• 27 اپریل, 2024

علیکم بالشفائین: العسل و القرآن

قرآن ِحکیم اور عسل مصفّیٰ یعنی شہد میں روحانی اور جسمانی بیماریوں کا علاج

(قسط سوم)

خالص شہد۔علاج کا ایک حیرت انگیز ذریعہ

قرآن ِکریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک سورت کا نام النَّحل یعنی شہد کی مکھی پر رکھ کر ہماری توجہ اس طرف مبذول کروائی ہے کہ ہم شہد کی مکھیوں اور شہد کی افادیت و خواص پر غور و فکر کریں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النحل کی آیات 69 اور 70 میں فرماتا ہے کہ

وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوۡنَ۔ ثُمَّ كُلِیۡ مِنۡ كُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُکِیۡ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا ؕ یَخْرُجُ مِنۡۢ بُطُوۡنِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ فِیۡہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ۔

ترجمہ : اور تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ تو پہاڑوں میں، درختوں میں اور گھروں کی چھتوں میں اپنے چھتے بنا۔پھر ہر طرح کے پھلوں سے خوراک حاصل کر اور اپنے رب کے راستوں پر عاجزی کیساتھ چلتی رہ۔ اس کے پیٹ سے ایسا مشروب نکلتا ہے جو مختلف رنگوں اور اقسام کا ہےاور اس میں لوگوں کے لئے شفا رکھی گئی ہے۔

قبل اس کے کہ شہدمیں شفا کے مضمون پر دلائل رقم کئے جائیں قارئین کی دلچسپی اور ازدیادِ علم کی خاطر شہد اور اسکی مکھیوں کے بارے میں کچھ مفید معلومات درجِ ذیل ہیں۔

مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ

شہد کی مختلف اقسام و انواع کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ بیان فرماتے ہیں کہ عربی زبان میں 400 الفاظ شہد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرت بھی عجیب ہے کہ دنیا نے شہد کی اقسام بھی 400 ہی دریافت کی ہیں۔

(حقائق الفرقان جلد 2 صفحہ 489)

شہد کا قدیم سے استعمال

اہرامِ مصر کی کھدائی کے نتیجے میں جہاں غیر معمولی علم اور اسرارو رموز انسان پر آشکار ہوئے ہیں وہاں ان سے شہد کی ایسی کوپیاں بھی بازیاب ہوئی ہیں جو شہد سے لبریز ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ شہد ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے مطابق 8ہزار سال پُرانے ہیں لیکن ان میں موجود شہدابھی بھی ٹھیک ٹھاک ہے اور ہر قسم کے تعفن سے محفوظ ہے۔اسی طرح یہ بھی پتہ چلا ہے کہ مصر اور شام کے علاقوں میں مُردوں کو حنوط یعنی محفوظ کرنے کے لئے انہیں شہد میں ڈبودیا جاتا تھا۔

یورپ میں شہد کے استعمال کا ذکر 7سے 8ہزار سال قبل کی ایک پینٹنگ سے ملا ہے جو اسپین کے صوبے والینسیا کے ایک شہر بیکورپ میں ایک غار کی کھدائی کے دوران دریافت ہوئی ہے۔اس تصویر میں ایک عورت کو شہد کے چھتے سے شہد کشید کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

(الفضل انٹرنیشنل 12مئی 2000ءصفحہ8)

شہد کی مکھیوں کا ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کا طریق

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے 31مارچ 2000ء کو خطبۂ جمعہ میں شہد کی مکھیوں کی گفتگو سے متعلق اپنی تحقیق بیان کرتے ہوئے فرمایا۔

شہد کی مکھیاں آپس میں معلومات کا تبادلۂ خیال ایک قسم کے ناچ کے ذریعے کرتی ہیں اور یہ ناچ ایک مخصوص انداز میں کیا جاتا ہے۔جس میں وقفے بھی ہوتے ہیں اور گھوما بھی جاتا ہے۔اس ناچ کو باقی مکھیاں بغور دیکھتی رہتی ہیں اور سمجھ جاتی ہیں کہ کہاں جانا ہے،خوراک کہاں وافر ہے اور کہاں کم، یا کس جگہ چھتہ بنانا ہے وغیرہ۔سائنسدان یہ دریافت کرکے ورطۂ حیرت میں گم ہیں کہ چھتے کہ اندر خواہ کتنا ہی اندھیرا کیوں نہ ہو یہ ایک دوسرے کو سمجھابھی لیتی ہیں اور انکے پیغامات سمجھ بھی جاتی ہیں۔

شہد کی مکھیوں کا معیارِ صفائی

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ اپنی کتاب الہام،عقل،علم اور سچائی میں فرماتے ہیں۔
’’شہد کی مکھیوں کا خود کو اور چھتے کو صاف ستھرا رکھنے کا معیار اتنا بلند ہے کہ اس کے مقابل جدید ہسپتالوں اور کلینکس کی صفائی کو کوئی دور کی نسبت بھی نہیں ہے۔ تحقیق کرنے والے سائنسدان یہ دریافت کرکے حیران رہ گئے ہیں کہ مختلف قسم کے وائرس اور جراثیم سے آلودہ مچھر کے برعکس شہد کی مکھی کے جسم پر کسی بھی قسم کے وائرس یا جراثیم موجود نہیں ہوتے۔چنانچے اسکی وجہ معلوم کرنے کے لئے انہوں نے ایک نئی تحقیق کا آغاز کیا تو ان پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ شہد کی مکھیاں ایک خاص قسم کا جراثیم کش مادہ تیار کرتی ہیں جسے وہ مخصوص درختوں کی گوند سے اکٹھا کرتی ہیں جسے پراپلس (Propolis) کہا جاتا ہے۔اس مادے میں ہر قسم کے وائرس اور جراثیم کو ہلاک کردینے کی حیرت انگیز صلاحیت پائی جاتی ہے۔شہد کی مکھیاں اپنے چھتے کے چاروں طرف بیرونی کناروں پر یہ مادہ چپکا دیتی ہیں۔ ہر مکھی چھتے میں داخل ہونے سے قبل لازماً اس مادے پر رُکتی ہیں تاکہ اس کے جسم پر اگر کوئی وائرس یا بیکٹیریا موجود ہو تو ہلاک ہوجائے۔‘‘

(الہام،عقل،علم اور سچائی صفحہ 480-481)

شہد کے خواص اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ایک ذاتی تجربہ

شہد کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مسیح پاک ؑ نے ایک بار فرمایا۔ ’’دوسری تمام شیرینیوں کو تو اطباء نے عفونت پیدا کرنے والی لکھا ہے مگر یہ اُن میں سے نہیں ہے۔آم وغیرہ اور دیگر پھل اس میں رکھ کر تجربے کئے گئے ہیں کہ وہ بالکل خراب نہیں ہوتے سالہا سال ویسے ہی پڑے رہتے ہیں۔‘‘

پھر مزید فرمایا: ’’ایک دفعہ میں نے انڈے پر تجربہ کیا تو تعجب ہوا کہ اس کی زردی تو ویسی ہی رہی مگر سفیدی انجماد پا کر مثل پتھر کےسخت ہوگئی جیسے پتھر نہیں ٹوٹتا ویسے ہی وہ بھی نہیں ٹوٹتی تھی۔
خدا تعالیٰ نے اسے شفآءٌ للنّاس کہا ہے۔ واقعہ میں عجیب اور مفید شئے ہے تو کہا گیا ہے۔ یہی تعریف قرآنِ شریف کی فرمائی ہے۔ریاضت کش اور مجاہدہ کرنے والے اکثر اسے استعمال کرتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہڈیوں وغیرہ کو محفوظ رکھتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 315)

٭…٭…٭

(قسط اوّل)

(قسط دوم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 27 جون 2020ء