• 29 اپریل, 2024

استنبول (قسطنطنیہ) کی سیر (قسط 4 آخر)

شمال کی جانب، یورپی استنبول کی طرف ساحل پر شاہانہ دولماباغچہ (Dolmabahçe) محل نظر آتاہے۔ یہ 1856ء میں تعمیر کیا گیا تھا اور 1922ء میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے تک بادشاہوں کی قیام گاہ کے طور پر رہا۔مزید شمال میں استنبول شہر کا دل جسے ماڈرن استنبول کہتے ہیں نظر آتا ہے۔ یہاں سے اورتاکوئے (Ortakoy) مسجدکے پاس سے گزرتے ہوئے کروز نے ایشیئن استنبول کا رُخ کیا۔استنبول کی ایشین سائیڈ بھی تاریخ اور تعمیرات کے اعتبار سے کسی طور پر بھی یورپین استنبول سے کم نہیں۔ بیلاربیا (Beylerbeyi) محل کے پاس سے گزرے جو کہ موسم گرما میں شاہی رہائشگاہ اور سلطنت عثمانیہ کے دور میں غیر ملکی مہمانوں کے لئے گیسٹ ہاؤس کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

Dolmabahçe Palace

الغرض ڈیڑھ گھنٹے کے اِس ٹؤر میں باسفورس کے کنارے بسے ہوئے شہر کے خد و خال کا بخوبی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں براعظموں میں استنبول کے زیادہ تر تاریخی مقامات کو دیکھنے کا ایک آسان اور تیز طریقہ ہے۔ شہر کی عمارتوں میں سر اُٹھائے مسجدوں کے مینار، فلک بوس عمارتیں، اور گُنجان آباد شہر، ٹریفک کی چہل پہل، دونوں اطراف سیر کرانے والے جہازوں اور کشتیوں کی بھرمار ایک زندہ شہر کی تصویر کشی کرتی ہے۔ آبنائے باسفورس کی خوبصورت سمندری راہداری بحیرہ مرمر اوربحیرہ اسود کوملاتی ہے۔ قدرتی حسن سے مالامال پہاڑ باسفورس کے کنارے بنی خوبصورت عمارتیں نہایت دلفریب منظر پیش کرتی ہیں۔

استنبول کا قدیم علاقہ سات پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ استنبول کو ’’سات پہاڑیوں کا شہر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔ شہر کی سیر کرتے ہوئے ہر طرف اسلامی تاریخ بکھری نظر آتی ہے ۔
اِن جہازوں میں چائے، کافی اور سوفٹ ڈرنکس کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور عمومی طور پر کچھ حصہ کیبن کی صورت اور کچھ حصہ کُھلا ہوتا ہے تاکہ سرد و گرم موسموں یا پھر بارش سے بھی محفوظ رہا جاسکے۔

باسفورس کے عین درمیان میں ایک جزیرے پرچھوٹا سا اکیلا ٹاور ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی نے پیشگوئی کی تھی کہ بادشاہ کی بیٹی اپنی 18 ویں سالگرہ پر زہریلے سانپ کے ڈسنے پر ہلاک ہو گی۔یہ سن کر بادشاہ نے شہر سے دور سمندر کے وسط میں یہ ٹاور تعمیر کروایا تا کہ اس کی بیٹی زمین سے دور اس میں رہے۔ اس خوشی میں بادشاہ نے اس کی سالگرہ پر بچی کو تحفہ میں پھولوں کی ٹوکری بھجوائی۔ لیکن عجیب بات ہوئی کہ 18ویں سالگرہ پر اس کی بچی ٹوکری میں چھپے سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئی۔ اسی لئے یہ کنواری دوشیزہ کا ٹاور Maiden’s Tower کہلاتا ہے۔ ہم نے کروز کے اس سفر کا آغاز غروب آفتاب سے چند لمحے قبل شروع کیا تھا۔ باسفورس کے کنارے رنگین سورج کے غروب ہونے کا نظارہ بھی کیا مسحور کن تھا۔

اگلے دن صبح خوب جم کر ناشتہ کرنے کے بعد ہم گلاتا ٹاور کے لئے نکل پڑے۔ 14ویں صدی کا یہ گلاتا ٹاور محل سے 4 کلومیٹر دور گولڈن ہارن کے قریب واقع ہے، جو پتھروں سے بنی ایک 63 میٹر بلند عمارت ہے۔استنبول کارڈ بھی کیا نعمت ہے، ٹرام ہو، بس ہو یا کشتی ہر جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ ایک ہی کارڈ دو بندے بھی استعمال کر سکتے ہیں، صرف آپ کو دو دفعہ کارڈ مشین سے گزارنا ہو گا۔ بہرحال میٹرو کے ذریعہ ٹاور تک پہنچے۔

گلاٹاپل جو یورپی طرف کے شمالی حصوں کو جنوبی حصوں سے ملاتا ہے۔ نیلے باسفورس کے اوپر بنایا گیا ہے، سے گلاتا ٹاور تک کچھ پیدل بھی چلنا پڑتا ہے۔ پرانے شہر کے محلوں کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے گزرتے ہوئے، بہت ہی ظالم قسم کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہم ٹاور کے داخلی حصے تک آ پہنچے جہاں پہلے سے درجنوں سیاح قطار لگائے، انتظار میں کھڑے تھے۔ ہم بھی اس لائن میں جا کھڑے ہوئے۔ اس طرح ٹاور کے اوپر سے استنبول شہر کے دلفریب نظارے دیکھنے کا موقع مل گیا۔

راستہ بھی نہایت خوب صورت تھا۔ دلکش قدیم عمارتیں، صاف ستھری سڑکیں بہت بھلی لگ رہی تھیں ۔گزرتے ہوئے بازاروں پر نظر پڑی تواسےسیاحوں سے بھرا پایا ۔ حسین رنگوں میں مقامی اور منفرد دستکاریوں سے سجی دکانیں، بیش قیمت تاریخی نوادرات، روایتی تحائف اورملبوسات خریداروں کی توجہ کا مرکزتھے۔ لیکن ایک چیز جس نے متاثر کیا وہ وہاں کی صفائی تھی باوجود اس کے کہ رش تھا۔ وہاں کے مقامی لوگ سگریٹ نوشی بھی بہت کرتے ہیں کہیں گندگی کا ذرا بھی احساس نہیں تھا بلکہ بازاروں میں میونسپلٹی کی طرف سے باقاعدہ انتظام ہے کہ کوئی کاغذ کوئی سگریٹ کا ٹکڑا سڑک پر پڑا ہو وہ فوراً اٹھا لیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ 15 لاکھ کی آبادی والے اس شہر کو ایک صاف ستھرا اور سرسبز شہر بنانے کا سہرا موجودہ صدر رجب طیب اردگان کے سر ہے جو دو مرتبہ اس کے مئیر منتخب ہوئے اس شہر کو کرپشن آلودگی سے نجات دلانے اور اس کے باسیوں کو تمام تر سہولیات فراہم کرنے میں کامیاب رہے اور ترقی کا یہ ماڈل ترک عوام کو اس قدر بھایا کہ انہیں ملک کے اگلے وزیر اعظم کی مسند پر فائز کر دیا۔

استقلال سٹریٹ

دریائے باسفورس کے پُل پر سے گلاٹا ٹاور کی طرف آئیں تو شہر کے اِس اونچے حصے کی طرف جانے والی ایک لمبی گلی شروع ہوتی ہے، جس کا اختتام مصطفیٰ کمال پاشا کے انقلاب کی یادگار کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ گلی لندن کی آکسفورڈ سڑیٹ کی طرز کا بازار ہے،جس کے دونوں اطراف مختلف برینڈز کی دکانیں موجود ہیں۔ مقامی لوگوں اور سیاحوں کا رش اِس گلی کی رونق بڑھائے رکھتا ہے۔اس بازار میں روایتی آئس کریم فروش ہیں ۔ یہ آئس کریم فروش اپنے حلیے اور پھر اس سے بھی زیادہ ان کرتبوں کے لئے مشہور ہیں، جو وہ گاہکوں کو آئس کریم پیش کرنے سے قبل دکھاتے ہیں۔ اس آئس کریم کو سٹکی آئس کریم بھی کہتے ہیں۔یہ گلی استنبول کے مشہور ٹیکسم یا تقسیم اسکوائر تک لے جاتی ہے۔ تقسیم مرکزی چوک ہے جہاں سے مختلف جگہوں کو راستے نکلتے ہیں۔ ٹیکسم اسکوائر ترکی کا اہم سیاحتی مقام ہے جسے دیکھنے روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں اور جو نایاب ٹرام کی سواری بھی کرتے ہیں۔ یہ پُرہجوم اور پُرکشش علاقہ سیاحوں کی خریداری کا مرکز بھی ہے۔ یہاں ہوٹل، مٹھائی کی دکانیں اور کئی ثقافتی مراکز سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ ساتھ ہی استنبول شہر کو پانی کی تقسیم کا مرکزی نظام بھی یہاں واقع ہے اوراسی لئے اسے تقسیم اسکوائر کہا جاتا ہے۔

یہاں سے بس کے ذریعہ ہم استنبول کے ایشیائی حصے کی سیر کے لئے روانہ ہو گئے۔اور وہاں کھانا کھایا۔وہاں دیسی کھانوں کے بے شمار ہوٹل ہیں۔ بازار ہیں، تاریخی عمارتیں ہیں۔ ایشیاء کی طرف پرانے مکانات اور بلڈنگیں ہیں جبکہ یورپ کی طرف استنبول بالکل جدید طرز کی عمارتوں اور مساجد سے بھرا ہے۔ تمام دن رات عوام ایک سے دوسرے سرے پر آتے جاتے رہتے ہیں ۔سارا دن پیدل چل چل کر ٹانگیں ٹوٹ رہی تھیں۔ واپسی کا سفر پانی کے ذریعہ کروز پر کیا اور رات کے وقت ایک بار پھر استنبول کی خوبصورتی کو دیکھ کر جی خوش کیا۔ استنبول کا تاریخی باسفورس پُل، جسے پندرہ جولائی کو ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے دوران مزاحمت کرنے والے شہریوں کے نام سے منسوب کرتے ہوئے ’’شہدائے پندرہ جولائی پُل‘‘ کا نام دے دیا گیا تھا۔ یہ شہر کے یورپی علاقے اورتاکوئے اور ایشیائی حصے بیلربے کو ملاتا ہے اوریہ آبنائے باسفورس پر قائم ہونے والا پہلا پل ہے۔

ہمیں جلیل القدر صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر جانے کی اور دعا کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ حضرت ایوب انصاریؓ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنہیں مدینہ میں رسول کریمؐ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ قسطنطنیہ کی فتح کے متعلق آنحضرتﷺکا فرمان سنا کہ ’’تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہو گا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہو گی‘‘ یہ حدیث سن کر حضرت ابو ایوب انصاریؓ اس خوش نصیب لشکر کا حصہ بننے کےلئے بے چین ہو گئے۔ جب امیر معاویہ نے قسطنطنیہ کی فتح کےلئے لشکر روانہ کیا تو اس وقت حضرت ابو ایوب ؓبہت ضعیف ہو چکے تھے ، لیکن اس کے باوجود آپ لشکر اسلام میں شامل ہوئے۔ دشمن کے مقابلے میں ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ حضرت ابو ایوب ؓبیمار ہو گئے۔ بیماری نے شدت اختیار کی اور محسوس ہوا کہ اب آخری وقت آ پہنچا ہے۔ آپ ؓنے وصیت کی کہ دشمن کی سرزمین میں پیش قدمی کرتے ہوئے آخری حد تک پہنچنا اورمجھے قسطنطنیہ کی دیوار کے نزدیک دفن کرنا۔ ان کی وصیت پر عمل کیا گیا اور دیوار قسطنطنیہ کے سائے میں ان کو دفنایا گیا۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی زندگی آغاز سے انجام تک رسول کریم ؐ کی محبت میں گزری اور اس کا اختتام بھی آپ ؐ کے فرمان کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہوا، اس کے بعد بھی بہت سے مسلم حکمرانوں نے نبی کریمؐ کی بشارت کو پورا کرنے کی کوششیں کی۔ روضۂ حضرت ابو ایوب ا نصاریؓ اور ایوب مسجد ترک فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہیں۔ روضے کے عقب میں مرکزی قبرستان ہے جہاں کہتے ہیں بہت سے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین مدفون ہیں۔

تیسرے دن ہم نے پرنس آئی لینڈ پر گزارنے کی ٹھانی۔ سنا تھا کہ استبول کے مضافات میں نو چھوٹے چھوٹے جزیرے موجود ہیں، جنہیں پرنسسز آئی لینڈ کہا جاتا ہے۔ یہ جزائر سیاحوں میں بہت مقبول ہیں۔ لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے صرف ایک بڑے جزیرے پر ہی جا سکے ۔یہاں صرف گھوڑے کی سواری کی اجازت ہے آلودگی سے پاک رکھنے کے لئے وہاں ہر قسم کی گاڑیوں پر پابندی ہے ۔ یہ بہت بڑا خوبصورت جزیرہ ہے اور انتہائی پُرسکون بھی۔ یہاں لوگ خصوصاً سمندری خوراک جو بہت تازہ ہوتی ہے کھانے آتے ہیں۔

گرینڈ بازار

چوتھے دن شام کو واپسی کے لئے فلائیٹ تھی ۔ گرینڈ بازار کا بہت سن رکھا تھا سوچا اس کی سیر کی جائے۔بلو مسجد کے قریب اور ہماری قیام گاہ کے بالکل قریب ہی تاریخی گرینڈ بازار ہے جسےمقامی زبان میں کاپلی کارسی (Kapali Carsi) کہتے ہیں، استنبول میں شاپنگ کا ایک بڑا مرکز ہے۔ اِس بازار کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے، یہ ایشیاء کے سب سے بڑے اور پُرانے کورڈ (Covered) بازاروں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ یہ بازار الف لیلوی کہا نیوں کی طرح ہے۔بیضوی چھتوں کے ساتھ آگے اور دائیں بائیں اطراف سے محراب در محراب پھیلتا ،ہلکے زردئی رنگ میں ڈوبا ہواجس پر صدیوں پرانے شوخ رنگوں کے نقش و نگار اُسے بازاروں کی دنیا میں ایک انفرادیت دیتے ہیں۔ برقی قمقموں کی تیز جگمگاتی روشنیوں میں اس کی سجی ہوئی دکانیں سیاحوں کے دلوں کو خوب بھاتی ہیں۔ دکاندار دیسی لوگوں کی طرح دکان کے دروازوں پر گاہکوں کو خوش آمدید کہتے نظر آتے ہیں۔ بازار سیاحوں سے بھرا ہو تھا ۔ونڈو شاپنگ بھی کی اورسوغات کے طور پر کچھ ٹرکش مٹھائی اور ٹرکش لیمپس خرید لئے۔ قیمتیں مناسب ہی تھیں۔ یہاں کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہاں کا ایک مقبول بازار ہونے کے باوجود دیگر بازاروں کی طرح شام 7 بجے بند ہو جاتاہے ۔
اِسی بازار سے کچھ فاصلے پر استنبول کا مصالحہ بازار بھی واقع ہے جس کی ہئیت اِسی بازار سے ملتی جلتی ہے، وہاں بھی اِسی طرز کی دکانیں ہیں لیکن اِن میں سے زیادہ تر دکانیں مصالحہ جات سے متعلق ہے۔

استنبول میں یونانی عیسائیوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی بھی خاصی تعداد ہے۔ اسپین پر کیتھولک عیسائی غلبے کے بعد جب یہودیوں اور مسلمانوں کو دیس سے نکالا دیا گیا تو عثمانی ترکوں نے کھُلے دل سے یہودیوں پر اپنی مملکت کے دروازے وا کئے۔ تب سے آج تک وہ یہیں آباد ہیں۔الغرض رواداری برداشت ایک دوسرے کی رائے کا احترام لئے،جدت اور قدامت ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے استنبول ایک ایسا شہر ہے جہاں مسجدیں بھی آباد ہیں اور میخانے بھی فجر کے وقت مسجدوں کے میناروں سے بلند ہوتی صدائے حی علی الفلاح سن کر گلی کوچوں میں نماز کےلئے لپکنے والے نمازی بھی ملیں گے اور شب بھر کے ہنگامے کے بعد نائٹ کلبز سے نکلنے والے رند بھی۔ یہ ایک منفرد اور خوبصورت ترین شہر ہے، اسلامی تاریخ کے نادراورانمول تاریخی ورثے کے ساتھ یہاں کی خوبصورت پہاڑیاں ، فن تعمیر کے قدیم اور جدید شاہکار، آبنائے باسفورس اور اس پر بنے تین پل ، زیرآب ٹنل، فاتحین کے قلعے ، مساجد اور مقبرے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ تاریخ اور خصوصاً اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لئے تو یہاں آئے بغیر مکمل معلومات ممکن ہی نہیں۔ نیپولین نے صحیح ہی کہا تھا کہ اگر دنیا ایک ملک ہوتی تو استنبول ہی اس کا دارالخلافہ ہو تا۔ اسی طرح ایک ترکی افسانہ نگار نے کیا صحیح لکھا ہے کہ ’’زندگی اتنی بھی بُری نہیں ، جو بھی ہو جائے، میں باسفورس کے کنارے ہمیشہ لمبی سیر کر سکتا ہوں‘‘۔ لیکن واپسی کے سفر میں یہ سوچتا رہا کہ جہاں فتح قسطنطنیہ کی پیشگوئیاں تھیں وہاں خلافت علی منہاج النبوۃ کی پیشگوئیاں بھی ہیں۔حضرت رسول مقبولﷺ نے اپنے بعد خلافت راشدہ کے قیام اور اس کے معین عرصہ کا ذکر بھی فرما دیا تھا۔ پیشگوئیوں کے عین مطابق تیس سال تک خلافت راشدہ کا سورج امت مسلمہ پر بڑی شان سے چمکتا رہا اور اسلام کا جھنڈا پوری آب و تاب سے لہرانے لگا۔ لیکن پھر پیشگوئیوں ہی کے عین مطابق نظام خلافت پر بھی دنیا داری کے رنگ غالب آگئے۔ افسوس مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کی اس عظیم الشان نعمت کی ناقدری کی تو خدا نے اس نعمت کی برکات اٹھا لیں۔ حدیث نبوی میں اس بارہ میں بہت معین پیشگوئی ملتی ہے ۔ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذاں رساں بادشاہت قائم ہو گی پھر اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔

(مسند احمد جلد 4 صفحہ 273، المکتب الاسلامی بیروت مشکوٰۃ الرقاق باب الانذار والتخریر)

اس حدیث میں رسول مقبولﷺ نے اپنے عہد نبوت اور خلافت کے ادوار کی تصریح کرتے ہوئے پانچ ادوار کی خبر دی ہے یہ حدیث گویا ایک رنگ میں قرآنی آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة:4) کی تفسیر ہے کیونکہ اس میں درج ذیل پانچ ادوار کی خبر دی گئی ہے۔

1۔نبوت
2۔ خلافت علی منہاج النبوۃ
3۔ملوکیت یعنی بادشاہت (ملکاً عاضاً)
4۔دور جبریہ (ملکا جبریہ)
5۔ خلافت علی منہاج النبوۃ

گویا جس طرح امت محمدیہ کی ابتداء نبوت اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ سے ہوئی اسی طرح اخروی دور میں بھی ایسی خلافت کا ظہور ضروری ہے۔ چنانچہ رسول کریمﷺ کے فرمودہ کے عین مطابق صرف تیس سال تک خلافت راشدہ کا مبارک دور امت محمدیہ میں رہا اور اس کے بعد ملوکیت کا سلسلہ اموی اور عباسی دور حکومت چلتا رہا جو کہ بالآخر سلطان عبد الحمید خلیفۃ المسلمین ترکی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے نتیجے میں بالکل ختم ہو گیا اور مسلمانان عالم کی انتہائی کوششوں کے باوجود یہ ظاہری خلافت کی آخری نشانی بھی ختم ہو گئی اور باوجود کوششوں کے اور کئی قسم کی تحاریک کے دوبارہ مسلم امہ میں خلافت جاری نہیں کی جا سکی۔ گویا اس میں اس بات کی طرف اشارہ بھی ہے کہ اب امت محمدیہ میں آخری خلافت علی منہاج النبوۃ کا مبارک روحانی دور کا آغاز ہوگا۔ یہی وہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جو اپنے اندر مسلمانوں کے لئے عظیم بشارت بھی رکھتی ہے کہ مسلمانوں کے زوال و انحطاط کے بعد اللہ تعالیٰ خلافت علی منہاج النبوۃ کا سلسلہ قائم کرے گا اور اسلام کو تمام مذاہب پر غلبہ بخشے گا اور وہ زمانہ آ جائے گا کہ جب تمام مذاہب میں صرف اسلام کو ہی حقیقی مذہب سمجھا جائے گا اور یہ محض خلافت احمدیہ کے ذریعہ ہو گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ اور اس کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔

 (قسط نمبر 1)

(قسط 2)

 (قسط 3)

(پروفیسر مجید احمد بشیر)

پچھلا پڑھیں

استنبول (قسطنطنیہ) کی سیر (قسط 3)

اگلا پڑھیں

مصروفیات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 28 دسمبر 2019ء تا مورخہ 03 جنوری 2020ء