• 29 اپریل, 2024

ممکنہ تیسری عالمی جنگ (قسط 4)

ممکنہ تیسری عالمی جنگ
قسط 4

12۔ لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ کا وجود

جنگ عظیم کے شروع یعنی ابتدائے 1915ء میں امریکہ میں ایک لیگ معرض وجود میں لائی گئی۔اس نے مطالبہ کیا کہ حکومتیں جنگ نہ کریں بلکہ جب کسی کا جھگڑا ہو تو آپس میں ملکر فیصلہ کر لیا کریں۔ انہوں نے مختلف انجمنیں بنا کر ہر جگہ لیکچر شروع کر دیئے۔ 1918ء کی ابتدا میں امریکہ کے پریذیڈنٹ ولسن نے چودہ اصول شائع کئے جن کے ذریعے سے ان کے خیال کے مطابق دنیا کی جنگوں کا خاتمہ ہو جانا چاہئے اس طرح 28؍اپریل 1919ء کو لیگ آف نیشنز کی بنیاد جینیوا میں رکھی گئی۔ اس میں یہ بنیادی اصل تھا کہ فوجیں زیادہ نہ رکھی جائیں لیکن ایسی کوئی بھی تنظیم دوسری جنگ عظیم کو نہ روک سکی۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ 10؍ستمبر 2004ء میں ارشاد فرمایا:
’’نیکی تو اللہ تعالیٰ کی خشیت سے پیدا ہوتی ہے، وہ کیونکہ ان میں نہیں تھی اس لئے نیکیوں پر قائم نہ رہ سکے۔ ذاتی، ملکی اور ہر قوم کے قومی مفاد آڑے آگئے اور دوسری جنگ عظیم کو بھی نہ روک سکے اور پھر یو این او بنی لیکن وہ بھی دیکھ لیں اب چند قوموں کے ہاتھوں میں ہے۔ اب پھر حالات اسی نہج پر چل رہے ہیں۔ غریب ملکوں کو ایک طرح سے یرغمال بنا کر ان پر ظلم کئے جارہے ہیں، ان کے وسائل کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی من مانی شرطیں منوائی جاتی ہیں۔ اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے ان کو نام نہاد امداد دی جاتی ہے پھر ان کے وسائل کو اپنے ملکوں کی ترقی کے لئے خرچ کیا جاتا ہے اور غریب ملکوں کے عوام غربت اور فاقے کی زندگی بسرکر رہے ہوتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اگر کوئی آواز اٹھائے تو اسے بندوق کی نوک پر چپ کرایا جاتا ہے اور پھر یہ دعویٰ کہ ہم دنیا میں امن قائم کر رہے ہیں، نیکی پھیلا رہے ہیں، غریب انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔ یہ سب جھوٹے دعوے اور ڈھکوسلے ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد دوم صفحہ645-646)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے صدر پیوٹن کو لکھے گئے خط سے اقتباس، جو ذیل میں نقل کیا گیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: میں خاص طور پر آپ سے اس نقطہ پر متفق ہوں کہ اگر مختلف ممالک اپنی انفرادی حیثیت اور اپنی مرضی سے فیصلے کرتے ہیں، تو ایسی صورت میں اقوام متحدہ کا بھی وہی حال ہو گا جو لیگ آف نیشنز کا ہوا اور یہ بھی ناکام ہو جائے گی۔

I particularly agreed with your point that if countries decided to act independently and made unilateral decision then the United Nations would suffer the same fate as the League of Nations and would fail.

(WORLD CRISIS AND PATH WAY TO PEACE page 259)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ارشاد ذیل میں نقل کیا جا تاہے فرمایا بدقسمتی سے لیگ آف نیشنز کے قوانین اور جو قراردادیں اس نے پاس کیں ان میں بعض نقائص اور کمزوریاں موجود تھیں پس وہ معقول طور پر ساری اقوام عالم کے عوام کے حقوق کا تحفظ برابری کی بنیاد پر نہیں کر سکی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس غیر مساویانہ سلوک کی وجہ سے دیرپا امن کا قیام محض ایک خواب ہی رہ گیا۔ لیگ آف نیشنز کی کوششیں ناکام ہو گئیں اور اس نے دنیا کو دوسری جنگ عظیم کی طرف دھکیل دیا۔

Unfortunately, the rules of the League and the resolutions it passed had certain flaws and weaknesses and so they did not properly protect the rights of all peoples and all nations equally. Consequently, as a result of the inequalities that existed long term peace could not prevail. The efforts of the League failed and this led directly to World War II.

(WORLD CRISIS AND PATH WAY TO PEACE, page 86)

13۔ دوران جنگ پیش آنے والے
بعض دلچسپ واقعات

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے ایک تاریخی واقعہ بیان فرمایا:
’’حرب عظیم کے ایام میں 1918ء میں ایک موقع پر فرانسیسی اور انگریزوں کی فوجوں کو‘‘ ہیلی کا میدان‘‘ خالی کر دینا پڑا اس وقت لارڈ ہیگ نے سر لائڈ جارج کو جو پرائم منسٹر تھے، تار دیا۔ لائڈ جارج اس وقت اپنے وزراء کولے کر مشورہ کر رہے تھے، تار کا مضمون یہ تھا کہ دنیوی تدابیر کا خاتمہ ہو چکا سوائے آسمانی ہاتھ کے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اسی وقت لائڈ جارج کھڑا ہو گیا اور اپنے وزراء کو لے کر دعا میں مصروف ہو گیا اور کہا اب تدبیر کا وقت نہیں رہا۔ میں نہیں جانتا خدا تعالیٰ نے ا س دعا کوسنا یا دنیوی سامان پید اہو گئے مگر یہ واقعہ ہے کہ جرمنوں کو کئی گھنٹہ تک معلوم نہ ہو سکا کہ میدان خالی ہے۔ اتنے میں پیرس سے فوجیں لائی گئیں اور شکست فتح سے تبدیل ہوگئی۔‘‘

(انوارالعلوم جلد10 صفحہ15)

ذیل میں جو واقعات ہیں۔

GUINESE BOOK OF MORE ARMY BLUNDERS سے شکریہ کے ساتھ نقل کئے جا رہے ہیں۔

ستمبر 1939ء کو برطانیہ میں ایک نئے نئے قائم شدہ ریڈار کے نظام میں گڑ بڑ ہوئی اور اس نے اطلاع دی کہ بہت سے جرمن جہاز حملہ کرنے آرہے ہیں۔ اس پر فائٹر پائلٹس کومقابلہ کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا، گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی۔ برطانوی سپٹفائر (یہ ایک سیٹ والا جنگی جہاز تھا) نے اپنے ہی ہُوریکین (یہ ایک سیٹ والا جنگی جہاز تھا) کو گرا دیا اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی طیارہ شکن توپوں نے اس دوران ایک اپنے ہی سپٹفائر کو مار گرایا۔

1941ء سے 1944ء تک یہ بات دیکھنے میں آئی کہ 45فیصد جرمن طیارے جو اس دوران تباہ ہوئے وہ کسی ہوائی جنگ میں ضائع نہیں ہوئے تھے بلکہ وہ ہوائی جہاز کے عملے یا پھر اپنی ہی ’’دوستانہ گولہ باری‘‘ کا شکار ہوئے تھے۔ اس صورتحال میں یہ ڈر تھا کہ جرمنی کی ہوائی جنگ کی قوت کو کسی وقت بھی شدید دھچکالگ سکتا ہے اور دوسری طرف امریکہ کی ائیر فورس کا معاملہ اس سے بھی زیادہ بُرا تھا صرف ایک 1943ء میں 2264ہواباز ہوائی حادثوں میں ہلاک ہوگئے، اور جہاز کے دوسرے عملہ کی تعداد 3339 تھی اور اس سے اگلے سال کوئی زیادہ بہتری نہیں آئی تھی۔ لہٰذا 1944ء میں 16128حادثات ہوئے جس میں امریکہ کے 1936 ہوا باز اور اس کے علاوہ 3037 عملہ کے افراد لقمہ اجل بن گئے۔ طیارے اس مقدار میں گرتے رہتے تھے کہ فلوریڈا کے ہوائی اڈہ پر یہ ایک مقولہ بن گیا تھا ’’ONE A DAY, IN TOMBA BAY‘‘ یعنی خلیج تونبا میں ایک طیارہ، گرے گا روز ہمارا۔

دوسری جنگ عظیم کے شروع میں جرمن ہوائی جہازوں کی مدد زمینی فوج کو حاصل ہوتی تھی۔جنرل وان میلنتھن کو پولینڈ میں ایک بڑے تلخ تجربہ سے گزرنا پڑا۔ جب ایک نیچی پرواز کرتا ہوا ایک طیارہ اس کے ہیڈکوارٹر کے اوپر سے گزرا۔ اُس وقت جہاز کی شناخت کئے بغیر ہی طیارہ شکن توپوں نے فائر کھول دیا۔ خیریت گزری کہ طیارہ بغیر کسی نقصان کے محاذ پر اتر گیا، طیارہ شکن توپوں کا عملہ جن کو اُن کی غلطی سے آگاہ کردیا گیا تھا، اس طیارہ کے گرد اکٹھا ہو گیا تھا، اور شناختی علامات کو دیکھ رہا تھا کہ جنرل ہرمن گورنگ جو کہ لوفتھواف کا کمانڈر انچیف تھا برآمد ہوا۔ اس کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ جا کر جنرل وان میلنتھن کو آگاہ کر دے کہ اب سے ہوائی مدد بری فوج کو نہیں دی جائے گی۔ اس پر از رہ تفنن جنرل وان نے کہا کہ ’’ہم نے مذاق کیا تھا لیکن جنرل صاحب بُرا مان گئے اور ہماری ہوائی مدد بند کر دی‘‘۔

جولائی 1943ء کو امریکن فوجیوں کو پیراشوٹ کی مدد سے جرمنی کے محاذ کو عقب میں اتارا گیا۔ ہوا یوں کہ اس مہم سے پہلے جرمنی نے اس محاذ پر ہوائی حملہ کیا تھا جس کی وجہ سے طیارہ شکن توپوں کا عملہ بہت الرٹ تھا اور اسی اثنا میں قریبی بحری جہاز سے ایک طیارہ شکن توپ نے اسی بدحواسی میں فائر کھول دیا اس کے نتیجے میں جو جہاز پیرا شوٹ کے ذریعے فوجیوں کو گرا رہے تھے ان میں سے 33جہاز شعلوں کی لپٹوں کے ساتھ زمین پر آ رہے۔ اس کے علاوہ دوسرے 37 جہازوں کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ 318 لوگ شدید زخمی ہوئے اور 88 لوگ موت کا شکار ہو گئے۔ فضا جلتے پیراشوٹ اور دھویں سے بھر گئی تھی۔ اس حادثہ کے بعد امریکہ نے اس قسم کے آپریشن کو آئندہ کے لئے منسوخ کر دیا۔

23؍ستمبر 1950ء کو شمالی کوریا کی ایک پہاڑی پر جسے ’’پہاڑ 282‘‘ کہا جاتا تھا، برطانوی فوجوں نے قبضہ کر لیا اور ہوائی فوج کی مدد طلب کی گئی۔ بری فوج نے اپنی پوزیشن کو دکھانے کے لئے پینل لگائے تھے مگر جب ہوائی مدد آئی تو انہوں نے انہی پینلز کے اوپر بمباری شروع کردی جس کی وجہ سے نہ صرف سترہ/ 17جانیں ضائع ہوئیں بلکہ 76 فوجی بھی زخمی ہو گئے اور اب جان بچانے کے لئے اس مقام کو چھوڑنا بھی ضروری ہو گیا اور اس جگہ پر دوبارہ کامونسٹ نے قبضہ کر لیا تھا اب یہ ایک چیلنج تھا میجر کینتھ کے لئے لہذا اس نے اپنے بچے کھچے 30فوجیوں کے ساتھ دوبارہ حملہ کر دیا اور واپس قبضہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعد ایسا ہو ا کہ میجر کینتھ کی وفات ہو گئی جبکہ اس بہادری اور جراٴت پر میجر کینتھ کے لئے اس کی وفات کے بعد پوستھومس وکٹوریا کراس کا اعلان کیا گیا۔

جنگ کی تباہ کاریاں، کسمپرسی،
مخدوش انسانی شب و روز

مندرجہ ذیل سطور میں ان مخدوش حالات، کسمپرسی، قحط، بیماریوں، بے وطنی کے مسائل، خوف، بدقسمتی، عزیزو اقارب کی مفارقت اور دیگر مصائب جو جنگ اپنے ساتھ لے کر آتی ہے، کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ امن کو پسند کرتا ہے بلکہ چرند پرند بھی اس جگہ سے نقل مکانی کر جاتے ہیں جہاں خوف اور بے امنی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ 4؍مارچ 1983ء میں بیان فرمایا:
’’ایک دفعہ بموں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ہلاکت کے متعلق انگلستان کے وزیر اعظم اور امریکہ کے صدر کے درمیان گفتگو ہوئی۔ انگلستان کے وزیر اعظم کی مدد کے لئے ایک سائنسدان جوان باتوں سے واقف تھاوہ بھی اس کے ساتھ گیا ہوا تھا۔گفتگو کے دوران اس نے امریکہ کے صدر سے کہا اگر آج لڑائی چھڑ جائے تو آپ کا ملک جو بڑا وسیع ہے اس کا کچھ نہ کچھ حصہ لازماً بچ جائے گا مگر ہمارے ملک کا کیا بنے گا؟ کیونکہ ہمارے اندازے اور جائزے کے مطابق سارے انگلستان کو ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے نابود کرنے کے لئےصرف تین چار بموں کی ضرورت ہے۔۔۔پھر اس سائنسدان نے انگریزی میں کہا:

TO BE ON THE SAFE SIDE AT MOST SEVEN WOULD BE ENOUGH.

اس نے safe side کا محاورہ بڑے دلچسپ رنگ میں استعمال کیا کہ اگر محفوظ اور محتاط اندازہ کرنا ہو تو زیادہ سے زیادہ سات بم کافی ہوں گے اس سے زیادہ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔‘‘

(خطبات طاہر جلد دوم صفحہ135-136)

سائنسدانوں نے سال 1958ء میں ایک بہت محتاط اندازہ لگایا کہ اگر دوسوپچاس بم امریکہ پر گریں تو کیا نقصان ہو سکتا ہے اور یہ فرض کیا گیا کہ اگر ان کی طاقت دس میگا ٹن انرجی ہو اور ان میں سے اگر پچاس فیصد نہ پھٹ سکیں۔ اسی طرح فرض کیا گیا کہ اگر یہ بم جو ہیں ان میں سے 144 صنعتی اور شہری آبادی پر گریں، 59فوجی علاقوں میں اور 32 فوجی اور شہری ملے جلے علاقوں پر۔ فرض کیا گیا کہ اگر امریکہ کی آبادی 175000000 ہوتو نقصانات کا تخمینہ کیا ہو گا۔ اس تحقیق کے نتائج یہ تھے کہ پہلے دن جب بم گرائے جائیں گے تو 42 ملین لوگ مر جائیں گے اور 66 ملین لوگ شدید زخمی ہوں گے اور ستاسٹھ / 67ملین لوگ اس سے بچ جائیں گے۔ اس کے بعد اگلے سات دنوں میں زخمیوں میں سے سترہ ملین مر جائیں گے اور مزید سات دن کے بعد بارہ ملین ان زخمیوں میں سے موت کا شکار ہو جائیں گے اور اس کے مزید پینتالیس دن کے بعد زخمیوں میں سے مزید بارہ ملین موت کا شکار ہو جائیں گے۔ لہذا حادثہ کے دن سے لے کر ساٹھ /60 دن کے اندر کل اموات 83/تراسی ملین ہوں گی شدید زخمی پچیس ملین ہوں گے۔ اس ساری تحقیق میں یہ بات مزید وا ضح کی گئی کہ اس تخمینہ میں متاثرہ پانی، متاثرہ کرۂ ارضی اور آگے طویل مدت تک چلنے والے تابکاری کے اثرات کو شمار نہیں کیا گیا۔

(نو مور وارز صفحہ 140)

بھوک اور افلاس جوجنگ لے کر آتی ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد انگلستان کی حکومت جو کسی زمانہ میں بہت بڑی اور قومی حکومت سمجھی جاتی تھی جن کا اقتصادی نظام بہت مستحکم تھا اس حکومت کے باشندوں کے لئے بھی اور اس ملک کے باشندوں کے لئے بھی، یعنی سب امیر و غریب کو شدید بھوک کا سامنا آن پڑا چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے وہ ترستے تھے۔ میٹھا دیکھنے کو ان کی آنکھیں ترس گئیں تھیں۔ ڈبل روٹی جو وہاں ایک روزمرہ کی خوراک ہے اور اس کی کوئی حیثیت ہی نہ تھی اس کے حصول کے لئے لمبی لمبی قطاریں لگتیں اور وہ بہت خوش قسمت خود کو سمجھتا جب اسے ڈبل روٹی ملتی۔

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ بلا شبہ تابکاری کے اثرات سے انسانوں کو مختلف بیماریوں سے جن میں خون میں سفید ذرات کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے اور مریض کو بار بار خون لگانا پڑتا ہے ہڈیوں کا کینسرلا حق ہونے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

(نو مور وارز صفحہ 136)

A Woman in Berlin, By Marta Hillers aka anonymous (z-lib. org. pdf)

یہ کتاب ایک ڈائری ہے جو ایک خاتون نے تحریر کی جب روسی فوجیں جرمنی میں بطور فاتح داخل ہو گئی تھیں۔ یہ خاتون اس سے قبل بطور ایک صحافی کے کئی ایک ملکوں کا دورہ کر چکی تھی اور انہی سفروں کے دوران اس کو کسی حد تک روسی زبان سیکھنے کا موقع بھی ملا تھا۔ اس کو ان حالات میں اپنے ایک دوست کے اپارٹمنٹ میں پناہ لینی پڑ ی۔ ذیل میں اس کی ڈائری سے ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے۔

اپریل 1945ء بروز جمعہ: بھوک مٹانے کے لئے گھر کے تینوں کمروں کی بہت تفصیلی طریقہ پر تلاشی لی مگر کھانے کی چیز نہ مل سکی۔ البتہ ایک خط مل گیا، مجھے اس کو پڑھتے ہوئے شرم آ رہی تھی مگر میں اس کو آخر تک پڑھا یہ ایک محبوب کا خط تھا اس کے محبوب کے نام، پھر میں نے خط کو فلش میں پھینک کر بہا دیا یہ ہماری خوش قسمتی کہ سپلائی کا پانی گھر میں ابھی تک آ رہا ہے۔ (دل، درد، محبت، خواہشات یہ الفاظ ہمارے لئے اب اجنبی ہو چکے ہیں، کتنے دور کے زمانوں کی باتیں لگتی ہیں یہ سب)، زندگی کو تو تین وقت پیٹ کی آگ بجھانا کو خوراک کی طلب ہوتی ہے۔ اب اس وقت جو میں یہ سطور تحریر کر رہی ہوں میری سوچوں کا محور میرا خالی معدہ ہے۔ تمام سوچیں اور تمام جذبات شروع ہوتے ہیں کہ ‘‘ کھانے کو کیا مل سکتاہے’’ مصنفہ کی بات کو اہلِ پنجاب یوں کہا کرتے کہ ‘‘پیٹ نہ پئیاں روٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں’’ یعنی اگر کسی کو آپ نے کھانانہیں دیا تو پھر باقی ساری باتیں آپ کی اس کےلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں یا پھر اگر بھوکے سے پوچھو گے دو اور دو، تو وہ کہے گا چار روٹیاں۔

اسی دن اس خاتون نے مختلف سامان تعیش جو ہم جمع کرتے رہتے ہیں ان کی بابت تحریر کیا کہ ہمارا ریڈیو گزشتہ چار دن سے خاموش ہے۔ ایک دفعہ پھر اگر ہم ان سب ایجادات جو ہمیں میسر ہیں کی طرف نظر کریں تو سب ہی مشکوک لگتی ہیں، اگر گھر میں بجلی ہی نہیں توساری مشینیں بیکار ہو جاتی ہیں۔ بہر حال بریڈ ایک حقیقی وجود ہے، کوئلہ ایک حقیقت ہے اور سونا تو سونا ہے چاہے آپ کسی ملک یا شہر میں ہوں۔ جبکہ موجودہ ترقی یافتہ زمانے کے ریڈیو، گیس کے چولہے، سنٹرل گرمی کانظام، کھا نے کے لئے گرم پلیٹیں یہ سب کچھ ایک خواہ مخواہ کا بوجھ ہے جو ہم اٹھائے پھرتے ہیں، اگر بجلی ہی میسر نہ ہو تو۔ اس لمحے تو ایسا لگ رہا ہے کہ ہم غاروں کی زندگی کے دور کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

جنگ عظیم اول کے بعد جرمنی نعرہ لگا رہا تھا یعنی وہ ہٹلر کو ڈرائیورکہہ رہے تھےجبکہ دنیا دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی تھی اوّلاََ وہ جن کو زندگی کی سہولتیں میسر تھیں اور دوم وہ جن کے پاس زندہ رہنے کے لئے کچھ بھی موجود نہ تھا۔ امریکہ کے جو کارپوریٹ ادارے تھے جنگ کے سبب وہ بہت امیر ہو گئے تھے لیکن عام مزدور اور ملازم کے اوپر کسمپرسی کی نوبت آگئی تھی۔ یہاں تک بھی ہوا کہ وائٹ ہاؤس کے سامنے جب امریکن فوجی جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا تھا، اُن پر گولی چلا دی گئی، جب وہ اپنی جنگی خدمات کے عوض اپنے لئے مراعات کے حصول کے لئے مظاہرہ کررہے تھے۔ لیکن آج بہت سے لوگ ان مصیبتوں کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔

جرمنی کے بُرے دنوں کی کہانی: یورپ میں یکم جنوری 1945ء کو برلن برباد ہو چکا تھا۔ روسی فوجیں بہت سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھیں اور انہوں نے پولینڈ اور Czechoslovakia (چیکو سلوواکیہ) کو جرمنی سے آزاد کروالیا تھا۔ جرمن ریڈیو نے ریڈ آرمی کی فتوحات کو سٹیم رولر سے اور پھر اُس کو لینڈ سلائڈ سے اور پھر برفانی تودہ گرنے سے تشبیہ دے دی۔ خوف زدہ پناہ گزین دور دراز سے برلن آ رہے تھے اور دوسری طرف برلن پر رات میں برطانوی ائرفورس بمباری کرتی اور دن میں امریکی جہاز بمباری کر رہے تھے۔ قوت بازو کی کمی کی وجہ سے جرمن خواتین اینٹی ائیر کرافٹ توپوں کو چلا رہی تھیں۔ جب کہ بچے اور بوڑھے مورچے کھودنے میں لگے ہوئے تھے۔ نیدر لینڈ کا بہت سا علاقہ اینگلو کینیڈین فوجوں نے آزاد کروا لیا تھا۔ یہ تمام بُری خبریں ساتھ ساتھ ہٹلر کو دی جا رہی تھیں اور اس کا اعصابی نظام اس سے متاثر ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے کئی جنرل نے اس کو مشورہ دیا کہ ہتھیار پھینک دیئے جائیں مگر وہ اس سے اتفاق نہیں کر رہا تھا۔

14۔ اسلام میں جنگی قیدیوں کے ساتھ
حسن سلوک کے احکامات

سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ اسلام جنگ کو مٹاتا ہے اور صرف اسی صورت میں جنگ کی اجازت ہے کہ دین پر عمل کرنے کی اجازت نہ مل رہی ہو، اور کمزوری کی حالت میں اس وطن سے ہجرت کا حکم دیتا ہے۔ اسلامی ریاستوں کو جہاں جہاں توسیع دی گئی وہاں کے عوام کو حق دیا گیا کہ وہ چاہیں تو اسلام قبول کریں اور چاہیں تو فدیہ دینا تسلیم کر لیں اور اپنے دین پر کاربند رہیں۔

جنگی قیدیوں کی بابت اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ہے کہ اُن کو احسان کر کے چھوڑ دو۔ تاوانِ جنگ لے کر چھوڑ دو۔ ان سے ان کی طاقت کے موافق کام کراؤ۔ جو شادیوں کے قابل ہوں ان کی شادیوں کا اہتمام کرو۔ (النور: 33)

دو معاہدات ہیگ امن کانفرنس کے تحت 1899ء اور 1907ء میں ہوئے جن میں جنگی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کے قواعد و ضوابط طے کئے گئے۔ جنگ عظیم او ل کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ یہ معاہدے ناکافی ہیں لہٰذا 1929ء میں جینیوا میں ایک کنونشن میں ان قواعد و ضوابط کو مزید بہتر بنایا گیا۔ لیکن ان معاہدات پر زیادہ عدم عمل درآمد کی صورت روس اور جاپان میں دیکھنے میں آئی۔ اس معاہدہ کے مطابق قیدی صرف اپنی شناخت بتائے گا اور کوئی دوسری معلومات اس کے ملک یا اپنے کام کے متعلق بتانے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ اسی طرح اس کو خط لکھنے وصول کرنے اور پارسل وصول کرنے کا حق ہوگا۔ اُس کو یہ بھی حق ہو گا کہ اگر وہ قید سے بھاگتا ہے تو اس کو اگر دوبارہ گرفتار کر لیا جاتاہے تو اس کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ اس کے علاوہ معقول خوراک اور طبی سہولتوں کا حق دار ہو گا۔ قیدی سے بیگار نہیں لی جائے گی۔ قیدی کو اپنے ملک میں دی جانے والی تنخواہ یا پھر قید کرنے والے ملک نے جو الاؤنس دینے کا فیصلہ کیا ہے، دونوں میں سے جو بھی کم تر ہو گا وہ اس کو دیا جائے گا۔ اجرت کے بدلے قیدی سے کام کروایاجا سکے گا مگر اس صورت میں وہ کام کی جگہ کوئی خطرناک جگہ نہیں ہونی چاہئے اور کسی طور ان سے فوجی خدمات نہیں لی جائیں گی۔ غیر جانبدار اتھارٹی کو کیمپ کا دورہ کرنے کی اجازت ہو گی سویٹزرلینڈ اور سویڈن نے دوسری جنگ عظیم میں غیر جانبدار ممالک کا کردار ادا کیا تھا۔

(بشکریہ: اے ٹیسٹ آف وار)

قیدیوں سے بد سلوکی کی مثال

جاپان کا سلوک اپنے قیدیوں کے ساتھ بالکل غلاموں جیسا ہوتا تھا۔ جاپانی اپنے جنگی قیدیوں کو بانس کی چھڑیوں، رائفل کے بٹ اور اپنی تلوار کی کُند طرف سے مارا کرتے تھے اور جاپانی اپنے اس فعل کو چھپاتے نہیں تھے۔ بہت سے امریکی اخباری نمائندوں نے ایسے مواقع کی تصویریں اتاری تھیں جس میں قیدیوں کو کھیتوں میں کام کرتے دکھایا گیا تھا، ان پر غلاموں جیسا سلوک روا رکھا گیا تھا، ان کے ہاتھ پیچھے باندھ کر ان کو گولی مار کر ہلاک کیا جا رہا تھا۔ جاپانی اس بات کو خاص طور پر لازم کرتے تھے کہ امریکن قیدی ان کی عزت کریں اور اس مقصد کے لئے قیدیوں کو مختلف سزائیں دی جاتی تھیں۔ اسی طرح جب قیدیوں سے جیل سے باہر کام کروایا جاتا تو ان کے تمام کپڑے اتروالیتے اور جوتے بھی اتروالئے جاتے، ماسوائے ایک چھوٹے سے پہلوانوں والے ستر کے تا کہ وہ بھاگ نہ سکیں۔

(بشکریہ: اے ٹیسٹ آف وار)

جاپانی جیل کے حالات اور وہاں سے
فرارہونے والے امریکن پائلٹ کی داستان

وہ عجیب دلدل جیسی زمینیں تھیں جن میں ہم سے کام لیا جاتا تھا۔ ان کی بدبو کئی فرلانگ قبل آنا شروع ہو جاتی۔ کھانے کو ہرروز پورے دن میں 600گرام چاول ملتے، اور ہم ہر وقت بھوکے ہی رہتے۔ اگر جاپانی کوئی اپنا بچا کھچا کھانا ہماری طرف پھینکتے تو ہم پہلے ہی اس کے منتظر ہوتے تھے۔ یا پھر جاپانی کچن سے بہہ کر آنے والا نیم خراب شدہ جوس یا کوئی چھپکلی یا سانپ۔ جب ہم کو کھیتوں میں کام پر لے جایا جاتا تو وہاں اکثر کوبرا نظر آ جاتے جن کو ہم چھڑیوں سے مار کر کمرسے لپیٹ لیتے اور کیمپ میں آکر رات کو اس کو آگ پر بھونتے۔ ہم سب کے سب ہیضہ اور دستوں کی بیماری میں گرفتار تھے۔ ہم قیدی نہیں بلکہ جاپانیوں کے غلام تھے ہر بڑا افسر جو قید میں تھا یہاں تک کہ جنرل وین رائٹ کو بھی سلیوٹ کرنا پڑتا ان کے معمولی رینک کے فوجی یا پرائیویٹ کو اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو وہ تھپڑ مارتا یا دھوپ میں کھڑا کر دیتا۔ ایک ہی راستہ تھا کہ ہم سوچنا چھوڑ دیں۔ انسان کا دماغ بھی ایک عجیب دلچسپ مشین ہے یہ ایک وقت میں تین دنیاؤں میں چل رہا ہوتا ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل اور ہم لوگ ماضی اور مستقبل میں رہا کرتے تھے، زیادہ تر ماضی میں۔ جاپانی ہم سے ہماری انگوٹھیاں، گھڑیاں، جو نظر آتا لے لیتے ایک دفعہ ایک ہمارے ماسٹر سارجنٹ سے اس کے مصنوعی دانت لے کر ایک جاپانی نے اپنے پاؤں کی ایڑی سے توڑ دیئے۔ قید ہونے سے تھوڑی دیر پہلے ہم نے اپنے تمام ہتھیاروں، قیمتی اور خوبصورت جنگی سازو سامان کو خود اپنے ہاتھوں تہس نہس کیا یہ ایک بہت ہی تکلیف دہ کام تھا۔ ایک ماہ کی تنخواہ آئی ہوئی تھی اور تقسیم نہ ہوئی تھی اس کو سڑ ک کے کنارے پھینک کر آگ لگا دی۔ جب ہم قید کرلئے گئے تو پہلے دن کوئی پانی دیا گیا نہ خوراک اگلا دن بھی ایسے ہی گزرا، اور اس کے بعد جہاں کہیں جوہڑ میں پانی نظر آتا ہم اس کو پینے کو چل پڑتے۔ کسی کو پرواہ نہ تھی کہ نقصان ہو سکتا ہے۔ ہر طرف لاشیں پڑی تھیں اور بو اُٹھ رہی تھی۔ پانچویں دن جب ہم چل رہے تھے بارش شروع ہو گئی۔ ہم نے منہ اوپر کو کئے ہوئے تھے تا پینے کو پانی مل جائے، اسی دن ہم کیمپ پہنچ گئے تھے۔ کوئی دوائی، کوئی مرہم پٹی اور کسی چھوٹی سے چھوٹی سرجری کا کوئی انتظام نہ تھا۔ وہ قیدی جن کو معمولی جراحی /سرجری کرکے بچایا جا سکتا تھا ہمارے سامنے مر رہے تھے۔ جاپانیوں نے ہمیں دس دس کے گروپس میں تقسیم کر دیا، اس گروپ کے افراد کو سگے بھائی کہا جاتا تھا۔ ہم سب ایک دوسرے پر نگران تھے، ایک گروپ کا ایک آدمی چلتے چلتے جنگل میں بھاگ کر روپوش ہوگیا تو اس گروپ کے باقی نو افراد کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا گیا اور یہ سب تماشا باقی قیدیوں کو دکھایا جا رہا تھا اور اُن 9 میں سے ایک قیدی کا بھائی بھی یہ سب دیکھ رہا تھا۔ مرنے سے قبل اُس فوجی نے کہا ’’ماں سے کہنا میں نے اس کو خدا حافظ کہا تھا‘‘ کچھ عرصہ کے بعدہمارے اس کیمپ کے قیدیوں کو دو بحری جہازوں کے ذریعہ کہیں اور منتقل کیا جا رہا تھا۔ راستے میں ایک جہاز کو امریکن آبدوز نے ہٹ کر دیا۔ شام کا وقت تھا جہاز کو اتنا نقصان ہو گیا تھا کہ جہاز بہت تیزی سے ڈوب رہا تھا اتنی جلدی کہ لائف بوٹ بھی جہاز سے نہ اتاری جا سکیں۔ اس وقت چند کشتیاں جو ان جہازوں کے ساتھ پٹرول بوٹ کے طور پر چل رہی تھیں اوپر نیچے چکر کاٹ رہی تھیں۔ اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ جاپانی میگا فون پر کچھ اعلان کر رہے تھے۔ میں اور میرے تین ساتھی ہم ایک طرف کنارے پر پہنچ کر چھپنے میں کامیاب ہو گئے۔ اگلے دن ایک فلپائنی لڑکا ہم کو اپنے گاؤں لے گیا گاؤں والوں نے بہت اچھا سلوک کیا، جبکہ ہم بہت خوفزدہ تھے۔ ہم اس گاؤں میں چند دن ٹھہرے یہاں تک کہ چلنے کے قابل ہو گئے تواُسی لڑکے نے ایک چھوٹی سی کشتی پر ہم کو لے کر ایک امریکن جہاز تک پہنچایا۔ اس سارے سفر میں شدید خطرہ تھا کہ کسی وقت بھی جاپانیوں کی نظر میں آسکتے ہیں۔ لیکن ہم جہاز تک پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ہم نے دیکھا جہاز امریکہ کا تھا، جہاز کا پینل امریکہ کا بنا ہوا تھا، اس کا کمپاس اور اسٹیئرنگ امریکہ کا بنا تھا، لوگ سارے امریکن تھے صاف ستھرے صحت مند۔ وہ ہم کو اور ہم ان کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ زیادہ بولنے کی ہمت ہی نہ تھی۔ اُنہوں نے پوچھا، ’’کیسا رہا؟ کیا حال ہے؟‘‘ جواب بس اتنا ہی تھا ’’ہم ٹھیک ہیں۔‘‘ ہمارے سامنے سوپ لایا گیا، اس سوپ میں بہت زیادہ سبزی موجود تھی۔ ہم ایک لقمہ لے کر اس کو دیر تک چباتے رہتے اور آج ڈبل روٹی کیک سے زیادہ اچھی لگ رہی تھی۔ آپ کو یہ سب مزاحیہ لگ سکتا ہے مگر ہم سب کچھ حیرت سے دیکھ رہے تھے، تین سال جاپان کی قید میں رہنے کے بعد، حب الوطنی کیا ہے اور اپنی دھرتی کی کشش کیا ہوتی ہے۔

(بشکریہ: اے ٹیسٹ آف وار)

15۔ ایٹمی دھماکہ کیسے وقوع پذیر ہوتا ہے

سائنس ایٹمی دھماکہ کو اس طرح بیان کرتی ہے کہ ایٹمی دھماکہ کے وقت ایٹم میں کچھ تبدیلیاں واقعہ ہوا کرتی ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔ سائنسدان بتاتے ہیں ایٹم کے پھٹنے سے قبل اس کے مرکزہ میں بے انتہا دباؤ پیدا ہوتا ہے اور اس دباؤ کے زیر اثر اس میں پھیلاؤ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس عمل میں ایک بڑے ایٹمی وزن والا عنصر کم ایٹمی وزن والے دو عناصر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس عمل میں ایٹمی وزن کا جو معمولی حصہ ضائع ہوتا ہے وہ توانائی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایٹم کا یہی ایک ماڈل نہیں ہے مگر یہ ایک آسان ماڈل ہے جس کے توسط سے لمبے ستونوں کے عمل کو آسانی سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ ایٹمی دھماکہ کے وقت گاما شعائوں، اوراس کے علاوہ نیوٹرانز کی بہت بڑی تعداد خارج ہوتی ہے، کا اخراج ماحول میں درجہء حرارت کو ناقابل بیان حد تک بڑھا دیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں آگ کا ایک بڑا سا گولہ بنتا ہے جو بے انتہا گرم ہواؤں کے دوش پر تیزی سے بلند ہونا شروع ہو جاتا ہے اس کی شکل ایک بہت بڑی کھمبی نما آگ کی چھتری کی سی ہوتی ہے اور جس تیزی سے یہ بلند ہوتی ہے میلوں دور سے نظر آتی ہے۔ نیوٹرانز کے ساتھ تمام افقی سمتوں میں بھی پھیل جاتی ہیں اور چونکہ ان کا درجہ حرارت انتہائی زیادہ ہوتا ہے اس لئے اپنے راستہ میں موجود تمام چیزوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہیں۔ ان گرم لہروں کی رفتار، آواز کی رفتار سے کہیں زیاد ہ ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گاما ریزجن کی نفوذ کی طاقت بھی غیر معمو لی ہوتی اور ان میں ارتعاش بھی بے حد ہوتا ہے یہ سب مل کر دل کی حرکت کو بند کر نے کا باعث بن جاتی ہیں۔ لہٰذا فوری موت کا باعث، ایکس ریز کی حرارت نہیں بلکہ گاما ریز کی توانائی ہوتی ہے۔

(بشکریہ: نو مور وار)

یورینیم 235 کے مرکزہ میں 143 نیوٹران اور 92 پروٹان ہوتے ہیں۔ اس طرح مرکزہ میں دونوں جمع ہوکر کل ذروں کی تعداد 235 بن جاتی ہے۔ جب کوئی آوارہ نیوٹران یورینیم کے مرکزہ سے ٹکراتا اور اس میں داخل ہو جاتا ہے تو اب کل تعداد یو 236بن جاتی ہے۔ یو 235 ایک برقرار جبکہ یو 236کی حیثیت ایک بے قرار مرکزہ کی ہوتی ہے، اس لئے یہ مرکزہ خود کو دوبارہ ترتیب دینے کے لئے دو یا دو سے زیادہ مرکزوں میں منقسم ہو جاتا ہے اور ہر ایک کو ڈاٹر نُکلیائی /بیٹی مرکزہ کہا جاتا ہے۔ ان مراحل میں ایسا ہوتا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ نیوٹران آزاد ہو جاتے ہیں اور جاکر کسی اور دو یا دو سے زیادہ کو بے قرار کر دیتے ہیں۔ اس عمل کو فیوژن کہا جاتا ہے۔ اس میں جو توانائی انرجی خارج ہوتی ہے اس کی مقدار ہائیڈروجن اور آکسیجن کے مل کر پانی بنانے والے عمل سے ایک ہزار ضرب دس لاکھ گُنا ہوتی ہے اور یہ عمل ایک تسلسل میں وقوع پذیر ہو رہا ہوتا ہے۔ یعنی جب دو نیوٹران جا کر دو مرکزوں سے ٹکرائے اور وہاں سے پھر دو دو نیوٹران آزاد ہوئے دو ہم اپنی آسانی کے لئے شمار کر رہے ہیں اب یہ چار جا کر چار مرکزوں سے ٹکرائے تو ان سے آٹھ نیوٹران آزاد ہوئے، اور 8سے 16اور16 سے 32اور 32 سے 64 اور… اور یہ عمل ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں ہو رہا ہوتا ہے۔

(بشکریہ: نومور وارز)

ایٹمی دھماکہ کا دوسرا عمل جو ہے اس کو فیوژن کا عمل کہا جاتا ہے۔ پلوٹونیم 239 کےمرکزہ میں 145 نیوٹران اور 94 پروٹان ہوتے ہیں اور یہ ایک قرار یافتہ دھات ہے لیکن جب اس کے مرکزہ کو انتہائی دباؤ ملتا ہے تو یہ دو یا دو سے زیادہ مرکزوں میں منقسم ہو جاتے ہیں اس کے بعد اس عمل میں منقسم دو یا دو سے زیادہ ڈاٹر مرکزے آپس میں اکھٹے ہوتے ہیں اور اس عمل کو فیوژن کہا جاتا ہے۔ یہ بھی بالکل اوپر بیان شدہ تسلسل اوررفتار پر مشتمل ہوتا ہے اور اس میں خارج ہونے والی توانائی کی مقدار پچاس ملین گُنا ہوتی اس توانائی سے جو ہائیڈروجن اور آکسیجن کے پانی بنانے کے عمل میں خارج ہوتی ہے۔ اس ہر دو قسم کے بم کی تفصیل آگے چل کر آئے گی۔

(بشکریہ: نومور وارز)

(سید انور احمد شاہ۔ بُرکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

تلخیص صحیح بخاری سوالاً جواباً (كتاب الحیض) (قسط 16)

اگلا پڑھیں

مہدی آباد کے شہداء