• 29 اپریل, 2024

قرآن کریم ۔اوصاف و محاسن کا بحر بیکراں

مستشرقین اور دیگر معترضین تورات و انجیل کی موجودگی میں عدم ضرورت قرآن مجید کی بحث اٹھاتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ نظریہ و تصور بھی رکھتے ہیں کہ تورات وانجیل کی جن باتوں کا قرآن کریم مصدق ہے۔ ان کو نقلیات (اخذ کردہ) کا نام دیتے ہیں اور باقی کو عندیات ( خود ساختہ ) میں شمار کرتے ہیں ۔ ان کا یہ دعویٰ قرآن کریم کی پیشگوئی لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (واقعہ:80) پر پورا اُترتا ہے۔قرآن مجید براہین ساطعہ کے ساتھ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ (البقرہ:3) اور غیر ذی عوج دعویٰ کے ساتھ فَاْتُوْ ا بِسُوْرَۃِ کا کھلا چیلنج بھی غیر مسلم اقوام عالم کو زمانہ نزول سے دیتا آ رہا ہے۔ اغیار نے ذلت و رسوائی کا جو طوق گلے میں ڈالا ہوا ہے لیکن اس چیلنج کو آج تک قبول نہیں کیا اور نہ ہی قیامت تک منظور کریں گے۔ یہ قرآن کریم کی حقانیت و صداقت کا زندہ نشان اور ثبوت ہے۔ قرآن مجید اوصاف و محاسن کا بحر بیکراں ہے۔ باعتبار فصاحت و بلاغت،ربط مضامین، تعلیم ، کمال تعلیم اور کمال تاثیرات تعلیم اپنے اندر ایک معجزانہ رنگ رکھتا ہے۔ اس کتاب اللہ کا یہ بھی ایک کمال حسن وجمال ہے کہ جہاں یہ دیگر ادیان عالم کا دلائل حقہ سے رد کرتی اور ان کی تعلیموں کے نقائص بیان کرتی ہے وہاں حقیقی تعلیم بھی دلائل قویہ سے پیش کرتی ہے۔ اس کا واضح ثبوت سورہ فاتحہ ہے۔ جس میں ادیان باطلہ کے عقائد کا ردّ ہے۔ اب اس سوال کے جواب کی جانب نظر کرتے ہیں کہ ضرورت نزول قرآن کیوں ہے؟

تورات و انجیل کا مختص القوم اور مختص الزماں ہونا

حضرت موسیٰ کی بعثت قوم بنی اسرائیل کی جانب تھی ۔جیسا کہ تورات میں ہے۔ خدا نے موسیٰ سے کہا ۔ میں جو ہوں سو میں ہوں۔ سو تو بنی اسرائیل سے یوں کہنا کہ میں جو ہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے (خروج باب 3، آیت:14) اس لئے ان پر نازل ہونے والی کتاب کا دائرہ کا رد بھی بنی اسرائیل تک محدودو محیط تھا ۔ موسوی سلسلہ کے آخری خلیفہ حضرت مسیح خود اقرار کرتے ہیں۔ یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں، منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں ۔ (متی باب 5 آیت 17) اس سے عیاں ہے کہ آپ کا دائرہ نبوت محض بنی اسرائیل تک ہی کار فرما تھا۔ آپ مزید فرماتے ہیں۔خدا نے مجھے صرف اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس بھیجاہے کسی اور کے پاس نہیں (متی باب 15 آیت:24) بلکہ اپنے شاگردوں کو یہ تلقین و تاکید کرتے ہیں۔ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔بلکہ کہا اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔ (متی باب 10 آیت 6-5) اس سے یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ انجیل بھی بنی اسرائیل کے لئے ذریعہ ووسیلہ رشد و ہدایت تھی۔ ان کتب کا مختص القوم اور مختص الزماں ہونا اس بات کا متقاضی تھا کہ اور آسمانی نور ہدایت نازل ہو۔

تورات و انجیل کی تعلیم میں افراط و تفریط

تورات کی تعلیم کو دیکھا جائے تو وہ ایک ہی پہلو انتقام پر زور دیتی ہے۔ جیسا کہ تورات میں حکم ہے لیکن اگر تیرا نقصان ہو جائے تو جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ ، دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ ، پاؤں کے بدلے پاؤں ، جلانے کے جلانا ، زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ (خروج باب 12 آیت 25-33) تعلیم کا یہ پہلو افراط پر مبنی ہے۔ باقی انسانی قویٰ کی اصلاح و درستی اور تربیت کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ انجیلی تعلیم اس کے بر خلاف عفو ودرگزر پر سارا زور دیتی ہے۔ چنانچہ انجیل میں یہ تعلیم دی گئی ہے۔ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے تو دوسرے کو بھی اس کی طرف پھیردے اور اگر کوئی شخص نالش کر کے تیرا کُرتا بھی لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے تو اس کے ساتھ دو کوس چلا جا (متی باب 8 آیت 39 ،41) یہ تعلیم بھی ایک ہی انسانی پہلو کو مدنظر رکھتی ہے اور تفریط کے انداز پر ہے۔ اس لئے یہ دونوں طرز کی تعلیم انسان کی ذاتی زندگی کے لئے سودمند نہیں ہے اور نہ ہی امور مملکت ان سے بطریق احسن سر انجام پا سکتے ہیں ۔ یہ امر اس ضرورت کو اجاگر کرتا ہے کہ کوئی ایسی کامل آسمانی ہدایت نازل ہو جو تمام انسانی قویٰ کی مربی ہو۔ اس ضرورت حقہ کو قرآن مجید نے کمال حکمت کاملہ اور بالغہ سے احسن رنگ میں پورا کیا ہے۔ قرآن کریم کی مثال اس شجرہ طیبہ کی سی ہے جس کی ہر شاخ سرسبز و شاداب اور با ثمر ہو۔

قرآن مجید نے قانون جزا و سزا کو علمی اور فلسفہ کے انداز وطرز پر بیان کیا ہے۔قرآن کریم میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ’’اور بدی کا بدلہ کی جانے والی بدی کے برابرہوتا ہے پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (سورہ شوریٰ آیت:41) قرآن مجید نے قانون تعزیر کو جادہ مستقیم پر رکھا ہے۔ قانون کی اصل غرض و غایت موقع و محل کے مطابق اصلاح ہو وہ معاف کرنے میں یا سزا دینے میں ہو۔

ضرورت زمانہ

نزول قرآن کے وقت دنیا ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم:42) کا نقشہ پیش کر رہی تھی۔ظلمت و تاریکی کی خوفناک گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں ۔ ظلم و جور کا دور دورہ تھا۔ انسانیت دم توڑ چکی تھی۔ ایسے وقت میں ایک کامل منجی کی ضرورت تھی جو دنیا میں ایک روحانی انقلاب بپا کر دے اور …… صفت انسانوں کو با خدا انسان بنا دے چنانچہ اس غرض کی تکمیل کے لئے آنحضرتﷺ کے سر مبارک پر رحمۃ للعالمین کا زریں تاج سجا کر اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ (الاعراف: 159) کے پیغام حق کے ساتھ مبعوث کئے گئے اور آپﷺ پر وہ کامل و اکمل کتاب منجانب باللہ نازل کی گئی جو شفا و رحمت ، ھُدًی للِّنَّاسِ ، ھُدًی لِّلْمُتَّقِین ، ھُدًی لِلْمُحْسِنِیْن اور فرقان حمید ہے۔ انسان کی باطنی شریعت کی ضرورتوں کو کماحقہ پورا کرنے والی ہے۔ انسان کی طبعی حالتوں کی پُر حکمت طریق پر اصلاح کرکے اخلاقی اور روحانی حسن وجمال سے آراستہ و مزین کرتی ہے۔

حقوق و فرائض میں حفظ مراتب کا خیال

قرآن کریم انسان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بجا آوری میں کس درجہ پر فائز کرنا چاہتا ہے۔ وہ اس آیت قرآنی سے خوب روشن ہے۔ … (نحل:91)
ترجمہ ۔ یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں دونوں طرح کے حقوق کی ادائیگی میں عدل ، احسان اور ذاتی طبعی جوش محبت کے پہلو اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ تورات و انجیل میں اس درجہ کی اس انداز میں تعلیم نہیں دی گئی ہے۔ تعلیم کا عمومی رنگ ہے۔ علم و فلسفہ نہیں ۔ مثلاً قرآن مجید میں مال کے خرچ کرنے کے بارہ میں آیا ہے کہ نہ ممسک بنو اور نہ ہی مسرف۔ لَمْ یُسْرِ فُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا کے دائرہ میں رہو۔ مبذرین کو اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْن کا نام دیا گیا ہے (بنی اسرائیل: 28) تورات میں نذر اور کفارہ کی قربانیوں کا ذکر عام ہے اور انجیل میں کہا گیا ہے کہ جو قیصر کا قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو دو۔‘‘

(متی باب 22 آیت:21)

قرآن مجید کا دعویٰ مع دلیل

قرآن کریم کا حسن و جمال یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دعویٰ کے ساتھ ٹھوس اور مضبوط اور پختہ دلائل بھی رکھتا ہے۔ توحید کے بیان میں کہتا ہے قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدْ تو اس کے حق میں دلائل دیتا ہے کہ وہ ذات حق صمد ہے ۔ نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ باپ ۔ اس کا کوئی ہمسر بھی نہیں ہے۔ اگر الحمد للہ کا ذکر ہے تو رَبِّ العَالَمِین ، اَلرَّحْمٰنِ ، الرَّحِیم اور مَالِکِ یَومِ الدِّین ام الصفات بھی بطور شہادت و گواہی موجود ہے۔ قرآن مجید کی ایک خوبی او رکمال یہ بھی ہے وہ نظائر قدرت وفطرت کو پیش کر کے روحانی امور پر استدلال کے رنگ میں دکھاتا ہے تانظری امور مشاہداتی شکل و صورت میں نظر آئیں۔ نبوت و رسالت کا فلسفہ آسمانی بارش کی صورت میں بیان کرتا ہے لیکن تورات و انجیل میں ان موضوعات پر علم و فلسفہ کے رنگ میں ذکر نہیں ملتا ۔ فطرت انسانی میں تثلیث کا نقش نہیں ہے کائنات میں کرویت کے نظائر تثلیث کا رد ہیں ۔ عقل اسے باطل ٹھہراتی ہے۔ فطرت انسانی دلائل حقہ کی محتاج ہے۔ قرآن مجید اس ضرورت انسانی کو عمدہ طریق پر پورا کرتا ہے۔

حقیقت معاد کا بیان

عالم آخرت کی حقیقت کیا ہے؟ بہشت اور دوزخ کی فلاسفی کیا ہے؟ قرآن مجیدکے سوا کسی نے اس کو بیان نہیں کیا ہے۔ اس کا ذکر اس لئے بھی ضروری ہے تا انسان جان لے کہ آخرت کی جزا اور سزا جو انسانی اعمال و افعال کے آخری اور انتہائی نتائج ہیں وہ کن صورتوں میں ظاہر ہوں گے۔ قرآن کریم کے مطابق انسان کی بہشتی اور جہنمی زندگی کی ابتدا اسی دنیا سے ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے۔ جو اپنے رب کے مقام سے ڈرا اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ ( الرحمن) جب دنیاوی اور اخروی جنت ہیں تو مقابل دو جہنم کا ہونا لازم ہے۔ اس لئے کہ جو بہشتی زندگی نہیں رکھتا وہ دوزخمی زندگی گزارتا ہے۔ انسان اس دنیا سے جنتی یاجہنمی زندگی کے حواس لے کرجاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں بیان ہوا ہے۔ ترجمہ: جو شخص اس دنیا میں اندھا ہے وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہو گا۔…(بنی اسرائیل:73)

اس سے مراد روحانی اندھا پن ہے ۔ ابرار کے بارہ میں آیا ہے کہ عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوۡنَہَا تَفۡجِیۡرًا ( الدھر:7)وہ اس جگہ نہریں نکال رہے ہیں ان عباداللہ کی جزا جنت تَجْرِیْ … ہے یعنی دنیاوی اعمال کا پھل کھائیں گے۔ عذاب دوزخ کی حقیقت اور فلسفہ قران کریم نے یہ بیان کیا ہے۔ نَارُ اللّٰہِ الۡمُوۡقَدَۃُ ۙ ﴿۷﴾ الَّتِیۡ تَطَّلِعُ عَلَی الۡاَفۡـِٕدَۃِ ؕ ﴿۸﴾( الھمزہ: 8,7) للہ کا عذاب جس کو وہ بھڑکاتا ہے اور انسان کے دل پر اس کا شعلہ بھڑکتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ دوزخ کی اصل جڑ انسان کا اپنا ہی دل ہے اور دل کے ناپاک خیالات اور گندے ارادے اور عزم اس جہنم کا ایندھن ہیں۔ اب تورات و انجیل میں ان کا کوئی فلسفہ بیان نہیں ہوا۔

قرآن مجید ابدی اور مستقل شریعت

شریعت کے احکام دو طرح کے ہیں ۔الف:۔ دائمی اور مستقل، ب:۔مستقل لیکن لچکدار بمطابق حالات ۔ ان کی مثال نماز روزہ ہے۔ ارکان ایمان حلال و حرام اور عائلی قوانین وغیرہ مستقل احکام کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ان تمام کی غرض وغایت برائیوں سے بچانا اور اعلیٰ درجہ کی نیکیوں پر قائم کرنا ہے۔ ان کے برعکس کفارہ مسیح پر ایمان لانے کا نتیجہ گناہ پر قدم مارنا ہے کیونکہ تقریب عشاء ربانی پر شراب لازمی جزو ہے اور شراب ام الخبائث چیز ہے۔ مرد اور عورت کے مخصوص حالات میں طلاق لازم ہو جاتی ہے ورنہ سماج میں بگاڑ کا اندیشہ ہے۔ اس معاملہ میں انجیلی تعلیم یہ ہے جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اس سے زنا کراتا ہے ۔ اور جو اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے۔

(متی باب 5 آیت: 32)

ابراہیمی دعا کی تکمیل

جہاں تک حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسحق ؑ کو برکت دی وہیں آپ نے اسماعیلؑ کو بھی یکساں طور پر برکت سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو سنا اور فرمایا اور اسما عیل کے حق میں بھی اس نے تیری دعا سنی ۔ دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برو مند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا ۔

( پیدائش باب 17 آیت: 21-20)

آنحضرتﷺ اور نزول قرآن کریم سے ابراہیمی دعا کی تکمیل ہوئی۔

تورات و انجیل کی پیشگوئیاں

تورات میں مثیل موسیٰ کی پیش خبری (استثناب باب: 18 آیت 18,15) آتشی شریعت کا داہنے ہاتھ میں ہونا (استثناء باب 33 آیت 2) ہجرت مدینہ اور غزوہ بدر (یسعیاہ باب 21:آیت 17-13) دنیا کا سردار، مددگار اور روح حق کا آنا ( یوحنا باب 14، آیت 30,26,16، باب 15 آیت 13,7) یہ سب اور دیگر پیش خبریاں آنحضرتﷺ کی بعثت اور نزول قرآن مجید سے منصہ شہود پر آئیں ورنہ ان کتب پر انگلیاں اُٹھتیں۔ یہ قرآن کریم ہی کا چیلنج ہے کہ اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ وَّ مَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ (الطارق:15’14) یقیناً وہ ضرور ایک فیصلہ کن کلام ہے وہ ہرگز کوئی بیہودہ کلام نہیں ہے۔

یا الٰہی تیرا فرقاں ہے کہ اک عالم ہے
جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا

آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے
لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے
ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام
دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے

(درثمین)

(محمد اشرف کاہلوں)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ گلاسگو، اسکاٹ لینڈ کا تربیتی پروگرام

اگلا پڑھیں

رزقِ حلال کی برکت