• 7 مئی, 2024

حوادث طبعی یا عذاب الٰہی (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ)

(قسط دوم)

عذاب الٰہی کی قسمیں

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے قرآن کریم کی رو سے تمام مادی تغیرات کو مشیت الہٰی کے ماتحت عذاب کا ذریعہ بھی بنایا جاسکتا ہے اور انعام کا بھی۔ جہاں تک عذاب کا تعلق ہے تو۔ عذاب کی حسب ذیل صورتوں کاقرآن کریم میں واضح ذکر موجود ہے:

(1) مسلسل شدید بارشیں اور زمین کے پانی کی سطح کا بلند ہونا جس کے نتیجہ میں ایسا ہولناک سیلاب ظاہر ہو کہ علاقہ کی تمام آبادی غرق ہوجائے۔

فَدَعَا رَبَّہٗۤ اَنِّیۡ مَغۡلُوۡبٌ فَانۡتَصِرۡ۔ فَفَتَحۡنَاۤ اَبۡوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنۡہَمِرٍ۔ وَّ فَجَّرۡنَا الۡاَرۡضَ عُیُوۡنًا فَالۡتَقَی الۡمَآءُ عَلٰۤی اَمۡرٍ قَدۡ قُدِرَ

(سورۃ القمر، آیت 11-13)

ترجمہ: آخر اس (نوحؑ) نے اپنے رب سے دعا کی اور کہا مجھے دشمن نے مغلوب کرلیا ہے پس تو میرا بدلہ لے۔ جس پر ہم نے بادل کے دروازے ایک جوش سے بہنے والے پانی کے ذریعے کھول دیئے اور زمین میں بھی ہم نے چشمے پھوڑ دیئے۔ پس (آسمان کا) پانی (زمین کے پانی کے ساتھ) ایک ایسی بات کے لئے اکٹھا ہوگیا جس کا فیصلہ ہوچکا تھا۔

(2) ایسی منحوس تیز ہوا ؤں کا چلنا جو مسلسل جاری رہیں یہاں تک کہ آبادیاں ویران ہوجائیں اور انسانی لاشیں ٹوٹے ہوئے درختوں کی طرح ہر طرف بکھری ہوئی دکھائی دیں۔

کَذَّبَتۡ عَادٌ فَکَیۡفَ کَانَ عَذَابِیۡ وَ نُذُرِ۔ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا صَرۡصَرًا فِیۡ یَوۡمِ نَحۡسٍ مُّسۡتَمِرٍّ۔ تَنۡزِعُ النَّاسَ ۙ کَاَنَّہُمۡ اَعۡجَازُ نَخۡلٍ مُّنۡقَعِرٍ

(سورۃالقمر، آیت 19-21)

ترجمہ:عاد قوم نے بھی اپنے رسول کا انکار کیا تھا پھر دیکھو میرا عذاب اور میرا ڈرانا کیسا تھا۔ ہم نے ان پر ایک ایسی ہوا بھیجی جو تیز چلنے والی تھی اور ایک دیر تک رہنے والے منحوس وقت میں چلائی گئی تھی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ پھینکتی تھی گویا وہ کھجور کے ایسے تنے ہیں جن کے اندر کا گودا کھایا ہوا تھا۔

(3) زمین یا آسمان سے ایسی خوفناک گرج یا دھماکوں کا ظاہر ہونا جن کے نتیجہ میں آسمان پتھر برسانے لگے مثلاً آتش فشاں پہاڑوں کے اچانک پھٹنے سے قریب کی بستیوں کا جو حال ہوتا ہے بعینہ اس قسم کی حالت کا ذکر عذاب الہٰی کی صورت میں حسب ذیل آیات میں ملتا ہے۔

فَاَخَذَتۡہُمُ الصَّیۡحَۃُ مُشۡرِقِیۡنَ۔ فَجَعَلۡنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ

(سورۃ الحجر، آیت74-75)

ترجمہ: اس پر اس موعود عذاب نے انہیں (یعنی لوطؑ کی قوم کو) دن چڑھتے ہی پکڑ لیا جس پر ہم نے اس بستی کی اوپر والی سطح کو اس کی نچلی سطح کردیا اور ان پر سنگریزوں سے بنے پتھروں کی بارش برسائی۔

(4) ایسی آندھیوں کا مسلسل جاری رہنا جو مٹی اور ریت کے نتیجے میں بستیوں کو اس طرح دفنا دیں کہ محض دیکھنے کے لئے گھروں کے نشان باقی رہ جائیں۔

تُدَمِّرُ کُلَّ شَیۡءٍۭ بِاَمۡرِ رَبِّہَا فَاَصۡبَحُوۡا لَا یُرٰۤی اِلَّا مَسٰکِنُہُمۡ ؕ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡقَوۡمَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ

(سورۃ الاحقاف، آیت 26)

ترجمہ: یہ ہوااپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کرتی جائے گی نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر صبح ایسے وقت میں آئی کہ صرف ان کے گھر ہی نظر آتے تھے (سب قوم ریت میں دب گئی) اسی طرح ہم مجرم قوم کو سزا دیتے ہیں۔

(5) ایسے پے درپے سیلابوں کا آنا جو کسی خطۂ زمین کی ہیئت ہی بدل ڈالیں اور زرخیز طاقتور زمینوں کو بنجر اور بیکار زمینوں میں تبدیل کردیں۔ جہاں بدذائقہ جنگلی پھلوں، جھاؤ جیسی جڑی بوٹیوں اور جنگلی بیریوں کے سوا اور کچھ نہ اگ سکے۔

فَاَعۡرَضُوۡا فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ سَیۡلَ الۡعَرِمِ وَ بَدَّلۡنٰہُمۡ بِجَنَّتَیۡہِمۡ جَنَّتَیۡنِ ذَوَاتَیۡ اُکُلٍ خَمۡطٍ وَّ اَثۡلٍ وَّ شَیۡءٍ مِّنۡ سِدۡرٍ قَلِیۡلٍ

(سورۃ سبا، آیت 17)

ترجمہ: پھر بھی انہوں نے حق سے پیٹھ پھر لی تب ہم نے (ان کو حق پانے سے محروم قرار دیکر) ان پر ایسا عذاب بھیج دیا جو ہر چیز کو تباہ کرتا جاتا تھا اور ہم نے ان کے دو اعلیٰ درجہ کے باغوں کی جگہ ان کو دو ایسے باغ دیئے جن کے پھل بدمزہ تھے اور جن میں جھاؤ پایا جاتا تھا یا کچھ تھوڑی سی بیریاں تھیں۔

(6) زلازل کا آنا جن کے نتیجہ میں زمین تہہ و بالا ہوجائے اور انسانی آبادیاں دہنس جائیں۔

فَکَذَّبُوۡہُ فَعَقَرُوۡہَا ۪۬ۙ فَدَمۡدَمَ عَلَیۡہِمۡ رَبُّہُمۡ بِذَنۡۢبِہِمۡ فَسَوّٰىہَا

(سورۃالشمس، آیت15)

ترجمہ: لیکن انہوں نے نبی کی بات نہ مانی بلکہ اس کو جھٹلایا اور وہ اونٹنی جس سے بچتے رہنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں جس کی وجہ سے اللہ نے ان کو خاک میں ملانے کا فیصلہ کردیا اور ایسی تدبیریں کیں کہ ایسا ہی ہوگیا۔

(7) ایسی طویل خشک سالی جس سے زمین کا پانی بھی سوکھ جائے اور اتنا گہرا چلا جائے کہ اس کا نکالنا انسانی مقدرت سے بڑھ جائے۔ جیسے فرمایا:

قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُکُمۡ غَوۡرًا فَمَنۡ یَّاۡتِیۡکُمۡ بِمَآءٍ مَّعِیۡنٍ

(سورۃ الملک، آیت31)

ترجمہ: تو یہ بھی کہہ دے کہ مجھے بتاؤ تو سہی کہ اگر تمہارا پانی زمین کی گہرائی میں غائب ہوجائے تو بہنے والا پانی تمہارے لئے خدا کے سوا کون لائے گا۔

(8) قحط کا ظاہر ہونا اور قوم کاشدید خوف و ہراس میں مبتلا ہوجانا۔

وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا قَرۡیَۃً کَانَتۡ اٰمِنَۃً مُّطۡمَئِنَّۃً یَّاۡتِیۡہَا رِزۡقُہَا رَغَدًا مِّنۡ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتۡ بِاَنۡعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَہَا اللّٰہُ لِبَاسَ الۡجُوۡعِ وَ الۡخَوۡفِ بِمَا کَانُوۡا یَصۡنَعُوۡنَ

(سورۃ النحل، آیت 113)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ (تمہیں سمجھانے کے لئے ) ایک بستی کا حال بیان کرتا ہے جسے ( ہر طرح سے) امن حاصل ہے اور اطمینان نصیب ہے ہر طرف سے اس کا رزق اسے بافراغت پہنچ رہا ہے پھر (بھی) اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی۔ اس کی ناشکری پر اللہ نے اس کے باشندوں پر ان کے اپنے گھناؤنے عمل کی وجہ سے بھوک اور خوف کا لباس نازل کیا ہے۔

(9) قوموں اور ملکوں کا خوفناک جنگوں کے ذریعہ ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرنا جس کے نتیجے میں مختلف قسم کی تکالیف کا المناک سلسلہ دیکھنا پڑے۔ جو کئی قسم کی تنگیاں اور مشکلات قوموں پر وارد کرتا ہے یہاں الضرآء سے مراد غالباً ایسی تمام سختیاں اور تکلیفیں ہیں جو بڑی بڑی جنگوں کے بعد عموماً قوموں کو گھیر لیتی ہیں مثلاً آزادیوں کو سلب ہونا۔ اقتصادیات کا تباہ ہونا۔ معاشرہ اور تہذیب و تمدن میں فساد ظاہر ہونا۔ وبائی امراض کا پھوٹنا وغیرہ وغیرہ۔

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذۡنَاۤ اَہۡلَہَا بِالۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمۡ یَضَّرَّعُوۡنَ

(سورۃ الاعراف، آیت 95)

ترجمہ: ہم نے کسی شہر کی طرف کوئی رسول نہیں بھیجا (مگر یوں ہی ہوا کہ) ہم نے اس میں بسنے والوں کو سختی اور مصیبت سے پکڑ لیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں۔

(10) پرندوں کا عذاب الہٰی بن کر کسی قوم پر اترنا۔ جیسے فرمایا:

وَّ اَرۡسَلَ عَلَیۡہِمۡ طَیۡرًا اَبَابِیۡلَ ۙ۔ تَرۡمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۪ۙ۔ فَجَعَلَہُمۡ کَعَصۡفٍ مَّاۡکُوۡلٍ

(سورۃ الفیل، آیت4-6)

ترجمہ: اور ان (کی لاشوں) پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے بھیجے (جو) ان (کے گوشت) کو سخت قسم کے پتھروں پر مارتے (اور نوچتے) تھے۔ سواس کے نتیجہ میں اس نے انہیں ایسے بھوسے کی مانند کردیا جسے جانوروں نے کھالیا ہو۔

(11) کسی بڑی جھیل یا ڈیم کا اس طرح اچانک تباہ ہوجانا کہ گویا پوری کی پوری جھیل کسی قوم پر عذاب کی شکل میں الٹ گئی ہو۔

فَصَبَّ عَلَیۡہِمۡ رَبُّکَ سَوۡطَ عَذَابٍ ۔ اِنَّ رَبَّکَ لَبِالۡمِرۡصَادِ

(سورۃ الفجر، آیت 14-15)

ترجمہ: جس پر تیرے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا*برسایا۔ تیرا رب یقیناً گھات میں (لگا ہوا) ہے۔

]*سوط جوہڑ کو بھی کہتے ہیں یعنی اس نشیب دار زمین کو بھی سوط کہا جاتا ہے جہاں پانی جمع ہوجاتا ہے۔ (اقرب الموارد)[

(12) موسمی تغیرات کے نتیجہ میں خشکی تری اور ہوا کے ایسے جانوروں کا بکثرت پیدا ہوجانا۔جو مشیت الہٰی کے مطابق کسی قوم میں عذاب کے سے حالات پیداکردیویں یا مختلف بیماریوں کی افزائش کا موجب ہوں مثلاً ٹڈی دل، مینڈک، جوئیں، پسو، مچھر اور اس قسم کے دوسرے حشرات الارض اور ایسے جراثیم جو خونی بیماریاں پیدا کردیں مثلاً پیچش اور جریان خون سے تعلق رکھنے والی بیماریاں وغیرہ۔

فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الطُّوۡفَانَ وَ الۡجَرَادَ وَ الۡقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ

(سورۃ الاعراف، آیت 134)

ترجمہ: تب ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون بھیجا۔ یہ الگ الگ نشان تھے۔

(13) کسی قوم پر ایسی دوسری قوم کو مسلط کرنا جو ان کو طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کریں اور ایسا ایمان لانے کے نتیجہ میں نہ ہو بلکہ دیگر عوامل اس کے ذمہ دار ہوں مثلاً یہود کے متعلق قرآن کریم کی یہ خبر کہ ان کے لئے مقدر کیا گیا ہے کہ قیامت تک ان پر ایسی قومیں مسلط رہیں جو انہیں طرح طرح کے عذاب دیں۔

وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبۡعَثَنَّ عَلَیۡہِمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَنۡ یَّسُوۡمُہُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ ؕ اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیۡعُ الۡعِقَابِ ۚۖ وَ اِنَّہٗ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ

(سورۃ الاعراف،آیت 168)

ترجمہ: اور یادکر جب تیرے رب نے اعلان کر دیا کہ ان (یہود) پر قیامت کے دن تک ایسے لوگ مقرر کردے گا جو انہیں تکلیف دہ عذاب دیتے چلے جائیں گے (پھر کیا ایسا ہوا یا نہیں ہوا؟) تیرا رب یقیناً بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

عذاب کی جتنی قسمیں اوپر بیان ہوئی ہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ چار معروف عناصر طبعی میں سے ان کا تعلق تین عناصر سے نظر آتا ہے لیکن چوتھے عنصر کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ سب عذاب کی قسمیں۔ مٹی، پانی یا ہوا سے تعلق رکھتی ہیں یا ان جانوروں سے تعلق رکھتی ہیں جو مٹی، پانی یا ہوا میں بسنے والے ہیں لیکن چوتھے عنصر یعنی آگ کے عذاب کا گذشتہ قوموں کے تعلق میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ آگ کے ابتلاء سے نیک بندوں کی آزمائش کی گئی جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ میں اور سورۃ البروج کے بیان کردہ مضمون سے واضح ہے۔ لیکن جہاں تک آگ کے عذاب کا تعلق ہے۔ آگ کے عذاب کا اس دنیا میں گزری ہوئی امتوں کے بیان میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ لیکن جہاں تک قرآن کریم کی پیشگوئیوں کا تعلق ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مسلسل انکار کے نتیجہ میں قوموں کو آئندہ آگ کا عذاب بھی دیا جانا مقدر تھا۔ قرآن کریم کی مختلف آیات میں اس کا اشارۃً یا صراحتاً ذکر ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

اِنۡطَلِقُوۡۤا اِلٰی ظِلٍّ ذِیۡ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ لَّا ظَلِیۡلٍ وَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ اللَّہَبِ۔ اِنَّہَا تَرۡمِیۡ بِشَرَرٍ کَالۡقَصۡرِ۔ کَاَنَّہٗ جِمٰلَتٌ صُفۡرٌ۔ وَیۡلٌ یَّوۡمَئِذٍ لِّلۡمُکَذِّبِیۡنَ

(سورۃ المرسلت، آیت 31-35)

ترجمہ:۔ (ہم ان سے کہیں گے) جس چیز کو تم جھٹلاتے تھے اسی کی طرف جاؤ یعنی اس سائے کی طرف جاؤ جس کے تین پہلو ہیں۔ نہ تو وہ سایہ دیتا ہے اور نہ تپش سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ وہ اتنے اونچے شعلے پھینکتا ہے جو قلعے کے برابر ہوتے ہیں۔ اتنے اونچے کہ گویا وہ بڑے بڑے جہازوں کے باندھنے والے زرد رسے معلوم ہوتے ہیں اس دن جھٹلانے والوں پر تباہی آئے گی۔

اس آیت میں جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ زمانہ حاضرہ کی جنگوں سے بہت ملتا جلتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں پہلی مرتبہ جنگ کا مہیب سایہ تین نمایاں شعبے رکھتا ہے۔ فضائی، بری اور بحری۔ اور یہ تینوں شعبے آگ برسانے والے ہیں۔ اِنَّہَا تَرۡمِیۡ بِشَرَرٍ کَالۡقَصۡرِ میں قلعوں کی طرح جو بلند شعلے پھینکنے کا منظر ہے وہ بعینہ جدید آلات حرب کے آگ اگلنے کی تصویر ہے۔ اسی طرح سورۃ الھمزہ میں جس آگ سے ڈرایا گیا ہے اس کا بھی عہد حاضر سے تعلق معلوم ہوتا ہے۔ فرمایا:

وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣ ۙ۔ الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ ۙ۔ یَحۡسَبُ اَنَّ مَالَہٗۤ اَخۡلَدَہٗ ۚ۔ کَلَّا لَیُنۡۢبَذَنَّ فِی الۡحُطَمَۃِ۔ وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡحُطَمَۃُ۔ نَارُ اللّٰہِ الۡمُوۡقَدَۃُۙ۔ الَّتِیۡ تَطَّلِعُ عَلَی الۡاَفۡـِٕدَۃِ ؕ۔ اِنَّہَا عَلَیۡہِمۡ مُّؤۡصَدَۃٌ ۙ۔ فِیۡ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ۔

(سورۃ الحمزہ، آیت 2-10)

ترجمہ: ہر غیبت کرنے والے اور غیب چینی کرنے والے کے لئے عذاب ہے۔ جو مال کو جمع کرتا ہے اور اس کو شمار کرتا رہتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اس کے نام کو باقی رکھے گا۔ ہر گز ایسا نہیں (جیسا کہ اس کا خیال ہے بلکہ) وہ یقینا ً اپنے مال سمیت حطمہ میں پھینکا جائے گا اور (اے مخاطب!)تجھے کیا معلوم ہے کہ یہ حطمہ کیا شے ہے؟ یہ (حطمہ) اللہ کی خوب بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں کے اندر تک جا پہنچے گی پھر وہ آگ سب طرف سے بند کر دی جائے گی تا کہ اس کی گرمی ان کو اور بھی زیادہ تکلیف دہ محسوس ہو اور وہ لوگ لمبے ستونوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہوں گے۔

یہاں کسی فرد کا نہیں بلکہ ایک قوم کا ذکر معلوم ہوتا ہے کیونکہ فرد واحد خواہ کیسا ہی امیر کیوں نہ ہو وہ کبھی بھی یہ وہم نہیں کر سکتا کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ کی زندگی عطا کر سکتا ہے۔ البتہ امیر قومیں جن کو دولت کا غلبہ نصیب ہو جائے، دولت کے بل بوتے پر ضرور اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جایا کرتی ہیں کہ ان کا غلبہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ ان کو جس عذاب سے خبردار کیا گیا ہے وہ بھی ایسا آگ کا عذاب ہے جو اپنی شدت کی وجہ سے دلوں پر جھپٹتا ہے۔ یعنی آن واحد میں دلوں سے زندگی اچک لینے والا ہے۔آج کل کے ایٹمی ہتھیار بالکل اس نقشہ پر پورا اتر رہے ہیں اور ایٹم بم کے پھٹنے سے پہلے اس کے مرکز کا کھینچ کر لمبا ہو جانا نیز حطمہ کے معنیٰ ریزہ ریزہ کی ہوئی شئی یعنی باریک ترین ریزے، یہ دونوں امور بھی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ بہرحال جس آگ کے عذاب کی خبر دی گئی ہے وہ اسی دنیا سے تعلق رکھتا ہے اور اسی کے نتیجہ میں اس متکبر، مال و دولت کے نشہ میں سر شار قوم کی تباہی معلوم ہوتی ہے جو اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے خواب دیکھ رہی ہو۔

مذکورہ بالا آگ کے عذاب کی پیش خبریوں کو اگر پہلے مضمون کے ساتھ ملا لیا جائے تو معلوم ہو تا ہےکہ چاروں عناصر یعنی پانی، مٹی، ہوا اور آگ اللہ تعالیٰ کے تصرف کے تحت عذاب کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں اور یہی وہ چاروں عناصر ہیں جو انعام کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ پس عذاب کے لئے طبعی قوانین کا مسخر ہونا ہر گز کسی اچنبے کی بات نہیں۔ لازماً ہر قسم کے نقصان اور فائدے انہیں طبعی عناصر کے ساتھ وابستہ ہیں۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ دنیا میں ہمیشہ ہر زمانے میں ایسے تغیرات ہوتے ہی رہتے ہیں جن کے نتیجے میں آگ، پانی،ہوا اور مٹی کبھی انسان کو فائدہ دے رہے ہوتے ہیں۔ کبھی نقصان،کبھی تنگی کے سامان پیدا کرتے ہیں۔ کبھی آسائش کے۔ تو کیوں بلاوجہ اس کو غیر معمولی تصرف الہٰی قرار دیا جائے؟ اور کیوں بعض حالات کو بعض اوقات عام طبعی تغیرات قرار دیا جائے اور بعض اوقات انہیں خاص تصرفات کا نام دیا جائے؟ جب سے دنیا بنی ہے ایسا ہوتا چلا آیا ہے۔ یہ کوئی نیا سوال نہیں۔ اور جدید زمانے کے انسان نے اس اعتراض کے ذریعہ ایسی نئی بات پیدا نہیں کی جو پہلے انسانوں کو نہ سوجھی ہو۔ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ بعینہ یہی اعتراض انبیاء پر کیا گیا۔ جیسا کہ فرمایا:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذۡنَاۤ اَہۡلَہَا بِالۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمۡ یَضَّرَّعُوۡنَ۔ ثُمَّ بَدَّلۡنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الۡحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوۡا وَّ قَالُوۡا قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذۡنٰہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ۔

(سورۃ الا عراف آیت 95-96)

ترجمہ: اور ہم نے کسی شہر کی طرف کوئی رسول نہیں بھیجا (مگر یوں بھی ہو ا کہ)ہم نے اس میں بسنے والوں کو سختی اور مصیبت سے پکڑ لیا تا کہ وہ عاجزی اور زاری کریں۔ پھر ہم نے تکلیف کی جگہ سہولت کو بدل دیا یہاں تک کہ جب وہ ترقی کر گئے اور کہنے لگے کہ تکلیفیں اور سکھ تو ہمارے باپ دادوں پر بھی آیا کرتے تھے (اگر ہمیں آئے تو کوئی نئی بات نہیں) پس ہم نے ان کو اچانک عذاب سے پکڑ لیا اور وہ سمجھتے نہ تھے (کہ ایسا کیوں ہوا)۔

ہمارا یہ محض کہہ دینا کہ یہ اعتراض قدیم سے کیا جا رہا ہے کوئی مثبت تسلی بخش جواب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جب تک ہم ان تغیرات کو جو عذاب الہٰی کا نام پاتے ہیں دوسرے عام تغیرات سے ممتاز کر کے اس طرح پیش نہ کریں کہ ایک بیّن فرق نظر آنے لگے اور دل مطمئن نظر آنے لگیں اور یہ کہ دونوں طبعاً ایک ہونے کے باوجود دونوں الگ الگ دائروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت تک یہ مضمون مکمل نہیں ہو سکتا۔ قبل ازیں فرعون کی ہلاکت کے ذکر میں ایک ایسا پہلو بیان کیا جاچکا ہے جو فرعون کی ہلاکت کے طبعی سامان کو اس سے ملتے جلتے دوسرے واقعات سے قطعی طور پر ممتاز کر کے دکھاتا ہے۔ یعنی قرآن کی پیش گوئی کے مطابق فرعون کی لاش کا انتہائی مشکل حالات میں محفوظ رکھا جانا اور سینکڑوں سال کے بعددریافت ہو کر انسان کے لئے عبرت کا نشان بننا، اس واقعہ کو عذاب الہٰی ثابت کرنے کا ایک ٹھوس ثبوت پیش کرتا ہے لیکن اس پر بات ختم نہیں ہو جاتی۔ قرآن کریم ایسے نمایاں اور واضح دلائل پیش کرتا ہے جس پر غو ر کرنے سے ایک منصف مزاج کی عقل بآسانی مطمئن ہو سکتی ہے۔

عذاب الہٰی کا نظام اگرچہ ایک پہلو سے عام طبعی قوانین سے تعلق رکھتا ہے مگر بعض دوسرے پہلوؤں سے ایسی الگ اور ممتازحیثیت رکھتا ہے کہ دونوں میں نمایاں فرق ہو جائے۔ اس حصۂ مضمون پر ہم آئندہ روشنی ڈالیں گے۔ ان شاء اللہ ۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ یہ سوال بھی زیر بحث لائیں گے کہ جب کوئی قوم عذاب الہٰی میں مبتلا کی جائے یا کسی قوم پر عذاب الہٰی نازل ہونے کی خبر دی جائے تو مومنین کی جماعت پرکیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ان کا کیا رد عمل ہونا چاہئے۔ مضمون کا یہ حصہ موجودہ زمانہ میں جماعت احمدیہ کی صحیح تربیت کے لحاظ سے بہت اہم ہے اوراس بارہ میں لاعلمی کے نتیجہ میں اس بات کا احتمال ہے کہ بعض احمدی ایسا ردعمل دکھائیں جو سنت انبیاء ؑ اور مومنوں کی شان کے خلاف ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین

(باقی آئندہ ان شاء اللہ)

(قسط اوّل)

(قسط سوم)

(قسط چہارم)

(قسط پنجم)

(قسط ششم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 1 جولائی 2020ء