو پاک دل ہیں اور پاک فطرت اور پاک عمل رکھتے ہیں۔ دنیوی چالاکیوں سے آسمانی علم ہرگز حاصل نہیں ہو سکتے‘‘
(ست بچن، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 126)
جس وقت قرآن نازل ہوا اس وقت عربوں میں ہر وہ برائی پائی جاتی تھی جو آج دنیا کے تمام مختلف ممالک میں پائی جاتی ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے نزول قرآن اور حضور ﷺ کی قوت قدسیہ نے ان کی کایا ہی پلٹ دی۔ پھر انہوں نے روحانیت اور تقویٰ میں ایسی ترقی کی کہ سب تاریکیاں ان سے دور ہوئیں اور آسمانی نور ان کے دلوں پر نازل ہوا یہاں تک کہ خود حضور ﷺ نے ان کے بارے میں گواہی دی کہ میرے صحابہ آسمان ہدایت کے روشن ستارے بن چکے ہیں۔ اب تم میں سے جو چاہے ان میں سے جس کی چاہے پیروی کرے وہ راستہ نہیں بھٹکے گا۔ انہیں صحابہ میں سے وہ بابرکت وجود بھی تھے کہ جنہیں رب العزت نے قرآ ن کی برکت سے فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دیا۔ وہ بادشاہی کے تخت پر بٹھائے گئے اور اسلام کے خلفائے راشدین کا بلند روحانی مقام پایا۔
قرآن خدانما ہے خدا کا کلام ہے
بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے
قرآن صرف روحانی علم و حکمت کا خزانہ ہی نہیں بلکہ سائنسی علوم کا سرچشمہ بھی ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے جب قرون وسطیٰ کے مسلمانوں نے قرآن کو حقیقی عزت دی تو وہ عظمتوں کی بلندیوں تک جا پہنچے۔ مسلمانوں کی لکھی ہوئی سائنس اور فلکیات کی کتابیں یورپی درسگاہوں میں چار سو سال تک پڑھائی جاتی رہیں۔ پھر جب مسلمان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن سے دور ہوئے تو نہ ان کا دین درست رہا اور نہ دنیا۔
پھر کئی سو سالوں کے بعد چودھویں صدی کے آخر میں ایک مسلمان احمدی سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام نے علم کے میدان میں دنیا کا سب سےبڑا نوبل انعام حاصل کرکے تاریخ کے دھارے کو موڑدیا۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں تھی۔ در اصل خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ مومن تعلیم کے میدان میں اپنی عظمت دوبارہ قائم کریں اور ایک بار پھر علمی دنیا کے امام بن کر ہمیشہ کےلئے اس کو قائم رکھیں۔ ڈاکٹر عبد السلام کی کامیابیوں کا ایک راز یہ ہے کہ انہوں نے قرآن سے رہنمائی حاصل کی اور سائنس پر تحقیق کو عبادت سمجھا۔ پس آج کی نو جوان نسل یہ نہ سمجھے کہ اگر انہوں نے قرآن سیکھنے میں وقت صرف کیا تو ان کی دوسری پڑھائی کا حرج ہوگا۔ بلکہ قرآن کی برکت سے دوسری تعلیم میں غیر معمولی آسانیاں پیدا ہوں گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو الہاما ًبتایا اَلْخُیْرُ کُلُّہُ فِیْ الْقُرْآن کہ تمام تر بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ اس لئے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہماری زندگیوں میں قرآن کریم سیکھنے اور پھر آگے سکھانے کی طرف خاص توجہ ہونی چاہئے۔
آنحضور ﷺ نے فرمایا خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ (بخاری) تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن سیکھتا اور دوسروں کو سکھاتا ہے۔ ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں میں سے کچھ لوگ اہل اللہ ہوتے ہیں۔ اس پر آپؐ سے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ! خدا کے اہل کون ہوتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا ’’قرآن والے اہل اللہ اور اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں۔‘‘
(ابن ماجہ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں۔ قرآن کریم کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے‘‘
(الحکم31؍ اکتوبر 1901ء)
پس کیوں نہ ہم اپنی کامیابیوں کو حاصل کرنے کےلئے یہ نسخہ آزمائیں۔ دین بھی سنور جائے گا اور دنیاوی مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری ہر بے چینی اور بے سکونی کا حل قرآن مجید میں موجود ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو قرآن شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔ یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن شریف پر عمل نہیں کرتے۔ عمل نہ کرنے والوں میں ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں۔ اور وہ اس کو خداتعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں۔ پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کےکلام سے ایسے غافل اور لاپروا ہیں ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفیٰ اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے۔ یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے۔ اسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمے پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہوکر اس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھاتا۔ مگر باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر۔ اور اس وقت تک اس سے دور رہتا ہے جو موت آکر خاتمہ کردیتی ہے۔ اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے۔ مگر نہیں اس کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ140)
اللہ کرے کہ ہم لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں ہیں قرآن کو سیکھ کر اس کی محبت کو اپنے دلوں میں بٹھانے والے ہوں تاکہ آسمان پر عزت پانے کے قابل ہوسکیں۔ آسمان پر عزت پانا کیا ہے یہی کہ ہمیں خدا کا قرب حاصل ہو۔ قبولیت دعا کے نشان ملیں۔ اور اس کے پیار کی نظر ہم پر پڑے۔ اور ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے۔
پایاب ہو تمہارے لئے بحر معرفت
کھل جائے تم پہ راز حقیقت خدا کرے
قرآن پاک ہاتھ میں ہو دل میں نور ہو
مل جائے مومنوں کی فراست خدا کرے
(طیبہ مبارکہ ۔ ناروے)