• 29 اپریل, 2024

چار چیزیں ہیں جن کے بغیر اصلاح مشکل ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ نیک اعمال بجا لانے کی عادت ڈالنے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ بغیر ان ذرائع کو اختیار کئے اصلاحِ اعمال میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ پس ان ذرائع کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔ یعنی ایمان کا پیدا کرنا، علمِ صحیح کا پیدا کرنا، ان باتوں کا تو گزشتہ خطبہ میں ذکر ہو گیا تھا اور قوتِ عملی پیدا کرنے کے ضمن میں نگرانی کرنا اور جبر کرنا، جن کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے۔

یہ چار چیزیں ہیں جن کے بغیر اصلاح مشکل ہے۔ جب ہم گہرائی میں جائزہ لیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ دنیا میں ایک طبقہ ایساہے جو ایمانی قوت اپنے اندر نہیں رکھتا۔ یعنی وہ معیار نہیں رکھتا جو اصلاحِ عمل کے لئے ایک انسان میں ہونا ضروری ہے۔ ایسے لوگوں کے دلوں میں اگر قوتِ ایمانیہ بھر دی جائے تو ان کے اعمال درست ہو جاتے ہیں اور ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو عدمِ علم کی وجہ سے گناہوں کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے لئے صحیح علم کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک طبقہ جو نیک اعمال بجا لانے کے لئے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ تین قسم کے لوگ ہیں اور اس کی احتیاج جو ہے وہ دو طرح سے پوری کی جاتی ہے۔ یا اُس کی بیرونی مدد دو طرح سے ہو گی۔ ایک تو نگرانی کر کے، جس کی میں نے ابھی تفصیل بیان کی ہے کہ نگرانی کی جائے تو بدیاں چھوٹ جاتی ہیں اور نیکیوں کی طرف توجہ پیداہو جاتی ہے لیکن وہ طبقہ جو بالکل ہی گرا ہوا ہو، جو نگرانی سے بھی باز آنے والا نہ ہو، اُسے جب تک سزا نہ دی جائے اُس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔

پس ان چاروں ذرائع کو جماعت کی اصلاح کے لئے بھی اختیار کرنا ضروری ہے اور ہر ایک کی بیماری کا علاج اُس کی بیماری کی نوعیت کے لحاظ سے کرنا ضروری ہے۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ جس زمانے میں مذہب کے پاس نہ حکومت ہو، نہ تلوار اُس زمانے میں یہ چاروں علاج ضروری ہوتے ہیں۔ پس جیسا کہ گزشتہ خطبہ میں ذکر ہو چکا ہے کہ پہلے علاج کے طور پر تربیت کر کے ایمان میں مضبوطی پیدا کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات، آپ کی وحی، آپ کے تعلق باللہ اور آپ کے ذریعہ سے آپ کے ماننے والوں میں روحانی انقلاب کا ذکر کیا جائے۔ اُنہیں بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے کیا فوائد ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا کہ اس دور میں جب شیطان بھر پور حملے کر رہا ہے تو ان باتوں کے بارے میں بتانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ذکر متواتر اور بار بار ہونا چاہئے۔ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت انسان کو کس طرح حاصل ہو سکتی ہے اور اُس کا پیار جب کسی انسان کے شاملِ حال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس سے کس طرح امتیازی سلوک کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اس بارے میں کس طرح بتایا ہے۔ مختلف قوموں سے جو نئے احمدی ہو رہے ہیں، افریقہ میں سے بھی اور زیادہ تر عربوں میں سے بھی، وہ اپنے واقعات لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھ کر اُن میں تبدیلیاں ہوئیں، اُن کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ بیشک کتب پڑھ کر اُن کی اعتقادی غلط فہمیاں بھی دور ہوئیں اور اعتقادی لحاظ سے اُن کے علم میں اضافہ ہو کر اُن کو ایمان کی نئی راہیں نظر آئیں۔ لیکن ایمان کی مضبوطی اُن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات کو دیکھنے، آپ کی وحی کی حقیقت کو سمجھنے اور آپ کے تعلق باللہ سے پیدا ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اُنہیں بعض نشانات دکھا کر اپنے قرب کا نظارہ دکھا دیا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نشانات، وحی، الہامات اور تعلق باللہ جو ہمارے دلوں میں بھی ایمان کی کرنوں کو روشن تر کرے، کی اہمیت اپنے انداز میں بیان فرماتے ہوئے یوں فرمایا کہ: حضرت عیسیٰ بیشک زندہ آسمان پر بیٹھے رہیں۔ اُن کا آسمان پر زندہ بیٹھے رہنا اتنا نقصان دہ نہیں ہے جتنا خدا تعالیٰ کا ہمارے دلوں میں مردہ ہو جانا نقصان دہ ہے۔ پس کیا فائدہ اس بات کا کہ تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر زور دیتے رہو جبکہ خدا تعالیٰ کو لوگوں کے دلوں میں تم مار رہے ہو اور اُسے زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ خدا تعالیٰ تو حیّ و قیوم ہے اور کبھی نہیں مرتا مگر بعض انسانوں کے لحاظ سے وہ مر بھی جاتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 31؍جنوری 2014ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

تلخیص صحیح بخاری سوالاً جواباً (كتاب الحیض) (قسط 16)

اگلا پڑھیں

مہدی آباد کے شہداء