اس جہاں کو بقا نہیں پیارو
یہ تو رہنے کی جا نہیں پیارو
کوئی اس میں رہا نہیں پیارو
اس خرابہ میں کیوں لگاؤ دل
ہاتھ سے اپنے کیوں جلاؤ دل
کیوں نہیں تم کو دینِ حق کا خیال
ہائے سو سو اٹھے ہے دل میں ابال
کیوں نہیں دیکھتے طریق صواب
کس بلا کا پڑا ہے دل پہ حجاب
اے عزیزو! سنو کہ بے قرآں
حق کو ملتا نہیں کبھی انساں
جن کو اس نور کی خبر ہی نہیں
ان پہ اس یار کی نظر ہی نہیں
ہے یہ فرقاں میں اک عجیب اثر
کہ بناتا ہے عاشق دلبر
کوئے دلبر میں کھینچ لاتا ہے
پھر تو کیا کیا نشان دکھاتا ہے
دل میں ہر وقت نور بھرتا
ہے سینہ کو خوب صاف کرتا ہے
وہ ہمیں دلستاں تلک لایا
اس کے پانے سے یار کو پایا
بحر حکمت ہے وہ کلام تمام
عشق حق کا پلا رہا ہے جام
بات جب اس کی یاد آتی ہے
یاد سے ساری خلق جاتی ہے
سینہ میں نقش حق جماتی ہے
دل سے غیر خدا اٹھاتی ہے
درد مندوں کی ہے دوا وہی ایک
ہے خدا سے خدا نما وہی ایک
ہم نے پایا خورِ ہدیٰ وہی ایک
ہم نے دیکھا ہے دلربا وہی ایک
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ268 مطبوعہ 1882ء)